• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مخبر شکیل آفریدی کو نہ بھولے جبکہ ہمارے نواز شریف کو عافیہ صدیقی بھی یادنہیں اور امریکی صدر قاتل ریمنڈڈیوس کو چھڑا لے جبکہ ہمارے وزیراعظم بے گناہوں کو پھانسیاں دیتی حسینہ واجد سے احتجاج کرنے سے بھی قاصر ،ذرا سوچئے اگر عافیہ صدیقی حکمران خاندان سے ہوتی اور حسینہ واجد کا تعلق تحریک ِ انصاف سے ہوتا تو کیا حکومتی ردِ عمل یہی ہوتا ؟
پانامالیکس پررونے دھونے والو ہمیں تو کبھی بھی کسی نے سچ کی ہوا تک نہ لگنے دی!
مجھے وہ دو پہر یاد کہ جب مشرف دور میں عوامی احتجاج اور میڈیا کے دباؤ پرعافیہ صدیقی پر ہوئے ایک خصوصی اجلاس کے بعد قوم کو کہانی یہ سنائی گئی کہ’’ وزیراعظم کی زیرِصدارت 3گھنٹوں کے غوروغوض کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عافیہ پاکستان کی بیٹی اور اسکی رہائی کیلئے ہر سطح پر ہر ممکن کوشش ہوگی ‘‘ مگر اصل قصہ یہ تھا کہ اجلاس ہوا تو 3گھنٹوں کا ہی، مگروہ ایسے کہ پہلے 30منٹ ’’بڑے صاحبان ‘‘نے حال احوال میں گزاردیئے،اگلے 45منٹ اُن 3وزرا ء کی نذر ہوئے کہ جنہوں نے وزیراعظم کے 2 بیانات کو بنیاد بنا کر وزیراعظم کی خوب خوشامد کی ، یہ مصاحبین چپ ہوئے تو ایک سینئروزیر کو مشرف کی جمہوریت پسندی یاد آگئی اورپھر جب پرویز مشرف کی 30منٹ تعریفوں کے بعداس مصاحب کی زبان رُکی تو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی زبان چل پڑی اور انہوں نے وزراء کے ترقیاتی فنڈ اور چندکورٹ کیسز پربریفنگ میں آدھا گھنٹہ لگا دیا،جب پرنسپل سیکرٹری کی زبان کو چین آیا تو چائے اور نماز کا وقفہ ہوگیااور آدھے گھنٹے بعد دوبارہ شروع ہوئے اجلاس میں جب خدا خدا کر کے عافیہ صدیقی کاذکر چھڑا تو2وزیروں کی بات سننے کے بعد وزیراعظم نے 15منٹ میں ہی یہ کہہ کر اجلاس برخاست کر دیا کہ ’’ امریکہ سے پاکستان کا تعلق عافیہ سے اہم،لہذا کوئی ایسی بات نہ کی جائے کہ پاک امریکہ تعلقات خراب ہوںاورپھر اُٹھتے اُٹھتے وزیراعظم نے پنجاب کے ایک وزیر کی یہ ڈیوٹی بھی لگادی کہ اس سے پہلے کہ ہمارے اس اجلاس اور پریس ریلیز سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو آپ جا کر امریکی سفیر کو اصل کہانی سے آگاہ کر دیں ‘‘۔
مجھے وہ سہ پہر بھی نہیں بھولتی کہ اِدھر 2بندے مارکر ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا تواُدھر واشنگٹن سے ایک اہم شخصیت نے ہمارے ایک ’’طاقتور صاحب ‘‘ کوفون کیا ’’ ریمنڈ ڈیوس میرا آدمی، اس کاخاص خیال رکھیں اور جتنی جلدی ہو سکے مسئلے کاحل نکالیں ‘‘ ، ہمارے طاقتور صاحب بولے ’’ حضور حکم کی تعمیل ہوگی لیکن چونکہ اس وقت میڈیا اور سول سوسائٹی کا دباؤ بہت ہے لہذا معاملے کوذرا ٹھنڈا