• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں وہ ملک جن کی معیشت تباہ ہوچکی ہے انکا دفاعی اور دیگر شعبوں میںبجٹ تو اربوں روپے کا ہے، مگر تعلیم کیلئے بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے، یہی انکی تباہی کا باعث ہے۔بدقسمتی سے پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ کوئی بھی ملک اگرچاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو اسکو چاہئے کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کو مضبوط اورسرکاری سطح پر یونیورسٹیوں، میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر پروفیشنل اداروں کی تعدا د میں اضافہ کرے۔ آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے۔ صرف علم حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کا اطلاق بھی ضروری ہے۔تعلیمی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 21فیصد پرائمری اسکول ایسے ہیں جن کو صرف ایک استاد کی مدد سے چلایا جا رہا ہے اور 14فیصد ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ 40فیصد اسکول ایسےہیں جہاں بجلی نہیں ہے، 29فیصد اسکولوں میں پینے کا صاف پانی نہیں، 43 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور 7فیصد ایسے ہیں جن کے پاس کوئی عمارت ہی نہیں۔ماہرینِ تعلیم کے مطابق پاکستان میں شرحِ خواندگی کا 35فیصد ہونا ملک کی معاشی ترقی کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ اسی تناظر میں مجھے چند روز قبل لاہور کے قلمکاروں کے بارہ رکنی وفد کے ہمراہ بہاولپور کے دورے اور عظیم دانش گاہ اسلامیہ یونیورسٹی کےدورےکا موقع ملا۔ ہمیں اس دورے کی خصوصی دعوت رئیس الجامعہ جناب ڈاکٹر اطہر محبوب نے دی تھی۔ بہاولپور یو نیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے دورےکے دوران یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ تمام شعبے دور حاضر کی جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں اور طلبا و طالبات بہتر علمی و تحقیقی ما حول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جامعہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ جنوبی پنجا ب کی درسگاہ ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ صرف دو سال میںموجودہ وائس چانسلر نے طلبا و طالبات کی تعداد کو تیرہ ہزار سے باون ہزار تک پہنچا دیا ہے۔ یہ قابلِ تحسین امر ہےکہ اِس قدر مختصر عرصے میں طلبا و طالبات کی تعداد کا اِس قدر بڑھ جا نا واقعی ایک بہت بڑی کامیابی ہے جسکا تمام تر کریڈٹ ڈاکٹر اطہر محبوب کو جاتا ہے۔ وہ اسلامیہ یونیورسٹی کو دنیاکی پانچ سو یونیورسٹیوں کی فہرست میں لانا چاہتے ہیں۔ وہ تعلیمی شعبے میں ملک وملت کیلئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی دیگر جامعات بھی اسی طرح آگے بڑھیں تاکہ ملک میں تعلیمی ترقی ممکن ہوسکے۔ تفصیلی بریفنگ میں بتایاگیاکہ ماضی میںریاست بہاول پور کے حکمرانوں نے مصر کی جامعہ الازہر کی طرز پر بہاول پور میں ایک ایسی دانش گاہ کی بنیاد رکھی تھی جو تاقیامت پوری دنیا میں علم کا نور پھیلائے گی۔ 1963 ء میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے جامعہ عباسیہ کا دورہ کیا اورجامعہ عباسیہ کے اسلامی تشخص کے تناظر میں اُسے جامعہ اسلامیہ کے نام سے موسوم کیا، نواب آف بہاولپور کی قائم کردہ جامعہ عباسیہ، بعدازاں جامعہ اسلامیہ اور 1975میں اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے طور پر پنجاب اسمبلی سے چارٹرڈ ہوئی۔اس وقت یونیورسٹی کے بہاولپور میں تین اور بہاولنگر اور رحیم یار خان میں ایک ایک کیمپس ہے۔ عباسیہ کیمپس کا رقبہ 26ایکڑ، بغداد الجدید کیمپس 1257ایکڑ، خواجہ فرید (ریلوے کیمپس)3ایکڑ جبکہ بہاول نگر و رحیم یار خان کیمپس بالترتیب50ایکڑاور 80ایکڑ رقبے پر مشتمل ہیں اور قلعہ دراوڑ کے نزدیک 85ایکڑ پر مشتمل بائیو ڈائیورسٹی پارک بھی یونیورسٹی کی زیر نگرانی قائم ہے۔یونیورسٹی آج ایک جدید فعال اور پُر رونق اِدارہ بن چکی ہے جہاں بلند وبالا تدریسی عمارتیں، سرسبز وشاداب میدان، جدید طرز کے ہاسٹلز، رہائشی کالونیاں، فارم ہاؤسز اور باغات یونیورسٹی کی خوبصورتی کی عکاس ہیں۔یونیورسٹی میں اس وقت 13فیکلٹیاں قائم ہیں جبکہ شعبوں کی تعداد 130ہے۔ طلباء وطالبات کی تعداد 52000سے زائد ہے جن کیلئے 1200اساتذہ دستیاب ہیں جن میں 500سے زیادہ اساتذہ نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔جولائی 2019کو حکومت پنجاب نے اسلامیہ یونیورسٹی کی ذمہ داری موجودہ وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبو ب کو تفویض کی تھی۔وہ ایک نامورماہرتعلیم اور صنعتی اداروں میں کام کا 25 سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سا ئنس اور ٹیکنالوجی اور تعلیم کے میدان میں انکی غیر معمولی خدما ت کے اعتراف میں 2012ء میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ جامعہ اسلامیہ کو قومی وبین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ اور مقامی ضروریات کے مطابق بنانے کیلئے ویژن پلان کی سینڈیکٹ سے منظور ی کے بعد یونیورسٹی کے تدریسی اور انتظامی شعبوں کی ترقی وتوسیع کیلئے وسیع تر اصلاحات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی کچھ عرصہ قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں کسان کنونشن میں شرکت کی اور مختلف منصوبوں کا افتتاح کیا تھا۔

تازہ ترین