• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حزب اختلاف کی جانب سے بائیکاٹ ختم کرکے پارلیمنٹ میں جانے اور پاناما لیکس اور کرپشن کے دیگر معاملات کی عدالتی تحقیقات کے لیے متفقہ شرائط کار طے کرنے کی خاطر پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے وزیر اعظم کی پیش کش قبول کرنے کا فیصلہ یقیناًسنجیدگی اور سیاسی بالغ نظری کا بہتر مظاہرہ ہے۔ اس کے نتیجے میں آئینی نظام اور جمہوریت کے استحکام کو خطرے میں ڈالے بغیر بامعنی احتساب کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے جبکہ پارلیمنٹ سے باہر احتجاج، الزام تراشی اور شور شرابے کی سیاست سے ملک میں افراتفری اوربے یقینی کا پھیلنا لازمی ہے جس سے آئینی نظام کی بساط لپیٹنے جانے کے خطرات جنم لیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کااعلان منگل کو قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہونے والے طویل اجلاس کے بعد کیا گیا ۔اس اجلاس کے بعد قائد حزب اختلاف نے اسپیکر قومی اسمبلی سے ان کے چیمبر میں ملاقات کرکے انہیں اپوزیشن کے فیصلے سے آگاہ کیا اور پھر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم نے کرپشن کے خاتمے کے لیے جس پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی بات کی ہے،اپوزیشن اس کے لیے اپنے نمائندے مقرر کرنے کو بھی تیار ہے۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ ختم کرنے کا فیصلہ ضرور کیا گیا ہے لیکن حزب اختلاف اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی ہے، وزیر اعظم کے خطاب سے جو نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں،انہیں ان کا جواب بہرصورت دینا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے لیے اپوزیشن کی طرف سے آٹھ مختلف معاملات پر ستر سوالات مرتب کیے گئے ہیں۔سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے بھی وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ حقائق کا سامنا کریں تقریروں سے کام نہیں چلے گا۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے پاناما لیکس میں شامل تمام بدعنوانوں کو ہر حال میں بے نقاب کرے کے عزم کا اظہار کیا جبکہ مسلم لیگ (ق) کے قائد پرویز الٰہی نے اس توقع کے اظہار کے ساتھ کہ اپوزیشن کے ستر سوال حکومت کے لیے مزید پریشانی کا سبب بنیں گے، متحدہ حزب اختلاف سے ایم کیو ایم کی علیحدگی کے اعلان کے باوجود دعویٰ کیا کہ اپوزیشن متحد ہے اور ایک روز قبل پارلیمانی اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ تمام جماعتوں کی متفقہ حکمت عملی کے مطابق تھا اور اپوزیشن آئندہ بھی متفقہ لائحہ عمل اپنائے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے دو روز قبل پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی تقریر کے بعد فوری طور پر اپنا موقف پیش کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے پر جس طرح بیشتر سیاسی مبصرین نے حیرت کا اظہار کیا تھا اسی طرح سوال در سوال کی یہ حکمت عملی بھی بظاہر قابل فہم ہے نہ اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سوال پر سوال اور ان کے جواب پر اصرار کا یہ عمل معاملے کے حقیقی حل یعنی پاناما لیکس سمیت ہر قسم کے کرپشن کے اہمیت کی بنیاد پر منتخب کیے گئے مخصوص معاملات کی عدالتی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے قیام اور اس کے لیے قابل عمل اور نتیجہ خیز شرائط کار کے تعین کو مؤخر کرنے ہی کا سبب بنے گا۔ اس صورت حال میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کشیدگی جاری رہے گی اور ملک میں بے یقینی بڑھے گی۔ افراتفری کی یہ کیفیت ماضی کے کئی تجربات کی طرح جمہوری نظام کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتی ہے ۔لہٰذا حب الوطنی اور قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو ہر قسم کے کرپشن سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانے کی خاطر بامعنی عدالتی تحقیقات اور نتیجہ خیز احتساب کی راہ ہموار کریں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں مکمل اختیارات کے حامل عدالتی کمیشن کے لیے شرائط کار طے کرنے کی خاطرکسی مزید تاخیر کے بغیر پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے اور وہ حتی الامکان کم سے کم وقت میں اپنا کام مکمل کرکے کمیشن کے قیام کا راستہ صاف کرے۔ اس کے لیے قانون سازی ضروری ہو تو اس سمت میں بھی فوری پیش رفت کی جائے تاکہ عدالتی کمیشن جلد از جلد اپنا کام شروع کرسکے جو پاناما لیکس سمیت کرپشن کے تمام خصوصی معاملات کے تصفیے کا واحد پرامن اور مؤثر طریقہ ہے۔
تازہ ترین