نصف صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں
اگرچہ پاکستان 14دسمبر 1971کو مشرقی محاذ پر جنگ ہار چکا تھا، بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑا جس کے پاس بھارت کی مسلح افواج کی مشرقی کمان تھی، کا انتظار تھا لہٰذا 16دسمبر 1971کو پلٹن میدان میں پاکستانی پرچم ’’سرنگوں‘‘ ہوا، یہ عالمِ اسلام کی تاریخ کا سیاہ دن تھا۔ میں اُس وقت گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال میں گریجویشن کا طالبعلم تھا، میں اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ دفاع پاکستان کے لیے مشرقی پاکستان جانا چاہتا تھا لیکن ہنگامی بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں تھا، البدر اور الشمس کی افرادی قوت بھی بنگالیوں اور بہاریوں پر مشتمل تھی، اُس وقت سب سے زیادہ قابلِ اعتبار نشریاتی ادارہ بی بی سی تھا جو ہر روز بھارت کی مسلح افواج کی پیش قدمی کی خبریں نشر کررہا تھا، اکثر و بیشتر پاکستانی بی بی سی کی خبریں باقاعدگی سے سنا کرتے تھے پھر اسی ادارے نے سقوطِ ڈھاکہ کی خبر سنائی تو دل ڈوب ہی گیا۔ پاکستان کی مشرقی محاذ پر شکست کے صدمہ نے رلا ہی دیا۔ میں نے اپنی جوانی میں پاکستان کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ کئی روز میں سکون کی نیند نہ سو سکا۔ نصف صدی بعد یومِ سقوطِ ڈھاکہ کی یاد میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں نشست کا انعقاد کیا گیا تو تمام شرکاء نے اِس دن کے حوالے سے اپنا اپنا درد بیان کیا۔ جماعت اسلامی کے رہنما شاہد شمسی جو آخری وقت تک مشرقی پاکستان میں موجود رہے، نے رودادِ سقوطِ ڈھاکہ بیان کی۔ مارچ 1994کے تیسرے ہفتے ڈھاکہ میں سارک ممالک کے پریس کلبوں کی کانفرنس منعقد ہوئی تو میں نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر کی حیثیت سے نمائندگی کی۔ میرے لیے وہ لمحہ بھی بڑا بھاری تھا جب پی آئی اے کا طیارہ سرسبز و شاداب ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترا، میری آنکھوں سے بےاختیار آنسوئوں کے دریا بہنے لگے، میں اس سرزمین پر ایک ’’اجنبی‘‘ کی طرح قدم رکھ ر ہا تھا جو 16دسمبر 1971ءکو میرے ملک کا حصہ تھا، اس کی فضائوں پر پاکستان کا جھنڈا لہراتا تھا لیکن اب اس سرزمین پر سہواً پاکستان کا نام لینے والوں پر غداری کے جرم میں مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے۔ سارک ممالک پریس کلبز کانفرنس کے منتظمین نے پاکستان کے پریس کلبز کے وفد کو جس ہوٹل میں ٹھہرایا تھا وہاں جب ایک ویٹر کو معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو میں نے اس کے چہرے کی مسکراہٹ سے اندازہ لگا لیا کہ اسے ایک پاکستانی سے مل کر کتنی خوشی ہوئی ہے۔ میرے کمرے کے دروازے کو چٹخنی لگا کر اس نے میرے سامنے اپنا دل کھول دیا، اس نے کہا کہ ’’میں اونچی آواز میں پاکستان کا نام بھی نہیں لے سکتا، اگر انٹیلی جنس کے کسی اہلکار نے سن لیا تو غداری کے کیس میں دھر لیا جائوں گا، بنگلہ دیش میں پاکستان کا ذکر کرنا اپنے آپ کو غداری کا مقدمہ چلانے کو دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔ گو کہ میں سارک ممالک کے پریس کلبز کی کانفرنس میں پریس کلبوں کے درمیان رابطے مستحکم کرنے کے لیے آیا تھا لیکن میں ڈھاکہ میں ایک ہفتہ قیام پذیر رہا، میں ’’گمشدہ پاکستان‘‘ کی تلاش میں رہا، میں صبح شام اُن پاکستانیوں سے رابطے کرتا رہا جنہوں نے 16دسمبر 1971سے قبل پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سربلند کیے رکھا، پاکستان دو لخت تو ہوگیا لیکن وہ آج بھی اپنے دلوں میں پاکستان کو بسائے ہوئے ہیں۔ میں انہی بنگالیوں سے ملاقاتیں کرنے کے لیے ڈھاکہ کے گلی کوچوں میں پھرتا رہا۔ بعد ازاں بیگم حسینہ واجد کی حکومت نے اُنہیں پاکستان سے وفاداری کرنے کے جرم میں پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا۔ اُن شہدائے پاکستان میں پروفیسر غلام اعظم، چوہدری صلاح الدین اور کرنل فاروق (جنہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کو گولی ماری تھی) کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی اُن بنگالیوں نے 24، 25سال گزرنے کے باوجود بنگلہ دیش کو دل سے تسلیم کیا اور نہ ہی ان کو بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے ایک باوقار شہری کا درجہ دیا ہے بلکہ اُن کو ہمیشہ پاکستان کا ایجنٹ اور غدار ہی سمجھا۔ یہی وجہ ہے جب بیگم حسینہ واجد کی حکومت برسر اقتدار آئی اس نے چن چن کر ان لوگوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جنہوں نے 15اگست 1975میں ان کےوالد شیخ مجیب الرحمن سمیت پورے خاندان کو موت کی نیند سلا دیا (بیگم حسینہ واجد بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے زندہ بچ گئیں) بیگم حسینہ واجد نے اُن سرکردہ بنگالیوں کو جن کا تعلق جماعت اسلامی اور مسلم لیگ سے تھا، کو بھی موت کی سزا دی جن کے بارے میں اسے شک تھا کہ انہوں نے بنگلہ دیش بننے کی مخالفت کی، البدر اور الشمس سے ان کا کوئی تعلق تھا، کرنل فاروق نے کاکول اکیڈمی سے تربیت حاصل کی تھی، ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو میں نے اُن کو راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے میٹ دی پریس پروگرام میں بھی مدعو کیا تھا، میں نے ان سے ڈھاکہ چھائونی میں ایک میس میں ملاقات کی تھی جہاں وہ عوامی غیظ و غصب سے بچنے کے لیے مقیم تھے، بیگم حسینہ واجد اُنہیں پاکستان کا ایجنٹ تصور کرتی تھیں اور شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل میں پاکستان کو ملوث کرتی تھیں، ان کی پاکستان سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ وہ ڈھاکہ میں اس کرکٹ میچ سے اٹھ کر چلی گئی تھیں جس میں پاکستان بنگلہ دیش کے مقابلے میں جیت رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں پاکستان کو ٹرافی نہیں دینا چاہتی تھیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بنگلہ دیش کی سیاست ’’پرو پاکستان اور پرو انڈیا‘‘ میں منقسم ہے۔ خالدہ ضیاء کی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کو پاکستان نواز ہونے کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے۔ مشاہد حسین سید نےوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم بیگم حسینہ واجد نے سفارتی آداب کا لحاظ رکھے بغیر بھری محفل میں کہا کہ ’’مشاہد حسین تم اپنی خفیہ ایجنسی کو خالدہ ضیاء کی پشت پناہی کرنے سے منع کرو‘‘ لیکن وہ خود یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر کو وائسرائے کی حیثیت حاصل ہے، میں نے بنگالیوں کو ایک اچھا مسلمان پایا، مجھے ڈھاکہ کی سب سے بڑی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اور بنگالیوں سے ملنے کا موقع ملا۔ میں اُس پلٹن میدان کی تلاش میں گیا جہاں متحدہ پاکستان کے آخری لیڈر سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے 1970کے انتخاب کے دوران جلسہ سے خطاب کیا تو عوامی لیگ کے غنڈوں نے جلسہ الٹ دیا، اس واقعہ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالبعلم عبدالمالک شہید ہو گیا، یہ وہی پلٹن میدان ہے جہاں جنرل اے اے کے نیازی نے بھارتی ایسٹرن کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اپنا پستول اس کے حوالے کیا، آج پلٹن میدان ختم ہو گیا ہے۔ (جاری ہے)