• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ماحول معتدل رہا، تجاوزات کے خلاف بڑا آپریشن، گرین لائن منصوبے کا افتتاح

2020ء کے ابتدائی ماہ تو کورونا وبا ہی سے نمٹنے میں گزر گئے، تاہم اِس معاملے پر بھی وفاق اور سندھ حکومت کوئی متفّقہ پالیسی بنانے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہی کرتی رہیں، جب کہ دوسری طرف، صوبے، خاص طور پر کراچی کے تاجر بھی حکومتی پالیسیز سے نالاں نظر آئے اور اُنھوں نے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ سندھ حکومت مکمل لاک ڈاؤن پر اصرار کرتی رہی اور اُس نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی، تاہم یہ الگ بات کہ مارکیٹس کی بندش کے علاوہ لاک ڈاؤن کہیں بھی مؤثر نظر نہیں آیا، جب کہ وفاق کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت جان بوجھ کر معیشت کو نشانہ بنا رہی ہے۔

الزام تراشیوں کا یہ سلسلہ صرف لاک ڈاؤن ہی تک محدود نہیں رہا، بلکہ بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ بلاول بھٹّو نے جب بھی وفاقی حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنایا، تو جواب میں حکومتی ترجمانوں کی جانب سے اُن سے یہ سوال ضرور پوچھا گیا کہ اُن کی جماعت تو سندھ میں 13 برس سے اقتدار میں ہے، وہ بتائیں کہ صوبے میں کہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں؟صوبے کے عوام سال بَھر بدترین منہگائی کی لپیٹ میں رہے، مگر وفاقی اور صوبائی حکومت میں سے کوئی بھی عوام کو اس عفریت سے نجات دِلانے میں سنجیدہ نظر نہیں آیا۔ 

سندھ حکومت نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ یہ سب وفاقی حکومت کی پالیسیز کا نتیجہ ہے، جب کہ وزیرِ اعظم، وفاقی وزیرِ اطلاعات اور حکومتی ترجمان عوام کو یاد دِلاتے رہے کہ سندھ میں اربوں روپے کی گندم چوری کرلی گئی ہے، جس کے سبب صوبے میں پنجاب کے مقابلے میں مہنگا آٹا مل رہا ہے۔ چینی کے بحران کے دوران بھی یہی کہا گیا کہ سندھ حکومت صوبے کی شوگر ملز مقرّرہ وقت پر نہیں چلا رہی، جس کے باعث بحران میں اضافہ ہوا۔ 

وفاق کا یہ بھی کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد منہگائی پر قابو پانا صوبائی حکومت کی ذمّے داری ہے۔سندھ حکومت نے عوام کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسینز لگانے کے لیے بہت عمدہ انتظامات کیے اور اِس مقصد کے لیے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں بہت بڑا ویکسینیشن مرکز قائم کیا گیا، جب کہ صوبے بھر میں سیکڑوں چھوٹے مراکز بھی کام کرتے رہے، جہاں عوام کو معیاری سہولتیں میّسر تھیں۔ اِس ضمن میں آرٹس کاؤنسل آف پاکستان، کراچی اور کراچی پریس کلب جیسے اداروں نے بھی حکومت کا ہاتھ بٹایا۔

صوبے کا سیاسی ماحول گرم کم، سرد زیادہ رہا۔تاہم مجموعی طور پر اسے معتدل کہا جا سکتا ہے۔ سال کے آغاز میں اپوزیشن اتحاد، پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کافی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں، مگر پیپلز پارٹی کی اِس اتحاد سے علیٰحدگی کا صوبے کی سیاست پر بھی اثر پڑا کہ وہ یہاں کی حکم ران ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے کراچی، سکھر اور لاڑکانہ میں بڑے عوامی اجتماعات کرکے سیاسی ماحول گرمایا، تو دوسری جانب، پی ڈی ایم کی جانب سے بھی منہگائی کے خلاف جلسے ہوئے، جن سے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے بھی خطاب کیا۔

