• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھوٹے بڑے اتفاقات اور واقعات ہر خاندان کی معمول کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ دوستوں اور عزیزوں سے گپ شپ میں ان واقعات کا ذکر ان کی اچھی اور بری یادوں کو زندہ رکھتا ہے۔ بات جب ایک سے دوسرے کے پاس جاتی ہے تو اکثر اس کی نوعیت تبدیل بھی ہوجاتی ہے۔ کوئی اسے ادھر سے اور کوئی ادھر سے دیکھتا ہے۔ تو چند ہفتے قبل میری بڑی بیٹی کے ساتھ جو بظاہر سرسری سا واقعہ ہوا اس کے بارے میں، میں سوچتا رہا ہوں۔ پہلے اس واقعے کی روداد ، جو مجھ تک پہنچی، وہ سن لیجئے۔ ہوا یہ کہ میری بیٹی جو جنوبی کیلی فورنیا میں رہتی ہے اور اپنے خاندان یعنی شوہر، بارہ سالہ بیٹے اور سات سالہ بیٹی کے ساتھ اختتام ہفتہ کی چھٹیوں میں لاس ویگاس گئی۔ ایک دوست خاندان بھی ساتھ تھا۔
لاس ویگاس یوں تو جوئے اور ہلا گلا کے لئے دنیا بھر میں اپنی شہرت رکھتا ہے لیکن اس میں خاندان یا یوں کہئے کہ فیملی کی تفریح کے لئے اتنا کچھ ہے کہ آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ اس کا ہر کیسینو ایک الگ ملک یا شہر یا کسی تصوراتی دنیا کی عکاسی کرتا ہے۔
خیر، واقعہ یہ ہوا کہ ایک کیسینو کے ہجوم میں، میری نواسی اپنے خاندان سے جدا ہوگئی۔ میری بیٹی نے جب اسے اپنے پاس نہ پایا تو کسی بھی ماں یا پاکستانی ماں کی طرح گھبرا گئی۔ اوسان خطا ہوگئے۔ اس کے شوہر نے زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کیا اور سات سالہ ماہ نور کو اس ہجوم میں ڈھونڈنے لگا۔ میری بیٹی شہر بانو اتنی بدحواس ہوئی کہ اس نے نائن ون ون یعنی 911 کو فون کردیا۔ یہ وہ نمبر ہے جو امریکہ میں ایمرجنسی میں مدد کے لئے ڈائل کیا جاتا ہے۔ فوراً کسی خاتون نے جواب دیا کہ کیا آپ اس نمبر سے بول رہی ہیں اور بتائیے آپ کی مشکل کیا ہے۔؟ شہر بانو نے کہا میں ایک کیسینو میں ہوں اور میری بیٹی کھوگئی ہے۔ پوچھاگیا کہ آپ نے کسی سیکورٹی گارڈ سے رابطہ کیا ہے۔ شہربانو نے کہا کہ مجھے یہاں کوئی گارڈ دکھائی نہیں دے رہا۔ 911 کی خاتون نے پوچھا کہ اس وقت آپ کس مقام پر ہیں۔ شہربانو اتنی گھبرا ئی ہوئی تھی کہ اس نے کسی اور کیسینو کا نام لیا۔ جواب ملا کہ میڈم، آپ دراصل فلاں کیسینو میں ہیں۔ گمشدہ بیٹی کا نام عمر ، حلیہ اور لباس پوچھا گیا اور شہربانو سے کہا گیا کہ آپ جہاں ہیں، وہیں کھڑی رہیں۔ اب اس واقعہ کے دوسرے مناظر دیکھئے۔ ماہ نور نے جب دیکھا کہ وہ اپنے بھائی شاہ میر اور ماں باپ سے بچھڑ گئی ہے تو اس نے اپنی ماں سے زیادہ حوصلے کا مظاہرہ کیا اور قریب کی ایک دکان میں داخل ہوگئی اور اس کی خاتون دکاندار سے اس نے کہا کہ میں کھوگئی ہوں۔ یہ میری ماں کا نمبر ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ نمبر اس وقت مصروف تھا۔ دکاندار نے اس نمبر پر پیغام بھیج دیا۔ دوسری طرف ماہ نور کے باپ صادق نے ایک گارڈ کو دیکھا تو اسے اپنے کیمرہ میں بیٹی کی تصویر دکھائی کہ یہ بچی کھوگئی ہے۔ آپ اپنے سسٹم میں اس کا اعلان کردیں۔ شہر بانو کی دوست کو معلوم ہوا تو اس نے بھی ایک گارڈ کو ڈھونڈا۔ گارڈ نے کہا ہمیں معلوم ہے۔ ہم اس وقت ”لاک ڈاؤن“ کی حالت میں ہیں یعنی کیسینو کے تمام دروازے بند کردیئے گئے ہیں اور نہ کوئی باہر جاسکتا ہے اور نہ کوئی اندر آسکتا ہے۔ صادق نے ایک دوسرے گارڈ کو دیکھا اور وہ اس کی طرف بڑھا تو گارڈ نے کہا آپ صادق مہدی ہیں۔ آپ کی بیٹی مل گئی ہے۔ آپ فوراً اپنی بیوی کے پاس جاکر کھڑے ہوجائیں۔ ماہ نور کے پاس ایک گارڈ پہنچا تو اسے دوسرے گارڈ کا انتظار کرنا پڑا کیونکہ قانون کے مطابق کوئی بچہ کسی اکیلے گارڈ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اور پھر دو گارڈ ماہ نور کو ساتھ لے کر اس جگہ پہنچے جہاں اس کے والدین کھڑے تھے۔ شہربانو نے بتایا کہ یہ ساری کارروائی نائن ون ون کو فون کرنے کے بعد دومنٹ میں پوری ہوگئی۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ اس میں ایسی کون سی ایمرجنسی تھی کہ خطرے کی گھنٹی بجائی جاتی اور سیکورٹی کے پورے نظام کو متحرک کیا جاتا۔ لیکن نائن ون ون نے شہربانو سے یہ نہیں کہا کہ آپ ہمیں کیوں تنگ کررہی ہیں۔ کیسینو کا اپنا سیکورٹی کا پورا انتظام ہے۔ کیمرے لگے ہیں۔ گارڈ کھڑے ہیں۔ آپ ان سے رجوع کریں۔ دوسری طرف یہ ایک انسانی معاملہ تو تھا۔ ایک پریشان ماں نے ریاست سے مدد مانگی تھی۔ بچے کھو بھی تو جاتے ہیں۔ ہماری اپنی کہانیوں میں ایسا ہوتا ہے کہ بچے نے باپ کی انگلی چھوڑ دی اور میلے میں کھو گیا۔ یہ زندگی کے میلے ایک بے رحم دنیا کا استعارہ بھی ہیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ قومی سلامتی کا ایک اہم ادارہ فوراً حرکت میں آگیا۔ اور ہم نے دیکھا کہ اس کا ایک مربوط نظام بھی ہے۔ نائن ون ون اور آپ اسے نائن الیون نہ پڑھیں۔ بڑے بڑے خطرات اور زندگی اور موت کے مسائل سے نمٹنے کے لئے کس طرح تیار رہتا ہے اس کی کئی مثالیں ہیں۔ مجھے یہ واقعہ بھی یاد ہے جب کئی سال پہلے میرے ایک قریبی دوست کی بیوی کو واشنگٹن کے مضافات میں ان کے گھر سے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ اسپتال پہنچایا گیا کیونکہ ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری نواسی کے دو منٹ کے لئے کھوجانے کی کہانی میں کئی باتیں پوشیدہ ہیں۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں ایک عام شہری خود کو کتنا محفوظ محسوس کرتا ہے اور مشکل کی گھڑی میں کوئی کیسے اس کی مدد کرتا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نظام کیسا ہے۔ ایک پہلو انسانی ہے۔ ہر شہری کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور تمام انسانوں کے حقوق برابر ہوتے ہیں۔ یہ اعتراض بالکل بجا ہے کہ ہر حکومت کے وسائل اتنے نہیں ہوسکتے جتنے مثلاً امریکہ کے ہیں۔ لیکن انسانی رویے بھی ان وسائل میں شامل ہیں۔ تربیت اور ذمے داری کے احساس کا بھی اس سے تعلق ہے۔ ایک طرح سے یہ محض ایک اتفاق ہے کہ یہاں امریکہ کا حوالہ لازمی ہے۔ امریکہ سے ہمارا ایک جذباتی تعلق ہے۔ کچھ ایسا ہی جو کسی محنت کرنے والے کا اپنے بے وفا محبوب سے ہو۔ لیکن بالکل یہی واقعہ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ یورپ یا مشرق بعید کے کسی ملک میں ہوا ہو۔ اور اب ذرا پاکستان کی صورت حال پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ یہ کہنا غلط تو نہ ہوگا کہ ہم خوف کی سلطنت میں رہتے ہیں۔ انسانی زندگی کی قدروقیمت کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں۔ دہشت گرد ، قانون نافذ کرنے والوں سے زیادہ منظم اور طاقتور دکھائی دیتے ہیں۔ جرائم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ سڑک پر چلنے ہی سے نہیں گھر میں رہنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ مدد کے لئے کسے آواز دیں کہ پولیس سے بھی تو ڈر لگتا ہے۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ اگر میری قسمت میں سڑک کے کسی حادثے میں زخمی ہونا لکھا ہے تو میری دعا یہ ہوگی کہ یہ حادثہ کافروں کے کسی ملک میں ہو۔ اب یہ دیکھئے کہ خوف سے آزادی کو سب سے اہم انسانی حقوق میں شامل کرنے کا بیان ایک امریکی صدر نے دیا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود امریکہ میں ، خاص طور پر سیاہ فام آبادی کے لئے شہری اور سیاسی آزادی کی جدوجہد اب بھی جاری ہے۔ لیکن اصل مسئلہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کے عمل کو جاری رکھنا ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں ہم اس محاذ پر پسپائی کا شکار ہیں اور ایک سیاہ فام شخص امریکہ کا صدر ہے۔
تازہ ترین