ہونے دیں ‘‘، اب ایک طرف قانون کی بالادستی ، ضابطے کی کارروائیاں اور حریت پسندانہ بیان بازیاں تھیں جبکہ دوسری طرف سب کچھ امریکی مرضی کے عین مطابق ہورہا تھا اور پھر ایک موقع پر جب امریکہ بہادر کولگا کہ سب کچھ انکی مرضی کے مطابق نہیں رہا تو پہلے واشنگٹن سے ایک سخت پیغام آیا ،پھر 3رکنی امریکی وفد نے خفیہ دورے کے دوران فائیو اسٹار سہولتوں میں شہزادوں کی طرح رہتے ریمنڈ ڈیوس سمیت تمام متعلقہ افراد سے ملاقاتیں کرکے رپورٹ جب وائٹ ہاؤس پہنچائی تو سینیٹر جان کیری پاکستان آگئے۔
اب امریکی دباؤ بڑھاتو سیاسی ، نظریاتی اور مفاداتی مطلب ہر طرح سے ایکدوسرے کے مخالف اور ایک ساتھ جنازے تک نہ پڑھنے والے ہمارے رہنما اسٹیبلشمنٹ کے پرچم کے سائے تلے محبت اور اتفاق سے تب تک ساتھ رہے کہ جب تک ریمنڈ ڈیوس رہا نہ ہوگیا۔لیکن یہاں ذرا ملاحظہ یہ فرمائیں کہ درجۂ چہارم کے امریکی اہلکار کی خاطر ایوانِ صدر اسلام آباد اور گورنر ہاؤس پنجاب میں 2کیمپ آفسز بنے ، ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ 5بڑوں نے آپس میں ڈیوٹیاں تقسیم کیں اور پلان Aکی ناکامی کی صورت میں پہلے سے ہی پلان Bبھی بنالیا گیا اورپھر سب سے پہلے مقتولین کے گھر کون پہنچا، 3طویل نشستوں کے بعد مقتولین راضی ہوئے تو انہیں کس کی سربراہی میں بلٹ پروف گاڑیوں میں کس کے گھر لایاگیا ، 5سیاستدانوں اور 10صحافیوں کو ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ Manage کرنے کی ڈیوٹی کس کی لگی ، حکومتی خفیہ فنڈ سے کتنی رقم نکلی، کتنے ڈالرباہر سے آئے، لواحقین کو کیا مِلااور وہ 10 لوگ کون تھے کہ جنہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جیسے یہ ایک لمبی کہانی ویسے ہی یہ بھی اِک طویل داستان کہ 7اہم شخصیات کیلئے خصوصی موبائل سیٹ کہاں سے آئے ،3بڑوں کو وائر لیس سیٹوں کی ضرورت کیوں پڑی ، آخری دن مختلف جگہوں پر بیٹھے 3بڑوں نے لائیو عدالتی کارروائی کیسے دیکھی ، ریمنڈ ڈیوس کو سربراہ مملکت کے پروٹوکول میں پہلے سے تیار کھڑے خصوصی امریکی طیارے میں کس نے بٹھایا اورپھر جونہی طیارہ افغانستان کی جانب اڑا تو کس بڑے آدمی نے شکرانے کے نفل پڑھے ، کس اہم شخصیت نے اپنے دفتر میں مٹھائی تقسیم کی اور کون بڑا اتنا تھک چکا تھا کہ پھر وہ اگلے 16گھنٹے سویارہا ، مگر وہاں یہ سب بتانے کا کیا فائدہ کہ جہاں درجۂ چہارم کا گورا صاحب بھی آکر جو چاہے کر لے ،جہاں امریکی تابعداری کا یہ عالم کہ ایک صدر بڑے فخر سے یہ بتائے کہ’’ میں نے ذاتی نگرانی میںامریکہ کو مطلوب پاکستانی پکڑوا ئے‘‘اور دوسرا صدر اپنی کتاب میں لکھے ’’ میں لوگ پکڑ پکڑ کر امریکہ کو دیتا رہا اور ڈالر لیتا رہا ‘‘ اور جہاں امریکہ کی خاطر افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے ساتھ ایسا سلوک ہو کہ اسکے بیوی بچوں کو رات سڑک پر گزارنی پڑے جبکہ سفیر ہوتے ہوئے ملا ضعیف کو پکڑ کر ان کے حوالے کر دیا جائے کہ جو حوالے کرنے والوں کے سامنے ہی اسے لاتوں اور ٹھڈوں سے مارنا شروع کر دیں ، یہی نہیں سونے پہ سہاگہ تو یہ کہ اس غلامانہ ذہنیت اور اس طوطا چشمی ماحول کے بعد یہاں پاناما لیکس میں پھنسی حکومت کا خارجی محاذاُس بزرگ کے ہاتھ میں کہ جوشروع سے ہی ایسا سچا کہ جب وہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کا جونیئر تھا تب ایک دن اس نے صاحبزادہ صاحب کو جب یہ کہا کہ ’’ سرہم خوش نصیب کہ ہمیں آپ کی صورت میں بیک وقت چرچل، ڈیگال اور ماؤزے تنگ ملے ‘‘ تو یہ سن کر بھلے مانس صاحبزادہ صاحب کا صبر جواب دے گیا اور وہ غصے سے بولے ’’ صاحب میرا معدہ ذرا کمزور ہے میری اتنی ہی خوشامد کریں جتنی میں ہضم کر سکوں ‘‘لیکن یہ جواب سننے اور باقی افراد کو زیرِ لب مسکراتے دیکھ کر بھی یہ سچا بولا ’’ سر یہ خوشامد نہیں ،یہ سچ ہے اورسر سچ بولنے سے مجھے آپ بھی نہیں روک سکتے ‘‘۔
اب ان حالات میں جب میں دیکھوں کہ ایک طرف عبدالقادرملا، محمد قمرالزمان ، علی ا حسن مجاہد ، صلاح الدین قادر چوہدری اور مطیع الرحمان نظامی کو پاکستان سے محبت کے جرم میں حسینہ واجد تختہ دار پرچڑھا دے اور پاکستانی حکومت ٹس سے مس نہ ہو جبکہ دوسری طرف جب بات آئے اپنی ذات پر تو ملک کے سب سے بڑے گھرسمیت ہر محکمہ عمران مخالف سیل بن جائے اورصبح وشام 80فیصد وزراء عمران کا زہر نکالنے میں لگ جائیں ، ایک طرف جب میں دیکھو ں کہ اولاد کی محبت میں وزیراعظم ہرطعنے کا ترکی بہ ترکی جواب دیں اور پوری سرکاری مشینری حسن اور حسین کی وکیل ہو جبکہ دوسری طرف سالہا سال گزر جائیں مگر کوئی حکومتی کارندہ پلٹ کر خبر تک نہ لے کہ عافیہ صدیقی کس حال میں، تویہ سب دیکھ کر جہاں میں خوفزدہ ہوجاؤں کہ آج عمران خان کا سامنا نہ کرسکنے والے کل محشر کے دن مطیع الرحمان نظامی کا سامنا کیسے کریں گے وہاں میں یہ سب دیکھ کر اس لئے بھی ڈروں کہ آج بچوں کے سُکھوں کا حساب نہ دے سکنے والے کل عافیہ صدیقی کے دکھوں کا حساب کیسے دیں گے اور پھر میرا دل تب تو بہت ہی دُکھے کہ جب یہ خیال آئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مخبر شکیل آفریدی کو نہ بھولے جبکہ ہمارے نواز شریف کو عافیہ صدیقی بھی یاد نہیں اور امریکی صدر قاتل ریمنڈڈیوس کو چھڑا لے جبکہ ہمارے وزیراعظم بے گناہوں کو پھانسیاں دیتی حسینہ واجد سے احتجاج کرنے سے بھی قاصر ،ذرا سوچئے اگر عافیہ صدیقی حکمران خاندان سے ہوتی اور حسینہ واجد کا تعلق تحریک ِ انصاف سے ہوتا تو کیا حکومتی ردِ عمل یہی ہوتا ؟
تازہ ترین