سیاسی طور پر ایک اہم خبر یہ رہی کہ سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ، ارباب غلام رحیم نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کے بعد تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔تاہم، وہ کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں کرسکتے کہ اُن کا اثر صوبے کے چار اضلاع بدین، مِٹھی، عمرکوٹ اور میرپورخاص تک محدود ہے۔وہ ان اضلاع میں پہلے بھی پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ یہاں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک نہیں ہے، البتہ ارباب غلام رحیم کے ذاتی ووٹ، شاہ محمود قریشی اور پیر پگارا کے مریدین مِل کر اِن حلقوں میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیتے آئے ہیں اور کئی بار اُنھیں کام یابی بھی ملی ہے۔ 

اپوزیشن اور حکومت میں نوک جھونک تو چلتی رہی، جب کہ کئی مواقع پر بات کشیدگی تک بھی پہنچی۔ اپوزیشن رہنما حلیم عادل شیخ کو جیل جانا پڑا، تو اُنھوں نے اس کا الزام سندھ حکومت پر عاید کیا۔ اپوزیشن کی ایک مؤثر آواز اور دبنگ سیاست دان، نصرت سحر عباسی کے اِس اعلان کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا گیا، جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ آیندہ سے مکمل حجاب کریں گی۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پردے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ گوشہ نشین ہوجائیں گی، بلکہ پہلے کی طرح اُن کی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں گی اور ایوان کے اندر اور باہر حکومت کی عوام مخالف پالیسیز پر حسبِ معمول احتجاج جاری رہے گا۔

سندھ اسمبلی کے ذکر کے ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما، سیّد خورشید شاہ کئی برس بعد رہا ہوئے، تو دوسری طرف، نیب نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر، آغا سراج درّانی کو بدعنوانی کے الزامات میں حراست میں لے لیا۔ وزیرِ اعلیٰ، مُراد علی شاہ کورونا کے زمانے میں منظرِ عام پر رہے، مگر حیرت انگیز طور پر باقی دنوں میں پس منظر ہی میں رہے، اُن کی کوئی خاص سرگرمیاں نظر نہیں آئیں۔این اے 249 کے ضمنی انتخاب نے بھی سیاسی ماحول میں خاصی گرما گرمی پیدا کی۔ یہ نشست پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا نے دُہری شہریت کے چکر میں خالی کی تھی، یہاں اُنھوں نے شہباز شریف کو شکست دی تھی، اِس لیے نون لیگ نے اِس الیکشن کو بہت سنجیدہ لیتے ہوئے اپنے رہنما اور بزنس مین، مفتاح اسماعیل کو ٹکٹ دیا، جب کہ پی ٹی آئی نے ایک غیر معروف نوجوان کو میدان میں اُتارا، نیز، سابق ناظم کراچی، مصطفیٰ کمال بھی مقابلے میں شامل تھے۔ 

ماہرین اِس انتخاب کو نون لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان سخت معرکہ قرار دے رہے تھے، مگر سب اُس وقت حیران رہ گئے، جب پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل یہ سیٹ لے اُڑے۔یہ انتخاب بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنا۔پی ٹی آئی کو اِس الیکشن میں عبرت ناک شکست ہوئی، مگر وہ اپنی شکست پر توجّہ دینے کی بجائے دونوں اپوزیشن پارٹیز میں لڑائی کو بڑھاوا دینے میں کوشاں رہی۔ سینیٹ انتخابات میں قومی اسمبلی کے ساتھ سندھ اسمبلی میں بھی جوڑ توڑ عروج پر رہا۔ یہاں پی ٹی آئی میں اعلانیہ دراڑ پڑی اور اس کے رُکن پیپلز پارٹی سے جا ملے، جب کہ ووٹنگ کے روز بھی وفاداریاں تبدیل ہوئیں، جس کے نتیجے میں فنکشنل لیگ کے رہنما، پیر صدر الدّین راشدی شکست کھا گئے اور پیپلز پارٹی کوٹے سے ایک نشست زیادہ لینے میں کام یاب رہی۔سندھ اسمبلی کا ایک قابلِ تحسین عمل یہ رہا کہ اُس نے مُلک میں پہلی بار صحافیوں کے تحفّظ کا بِل منظور کیا۔

