• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر جاوید لغاری کی مدت ملازمت 27 اگست کو پوری ہورہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی جعلی ڈگریوں کے معاملے پر بھرپور اور دو ٹوک موٴقف اختیار کرنے والے ڈاکٹر جاوید لغاری کو ملازمت میں توسیع مل سکے گی یا جعلی ڈگریوں کے معاملے پر ان کی واضح موٴقف کی وجہ سے پائی جانے والی مخالفت کے نتیجے میں ان کے گھر جانے میں ہی بہتری سمجھی جائے گی۔ کیا جعلی ڈگری والے ارکان ایچ ای سی کے چیئرمین کی ملازمت میں توسیع رکوا دیں گے؟ باوثوق ذرائع کے مطابق اب جبکہ ڈاکٹر جاوید لغاری اپنے عہدے کی چار سالہ مدت پوری کرنے کے قریب ہیں ۔ مختلف حلقے اس پرکشش اور پروقار سیٹ پر اپنی پسندیدہ شخصیات کی تقرری کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔ ”دی نیوز“ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق متعلقہ محکمہ کے وزیر محمد بلیغ الرحمن ڈاکٹر جاوید لغاری کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سمری منظوری کیلئے بھیج چکے ہیں تاہم ان کی پارٹی کے کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی ہے۔ جعلی ڈگریوں کی چھان بین کے معاملے پر ڈاکٹر جاوید لغاری کے ٹھوس موٴقف سے نالاں اور اختلاف رکھنے والے بااثر سیاستدان بشمول ایک سابق وزیر نے ن لیگ کی قیادت سے کہا ہے کہ ڈاکٹر جاوید لغاری کو توسیع نہ دی جائے۔ (ن) لیگ کے ایک سرکردہ رہنما نے ڈاکٹر جاوید لغاری کی توسیع کے بارے میں پارٹی کے لوگوں میں پائی جانے والی تشویش کی تصدیق کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت اس معاملے کو اچھے طریقے سے حل کرے گی۔
متذکرہ خبر میں جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے وہ بجا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن حکومت پاکستان کا ایک اعلیٰ ترین اور فعال ادارہ ہے۔ جس کے ذمے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اور اسے عالمی معیار اور تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہے یہ ادارہ اس مقصد کیلئے یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر تعلیمی پروگرام مرتب کرتا اور وفاق کے ان اکا دکا اداروں میں سے ہے جس کی اعلیٰ اور بے داغ کارکردگی کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا ہے، اس ادارے کی وساطت سے وہ ہزاروں پاکستانی اسکالرز یورپ کی یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں جو اپنے کم وسائل کی وجہ سے شاید اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے، اس کے علاوہ اندرون ملک بھی علمی تحقیق کے معیار کو بلند تر کرنے کیلئے بہت سے عملی اقدامات کئے گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یونیورسٹیوں کی علمی فضا بتدریج بہتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس بہتری کا بنیادی سہرا ڈاکٹر عطاء الرحمن اور بالواسطہ طور پر جنرل پرویز مشرف کے سر بندھتا ہے۔ جنرل نے یہ ادارہ قائم کیا اور ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اس ادارے کو اپنی بہترین صلاحیت سے منزل کی طرف رواں دواں کیا یہ ڈاکٹر صاحب کی وسیع النظری ہے کہ وہ اپنے محسن کے اس احسان کو نہیں بھولے، ان کے بعد یہ ذمہ داری ڈاکٹر جاوید لغاری کے کندھوں پر ڈالی گئی اور انہوں نے ایچ ای سی کو پہلے سے کہیں زیادہ فعال اور قابل اعتماد ادارہ بنانے میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کردیں اور شب و روز کام کر کے اس ادارے کے اغراض و مقاصد کو بھرپور طور پر عملی جامہ پہنایا۔
