2021 ء خاصا ہل چل کا سال رہا۔کورونا ویکسین کا ایجاد ہونا اور کروڑوں کی تعداد میں لگایا جانا میڈیکل سائنس اور حکومتی گورنینس کی ایک غیر معمولی مثال تھی، جس نے دنیا کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں واپسی کا حوصلہ دیا اور خود اعتمادی بھی، جس سے ترقّی کو معمول پر لانے میں مدد ملی، بلکہ اُسے تیز تر کردیا۔ سیاسی اور فوجی نقطۂ نگاہ سے افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی اور طالبان کا دوبارہ اقتدار میں آنا چونکا دینے والا واقعہ تھا۔اسی کے ساتھ امریکا کا انڈوچائنا پر ارتکاز اور چین کے گھیرائو کے نئے اقدامات سامنے آئے، جن کے اثرات آئندہ سالوں پر محیط ہوں گے۔
ان واقعات کے پس منظر میں امریکی قیادت میں تبدیلی اور جوبائیڈن کا صدر بننا بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔تاہم، ٹرمپ کے جانے کے باوجود امریکی پالیسی انتہائی فعال رہی۔اُس نے روس اور چین سے مخاصمت بڑھائی، تاہم بائیڈن، شی جن پنگ اور پیوٹن کے درمیان عالمی امن کے لیے ملاقاتیں نیک شگون رہیں۔ٹرمپ گئے، لیکن امریکی قوم پرستی میں کمی نہیں آئی۔ یورپ میں چانسلر مرکل رخصت ہوئیں اور اب شاید یورپ کی قیادت جرمنی اور فرانس مشترکہ طور پر کریں گے۔ موسمیاتی تبدیلی ایک مرتبہ پھر تشویش ناک حد تک پریشانی کا باعث رہی۔
افغانستان
طالبان نے اگست کے درمیان افغانستان کے دارالحکومت، کابل کا ایک بار پھر کنٹرول سنبھالا اور وہ صدارتی محل میں داخل ہوگئے۔ اب پورے مُلک پر ان کی بلا شرکتِ غیرے حکم رانی ہے۔کابل کے قبضے کے بعد حکومت سازی کی کوششیں شروع ہوئیں، جس میں طالبان لیڈرز، سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ پیش پیش تھے۔ توقّع کی گئی کہ ایک جامع حکومت تشکیل دی جائے گی۔ عالمی برادری کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ ایسی حکومت بنے، جس میں معاشرے کے تمام طبقات شامل ہوں۔ اشرف غنی نے مُلک چھوڑ کر متحدہ عرب امارات میں پناہ لی اور وہاں سے ایک روایتی بیان میں کہا،’’ یہ فرار شہریوں کو خون ریزی سے بچانے کے لیے اختیار کیا۔‘‘
تاہم، وہ بھول گئے کہ یہی خون ریزی ان کی حکومت کے دوران سالوں سے جاری تھی، جس میں لاکھوں افغان شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔ صدر غنی کی حکومت امریکی اور نیٹو افواج کی بے ساکھیوں پر کھڑی تھی، جس کے ہٹتے ہی سارا نظامِ حکومت تتر بتر ہوگیا۔ امریکی صدر، جوبائیڈن نے اسے افغان فوجوں کی شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں جدید ترین ساز و سامان سے لیس کیا، لیکن ان کے پاس لڑنے کا عزم ہی نہیں تھا۔ طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہی شہریوں اور اہل کاروں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور شہریوں، خاص طور پر خواتین کو تحفّظ کا یقین دلایا۔
طالبان خواتین کے معاملے میں اپنی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ رہے ہیں۔تین لاکھ جوانوں پر مشتمل افغان فوج نے ایک کے بعد دوسرا شہر طالبان کے حوالے کردیا اور صوبوں کے گورنر سرنڈر کرتے رہے۔ افغانستان شدید مالی بحران کی لپیٹ میں ہے، نئی حکومت کو عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد مُلک سے باہر جانے والوں کا ہوائی اڈّے پر ہجوم رہا، جس کے دوران کئی الم ناک واقعات بھی سامنے آئے۔چند ہزار افراد مغربی ممالک میں پناہ لینے میں کام یاب رہے۔افغانستان ایک بڑے انسانی المیے کے خطرے سے دوچار ہے۔اقوامِ متحدہ، افغان حکومت اور پاکستان بار بار امداد کی درخواست کر رہے ہیں۔