اللہ اللہ کرکے کئی برس بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے10 دسمبر کو کراچی میں گرین لائن بس منصوبے کا افتتاح کیا، جس کا سنگِ بنیاد میاں نواز شریف نے رکھا تھا۔اِس منصوبے سے یومیہ ساڑھے تین لاکھ سے زاید شہریوں کو معیاری سفری سہولتیں میّسر آئیں گی، مگر ڈیزائن کی بعض خامیوں کے سبب یہ منصوبہ کئی مقامات پر معمول کی ٹریفک کی روانی میں خلل کا بھی باعث ہے۔ اُدھر اِسی منصوبے کا ساڑھے تین کلو میٹر کا جو حصّہ سندھ حکومت نے تعمیر کرنا تھا، وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔ وزیرِ اعظم کی جانب سے افتتاح کی اعلان کردہ تاریخ سے ایک روز قبل مسلم لیگ نون کے رہنما، احسن اقبال نے کراچی آکر گرین لائن منصوبے کا علامتی افتتاح کیا، جس کے دوران ہلڑ بازی بھی دیکھی گئی۔

اسی تناظر میں عوامی اور سیاسی حلقوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے عوام کو سفری سہولتوں کی فراہمی بھی گفتگو کا موضوع رہی۔ اِس حوالے سے سوشل میڈیا پر کراچی میں چلنے والی مسافروں سے لدی کھٹارہ گاڑیوں کی تصاویر بھی شئیر کی گئیں۔ باقی منصوبوں کی بات کریں، تو سندھ میں گزشتہ برس کوئی خاص بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا۔ کراچی میں ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر بھی تعطّل سے دوچار رہی۔عدالتی احکامات پر سرکلر ریلوے کے رُوٹ سے تجاوزات تو ختم کی گئیں، مگر شہری 2020ء میں بھی سرکلر ٹرین میں سفر سے محروم رہے۔

بڑے منصوبوں کے ساتھ تجاوزات کی بات بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اِس معاملے پر خاصی متحرّک رہی اور عدالت کے حکم پر کراچی کی کئی ایسی عمارتیں گرائی گئیں، جن کی تعمیر میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے۔ اِس ضمن میں نسلا ٹاور تو پورے مُلک میں موضوعِ بحث رہا۔گو کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں بلڈر کو پابند کیا تھا کہ وہ متاثرین کو معاوضہ ادا کرے ، تاہم عوامی حلقوں کی خواہش تھی کہ عدالت اِس ضمن میں مزید اقدامات کرے تاکہ ایک طرف تو متاثرین کو زیادہ بہتر طور پر ریلیف مل سکے اور دوسری طرف، غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر میں ملوّث اہل کار اور بلڈرز بھی قانون کی گرفت میں آسکیں۔ 

اِس ضمن میں جماعتِ اسلامی کراچی نے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا اور اس کے امیر، حافظ نعیم الرحمٰن عدالتِ عظمٰی میں بھی شہریوں کا مقدمہ لے کر گئے، البتہ صوبائی حکومت نے خود کو بیانات تک محدود رکھا اور عملی طور پر اِس معاملے کے حل میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ سندھ حکومت کی جانب سے عمارتوں کو ریگولرائزڈ کرنے کے لیے قانون سازی اور کچّی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کی باتیں تو سامنے آئیں، مگر سال کے آخر تک اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 

گورنینس کے حوالے سے یہ خبر بھی اہم ہے کہ کراچی میں آتش زدگی کے کئی واقعات ہوئے، جن میں سیکڑوں دُکانیں راکھ کے ڈھیر میں بدل گئیں، افسوس ناک امر یہ رہا کہ صوبائی حکومت اس طرح کے واقعات ہونے کے باوجود آگ بجھانے کے ایسے انتظامات کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے، جو اس میٹرو پولیٹن شہر کی ضروریات کے لیے کافی ہوں۔ صوبے میں 40 ہزار اساتذہ کی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا، جس پر لاکھوں نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروائیں۔