اب ڈاکٹر جاوید لغاری کا کنٹریکٹ 27 اگست 2013ء یعنی تین دن بعد ختم ہورہا ہے مگر اس کی توسیع میں وہ سیاستدان آڑے آنے کی کوشش کررہے ہیں جن کی جعلی ڈگری کی نشاندہی ایچ ای سی نے کی اور اب وہ ڈاکٹر جاوید لغاری کو ان کے کیے کی سزا دلوانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید لغاری کا تعلق سندھ سے ہے اور پی پی پی پی کے دور میں بھی انہوں نے اپنے عادلانہ فیصلوں کی سزا مختلف صورتوں میں بھگتی، تاہم مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے دور میں میرٹ پر سیاست کو ترجیح نہیں دی جائے گی اور ان کے کنٹریکٹ کی توسیع میں کوئی سیاست دان رکاوٹ نہ ڈال سکے گا۔
مجھے وزیراعظم پاکستان سے ایک گزارش یہ بھی کرنا ہے کہ وفاق کے بہت سے ادارے اس وقت سربراہی کے نقطہ نظر سے شش و پنج میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ابھی تک وہاں بہت سی نشستیں خالی پڑی ہیں اور یوں سب کام رکے ہوئے ہیں۔ اس طرح ہمارے سفارت خانوں میں ابھی تک وہ عملہ موجود ہے جس کے بعض اہلکار الیکشن کے دنوں میں اپنے ناموں کے ساتھ فیس بک پر تحریک انصاف کی کمپین چلاتے رہے ہیں۔ یہی صورتحال بعض دوسرے اداروں میں بھی موجود ہے۔ ابھی تک سندھ اور کے پی کے میں گورنروں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا، برطانیہ میں پی پی پی کے واجد شمس الحسن سفارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور امریکہ جیسے اہم ملک میں ابھی تک کسی سفیر کا تقرر نہیں ہوا، اسی طرح وزارت دفاع، قانون اور کامرس کا قلمدان بھی ابھی تک وزیراعظم کے پاس ہے۔ چنانچہ جہاں وزیراعظم سے میری گزارش ہے کہ وہ ایچ ای سی کی کمان ڈاکٹر جاوید لغاری کو سونپیں تاکہ ان کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہ سکے اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کیلئے ان کے جو منصوبے پائپ لائن میں ہیں ان کی تکمیل احسن طریقے سے ممکن ہو، اسی طرح دیگر اہم مناصب پر بھی فوری طور پر اہل افراد کو تعینات کیا جائے، کیونکہ خالی گھروں میں بھوت بسیرا کرلیتے ہیں۔
اور اب آخر میں ظفر اقبال کی تازہ غزل میں اصولی طور پر کالم میں درج کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ لیکن دوچار ماہ بعد ”مجبوراً“ ظفر اقبال کی عنایت کردہ تازہ غزل شامل کالم کر دیتا ہوں کہ اس وقت پاک و ہند میں ان سے بڑا غزل کا شاعر کوئی نہیں! غزل ملاحظہ فرمائیں!
دشت ہو کوئی خیابان سے ملتا جلتا
ایک امکان، بس امکان سے ملتا جلتا
سوچ ہی سکتے ہیں اور چھو نہیں سکتے اس کو
جسم ایسا بھی ہے اک جان سے ملتا جلتا
رہی اپنی ہی طرف ساری توجہ اسکی
میزباں تھا ہی وہ مہمان سے ملتا جلتا
کاروبار اور نہ کر پائے محبت کے سوا
نفع بھی جس میں ہے نقصان سے ملتا جلتا
ساتھ ہی لے گیا وہ ساری امیدیں، یادیں
تھا یہی کچھ سروسامان سے ملتا جلتا
دامن اپنا بھی نہیں صاف ہمارا، جس پر
کوئی دھبہ ہے کسی دھیان سے ملتا جلتا
گھومتے اور ٹہلتے ہیں یہیں شام و سحر
دل جو اپنا ہے یہ دالان سے ملتا جلتا
عاقبت بھی یہی کام آئے تو آئے شاید
کفر اپنا جو ہے ایمان سے ملتا جلتا
ہو تو سکتی ہے ظفر میں بھی کچھ انسانیت
اچھا خاصا ہے یہ انسان سے ملتا جلتا
تازہ ترین