اِسی پس منظر میں اسلامی تعاون تنظیم( او آئی سی) کا وزرائے خارجہ کاؤنسل کا 17 واں غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر کو اسلام آباد میں ہوا۔ 1974ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا، جب او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کے حصّے میں آئی۔ اس اجلاس میں 70 ممالک نے شرکت کی۔ 20 ممالک کے وزرائے خارجہ اور 10 ممالک کے نائب وزرائے خارجہ، پی فائیو ممالک اور یورپی یونین کے خصوصی نمایندے بھی شریک ہوئے۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل، حسین ابراہیم نے کہا کہ سعودی عرب کی تجویز اور پاکستان کی میزبانی میں یہ اجلاس خوش آیند اور اسلام کے اتحاد و یک جہتی کے عالمی پیغام کا عکّاس ہے۔
اس موقعے پر وزیرِ اعظم، عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غیر مستحکم اور افراتفری کا شکار افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں۔ اجلاس میں افغانستان کی مدد کے لیے او آئی سی فنڈ کے قیام، تحفظِ خوراک پروگرام کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا، جب کہ سعودی عرب نے فوری طور پر ایک ارب ریال کی امداد کا اعلان کیا۔ دوسری طرف، اجلاس نے طالبان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اور شہریوں، بالخصوص خواتین کے حقوق کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا۔
امریکا میں اقتدار کی تبدیلی
جوبائیڈن نے جنوری میں صدارت کا عُہدہ سنبھالا اور اس طرح وہ تنازع جو نومبر کے انتخابی نتائج سے چل رہا تھا، اختتام کو پہنچا۔ ٹرمپ الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے رہے، لیکن اُنہوں نے وائٹ ہاؤس پُرامن طریقے سے خالی کردیا۔ یاد رہے، اس سے چند روز قبل امریکی ایوانوں پر ایک ہجوم نے ہلّا بول کر بہت توڑ پھوڑ مچائی، جسے امریکی جمہوریت پر سیاہ داغ کہا گیا۔شرپسند ٹرمپ کے حامی بتائے گئے، لیکن ٹرمپ اس سے انکاری رہے۔جوبائیڈن کا ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق ہے اور اُن کی نائب صدر کملا ہیرس بھارتی نژاد ہیں۔جوبائیڈن نے حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ وہ اسی کے ذریعے مشکلات پر قابو پائیں گے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریب میں شرکت نہیں کی، تاہم نائب صدر مائیک پینس موجود تھے۔یہ ایک اداس سی تقریب تھی کیوں کہ وائٹ ہاؤس کے باہر سنّاٹا تھا۔پندرہ ہزار سے زاید فوجیوں نے واشنگٹن کو گھیرے میں لیا ہوا تھا، کیوں کہ خفیہ اداروں نے حملوں کے الرٹ جاری کیے تھے۔پھر میڈیا نے بھی اسے بہت اُچھالا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس روایتی عوامی تقریب میں ایک بھی امریکی شہری موجود نہ تھا۔
اُن کی جگہ دو لاکھ امریکی جھنڈے لگائے گئے۔ اس کی ایک وجہ کورونا کے پھیلائو کو بھی روکنا تھا۔اپنے پہلے صدارتی احکام میں انہوں نے مسلم ممالک پر سے سفری پابندیاں ختم کردیں۔ ماحولیات کے پیرس معاہدے میں بھی شمولیت کا اعلان کیا، جس پر امریکا میں خاصی بحث ہو رہی تھی۔جوبائیڈن کورونا کے سوا ان تمام پالیسیز کے وارث ہیں جو صدر اوباما نے شروع کی تھیں۔جوبائیڈن کا اصل تجربہ خارجہ امور میں ہے، کیوں کہ وہ سینیٹ کی طاقت ور فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین رہ چُکے ہیں۔