ان امیدواروں سے آئی بی اے کے تحت ٹیسٹ لیے گئے، جس میں بیش تر ناکام ہوگئے۔جونئیر اسکول ٹیچرز کے ٹیسٹ میں ایک لاکھ 60 ہزار امیدواروں میں سے ایک فی صد بھی کام یاب نہ ہوسکے۔ اِسی طرح پرائمری اسکول ٹیچرز کے ٹیسٹ میں ایک لاکھ 83 ہزار امیدوار شامل ہوئے، جن میں سے صرف 11 ہزار ،یعنی ساڑھے چھے فی صد کام یاب قرار پائے۔ ناکام امیدواروں نے پرچے میں غیر متعلقہ سوالات کی شکایت کی، جب کہ وزیرِ تعلیم نے اُنھیں نااہل قرار دیا۔ بعدازاں، پاسنگ مارکس کم کرنے کے ایشو نے بھی بَھرتی کا عمل متنازع بنادیا۔ اِسی پس منظر میں صوبے کی ابتر تعلیمی حالت بھی کئی روز اخبارات کی سُرخیوں میں رہی۔ صوبائی وزیرِ تعلیم، سیّد سردار شاہ کے اِس اعلان نے مزید چونکا دیا کہ حکومت صوبے کے پانچ ہزار غیر فعال اسکول بند کرنے جا رہی ہے۔سوال پوچھا گیا کہ اگر یہ اسکول غیر ضروری طور پر تعمیر کیے گئے تھے، تو اب تک وہ کس مصرف میں آ رہے تھے؟ کیا وہاں عملہ بھی تعیّنات کیا گیا تھا؟ اور ایسے اسکولز کی منظوری کیسے دی گئی؟

سندھ حکومت نے سال کے آخری ہفتوں میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا اور اسمبلی سے منظور بھی کروالیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے شہری سندھ کے ساتھ دشمنی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ جماعتِ اسلامی، ایم کیو ایم، تحریکِ انصاف، پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں نے اس کے خلاف پریس کانفرنسز کیں اور کراچی کو مذمّتی بینرز سے بھر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس ترمیمی بل کے ذریعے مقامی حکومتوں کو تمام اختیارات سے محروم کردیا گیا اور اُن کا کام صرف معمولی نوعیت کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے تک محدود رہ جائے گا، جو عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ 

تحریکِ انصاف نے ترمیمی ایکٹ کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا، جب کہ سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ اپوزیشن عوام کو گم راہ کر رہی ہے۔ ترمیمی بل تمام جماعتوں کی تجاویز کی روشنی میں لایا گیا اور حکومت اس پر مزید مشاورت کے لیے بھی تیار ہے۔ سندھ میں کافی عرصے سے’’ کراچی کی گنتی کرو‘‘ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ یہ مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں اس شہر کی درست گنتی نہیں کی جاتی اور پچھلی مردم شماری میں بھی یہی کیا گیا۔پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی سمیت کئی جماعتوں نے درست گنتی نہ ہونے پر مردم شماری کالعدم قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

پی ٹی آئی حکومت نے نومبر کے آخر میں پارلیمان کے مشرکہ اجلاس میں جو تین درجن کے لگ بھگ بلز منظور کروائے، اُن میں ایک بل مردم شماری سے بھی متعلق تھا،تاہم پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی۔ اس بل کے مطابق، اب پانچ برس بعد مردم شماری ہوگی، جس میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی جائے گی۔یوں اس بل کے تحت اب دسمبر 2022ء تک کراچی کی دوبارہ مردم شماری ہوگی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کراچی کی درست گنتی ہو، تو یہاں کی قومی اور سندھ اسمبلی میں نمایندگی بڑھ جائے گی، جس سے کراچی کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوگا اور کسی جماعت کے لیے اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ سال کے آخری ہفتوں میں ناظم جوکھیو قتل کیس بھی میڈیا پر چھایا رہا۔ملیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان، ناظم جوکھیو نے ایک غیر مُلکی شخص کی غیر قانونی طور پر شکار کرتے ہوئے ویڈیو بنائی تھی، جو بااثر افراد کا مہمان تھا۔ بتایا گیا کہ ان بااثر افراد نے نوجوان کو اپنے بنگلے پر بلوا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ورثا نے اس قتل کا الزام پیپلز پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان پر لگایا۔

2020ء بھٹّو خاندان کے لیے اِس حوالے سے خوشیوں کا سال رہا کہ ایک مدّت بعد اس گھرانے میں بھی شادیانے بجے۔ بے نظیر بھٹّو اور آصف علی زرداری کی بڑی صاحب زادی، بختاور بھٹو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور پھر اُن کے آنگن میں بیٹے کی صُورت مزید خوشیاں اُتریں، یوں آصف زرداری نانا اور بلاول ماموں بن گئے۔

تازہ ترین