کورونا ویکسین اور دنیا کی بحالی
سال2021 ء انسانی صحت کے حوالے سے ایک اہم سال تھا کہ عالمی وبا، کورونا وائرس کی پانچ ویکسینز تیار ہوئیں۔فائزر، موڈرنا(امریکا)، ایسٹرازینیکا (برطانیہ)، سائینو فارم اور اسپٹنک روس میں تیار کی گئیں۔یہ ویکسینز سال بھر میں اربوں کی تعداد میں تیار ہوئیں اور ترقّی یافتہ اور غریب ممالک میں لوگوں کو لگائی بھی گئیں۔خود ہمارے مُلک میں یہ کروڑوں کی تعداد میں لگائی جا رہی ہیں۔ویکسین کے ساتھ ہی دنیا کا اعتماد بحال ہونے لگا۔لاک ڈائون ختم ہونے لگے، لوگ گھروں سے باہر نکلے، تنہائی ختم ہوئی اور زندگی معمول پر آنے لگی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ معیشت کا پہیّہ دوبارہ رواں ہوا۔یہ میڈیکل سائنس کا ایک بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے اس قدر تیزی، یعنی صرف ایک سال میں عالمی وبا کی شدت میں کمی کے اقدامات کرلیے۔ اب کورونا کے مریضوں کے لیے گولیاں بھی بنا لی گئی ہیں، جن کی مدد سے امریکا اور برطانیہ میں کام یاب علاج کیا جارہا ہے۔یہ بیماری کے خلاف انسان کی غیرمعمولی فتح ہے۔عالمی گورنینس کے ضمن میں مالیاتی مینجمنٹ اور انتظامی اقدامات بے حد سود مند ثابت ہوئے۔ ڈاکٹرز، جنہوں نے فرنٹ لائن ورکرز کا کردار ادا کیا، ہمارے اصل ہیرو ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی جان بچانے کی جنگ لڑی اور فاتح رہے۔سائنس دانوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ وہ دنیا کا دماغ ہیں اور اسے ہر آفت سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جی۔7 کی چین اور روس کے خلاف صف آرائی
امیر ترین ممالک کی کانفرنس اس مرتبہ کورونا کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ہوئی، لیکن اس کا فوکس امریکا کے منصوبے’’ بِلڈ بیک بیٹر فار دی ورلڈ‘‘ ) بی 3 ڈبلیو ( پر تھا، جس کا مقصد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقابل ایک عالمی ترقّیاتی منصوبہ شروع کرنا ہے۔ اس منصوبے میں غریب اور ترقّی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری سے ان کا انفرا اسٹرکچر جدید بنایا جائے گا۔امریکا کے اس منصوبے کی برطانیہ، فرانس، کینیڈا، جاپان، جرمنی اور آسٹریلیا نے برطانیہ کے شہر کارنووال میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں باقاعدہ منظوی دی۔
اس کے اعلانیے میں چین اور روس کو مغربی دنیا کا سب سے بڑا حریف قرار دیا گیا اور اُنہیں فوجی طور پر روکنے کی بات کی گئی۔ اس پر چین کا شدید ردعمل سامنے آیا اور اُس نے کہا کہ اب وہ دن گئے، جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ وہ نو آبادیاتی دَور کا ذکر کر رہا تھا۔جی-سیون اجلاس میں چین کے ساتھ روس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تاہم اجلاس کے فوراً بعد یورپ کے دورے کے آخری مرحلے میں صدر جو بائیڈن اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان ملاقات ہوئی۔یہ کورونا کے بعد جی سیون کا پہلا اجلاس تھا، جس میں ان ممالک کے سربراہ براہِ راست شریک ہوئے۔
جوبائیڈن کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا غیر مُلکی دورہ تھا، جس میں اُنہوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کی، جس کا مقصد پوسٹ کورونا دَور کی سمت متعیّن کرنا تھا۔ لیکن جس بات نے اہمیت اختیار کی، وہ یہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے اہم مخالف چین کے بارے میں بھی واضح موقف اختیار کیا اور ساتھ ہی اسے اپنے اتحادیوں سے بھی منوالیا۔
یہ ٹرمپ کی چین مخالف پالیسی سے بھی زیادہ سخت اسٹینڈ ہے، جو صرف تجارت تک محدود تھی۔ اب یہ سیاسی اور فوجی مخالفت بن گئی ، لیکن نومبر میں صدر جوبائیڈن اور چینی صدر کی ساڑھے تین گھنٹے طویل ورچوئل ملاقات ہوئی، جس میں ان اختلافات کو حد میں رکھنے پر اتفاق ہوا۔فی الحال امریکا اور چین کسی بھی فوجی تصادم میں ملوّث نہیں ہوں گے۔ سفارتی اور اقتصادی میدان ہی میں مقابلہ ہوگا۔
انڈو پیسیفک، طاقت کے توازن کا نیا محور
18 ستمبر کو عالمی طاقت کے توازن میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا، جب انڈو پیسیفک کے لیے، جسے جنوب مشرقی ایشیا بھی کہا جاتا ہے، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک نئے سیکیوریٹی معاہدے نے جنم لیا، جسے’’ آکوس معاہدے‘‘ کا نام دیا گیا۔( یہ تینوں ممالک کے پہلے الفاظ پر مشتمل ہے)۔اس معاہدے کے تحت امریکا اور برطانیہ، آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے لیس کم از کم بارہ آب دوزیں بنانے اور انہیں سمندر میں تعیّنات کرنے کی صلاحیت کی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے۔ سادہ الفاظ میں اب آسٹریلیا بھی ایک ایٹمی طاقت بن جائے گا۔
یہ عالمی سیاست میں ایک دھماکا ہے، جس کی امریکا دس سال سے تیاری کر رہا تھا اور اس کا باقاعدہ اعلان صدر اوباما کے دوسرے دور میں کیا گیا تھا کہ امریکا کا ارتکاز انڈو پیسیفک پر ہو گا اور اس کے لیے وہ اپنی توانائیاں ایشیا کے باقی خطّوں سے ہٹا لے گا۔ یہ کوئی پسپائی نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔اس سلسلے میں واپسی کا پہلا قدم مشرقِ وسطیٰ تھا اور دوسرا مغربی اور جنوبی ایشیا کا وہ خطّہ جو پاکستان تک ہے۔عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی، شام کی خانہ جنگی میں اس کی سرد مہری، لیبیا کے بحران میں دل چسپی نہ لینا، سعودی عرب، ایران تنازعے سے مونہہ موڑنا، ایران سے نیوکلیئر ڈیل اور اگست کے آخر میں افغانستان سے ایک خاموش واپسی، جس میں پشیمانی کی کوئی جھلک نہیں ملتی، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
ماہرین کے مطابق، آکوس کا مقصد انڈو پیسیفک میں چین کی بڑھتی طاقت کو روکنا ہے، اسی لیے اس پر چین کا ردّعمل شدید تھا۔فرانس کی طرف بھی شدید ردّعمل سامنے آیا کیوں کہ آکوس کی وجہ سے آسٹریلیا کا فرانس کے ساتھ اربوں ڈالرز کی خریداری کا معاہدہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ بعدازاں، اٹلی کانفرنس میں صدربائیڈن اور فرانسیسی صدر کی ملاقات میں یہ معاملہ حل کر لیا گیا۔لیکن آکوس صرف فرانس اور آسٹریلیا کے فوجی خریداری معاملے تک محدود نہیں، اس سے عالمی سیکیوریٹی نظام کے توازن میں بڑی تبدیلی آئے گی۔اسی کے پس منظر میں واشنگٹن میں کواڈ فورم کا بھی اجلاس ہوا، جس میں امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے سربراہوں نے شرکت کی۔امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں افغانستان اور وسط ایشیا سے مِڈل ایسٹ تک کے علاقے کی اہمیت بہت کم ہوگئی ہے۔
جی۔20 گروپ
جی ۔20 دنیا کے 20 امیر ترین اور طاقت ور ممالک کی کانفرنس کا ایجنڈا اِس بات کی عکّاسی کر رہا تھا کہ کووڈ۔19 اب دنیا سے جا رہا ہے، کم ازکم ان ممالک میں تو اس کا اختتام شروع ہوچُکا ہے۔اٹلی کے شہر روم میں ہونے والی اس کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں اور کووڈ۔19 کے علاوہ کارپوریٹ ٹیکس کے معاملات اہم تھے۔چین کے صدر نے ورچوئل طور پر شرکت کی، جب کہ باقی ممالک کے رہنما اجلاس میں موجود تھے۔ اس تین روزہ کانفرنس میں افغانستان کا ذکر تک نہیں ہوا، حالاں کہ پاکستان اور طالبان حکومت بار بار افغانستان کی مدد کی اپیل کر رہی تھیں۔
ان ممالک کی اپنی ترجیحات ہیں اور ان میں افغانستان کہاں آتا ہے، اس کا اس اجلاس سے اندازہ ہوجانا چاہیے۔اس کے فوراً بعد برطانیہ کے شہر گلاسگو میں سی کوپ 26ہوئی، جو پیرس کی کلائیمٹ چینج پر منعقدہ پہلی عالمی کانفرنس کی طرح تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد اُن اقدامات کا جائزہ لینا تھا، جن پر پیرس میں اتفاق کیا گیا تھا۔اگر اسے ایک جملے میں سمیٹا جائے، تو برطانیہ کے وزیر اعظم، بورس جانسن کا یہ جملہ کافی ہوگا کہ’’ نصف شب میں صرف ایک لمحہ رہ گیا ہے۔‘‘
یعنی جو کرنا ہے، کرگزرو، وگرنہ دیر ہوجائے گی۔دوسرے الفاظ میں عالمی رہنما اور ماہرین اس امر پر متفّق تھے کہ موسم جس تیزی سے بدل بدل کر ستم ڈھا رہے ہیں، اُس کی زمین متحمّل ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس پر رہنے والے۔اس کانفرنس میں اتفاق کیا گیا کہ اگلے دس سالوں میں جنگلات کی کٹائی بالکل ختم کر دی جائے اور کوئلے کا انرجی کے طور پر استعمال ختم کیا جائے۔ساتھ ہی موجودہ پیٹرولیم مصنوعات کی جگہ متبادل انرجی کے استعمال پر زور دیا گیا۔
غزہ کی لڑائی
غزہ کا علاقہ ایک مرتبہ پھر میدانِ جنگ بنا اور تقریباً دو ہفتے وہاں موت کا وحشیانہ رقص جاری رہا۔ بے گناہ فلسطینی شہری شہید ہوتے رہے اور شہر کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔اسرائیل کی وحشیانہ بم باری میں ڈھائی سو سے زاید فلسطینی شہید ہوئے، جن 20 خواتین اور 61بچّے بھی شامل تھے، جب کہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ پچاس ہزار سے زاید شہری بے گھر ہوئے۔یہ جنگ رمضان کے آخری دنوں میں شروع ہوئی اور عید کے پورے ہفتے جاری رہی۔اسرائیل نے حسبِ سابق اپنی طاقت کا پوری سفاکیت سے استعمال کیا۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس کی جانب سے اس پر دو ہزار سے زاید راکٹ داغے گئے، جن سے دس اسرئیلی ہلاک ہوئے، لیکن زیادہ تر راکٹ اس کے آئرن ڈوم دفاعی نظام نے گرنے سے پہلے ہی تباہ کردیے۔
ان خون ریز واقعات کے دوران سلامتی کاؤنسل کا تین مرتبہ اجلاس ہوا، لیکن وہ جنگ بندی کروانے میں کام یاب نہ ہوسکی۔اس کی بنیادی وجہ اسرائیل کی ڈھٹائی اور امریکا کا قرارداد پر متفّق نہ ہونا تھا، جس کے پاس ویٹو پاور ہے، لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ چین، روس اور دوسری بڑی طاقتوں نے بھی بیان بازی کے علاوہ کسی عملی کارروائی سے گریز کیا۔پابندیاں تو دور کی بات، اسرائیل کے خلاف کوئی مذمّتی قرار داد بھی منظور نہ ہوسکی۔اسلامی تعاون کی تنظیم، او آئی سی نے ایک سخت قرار داد کے ذریعے اس المیے کا ذمّے دار اسرائیل کو قرار دیا اور فوری سیز فائر کا مطالبہ کیا۔پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
جرمنی کے الیکشن
جرمنی میں ہونے والے انتخابات میں توقّع اور روایات کے عین مطابق کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی، تاہم بائیں بازو کی معتدل سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی(ایس ڈی پی) نے کرئسچین ڈیمو کریٹک پارٹی کو کانٹے کے مقابلے کے بعد شکست دے دی۔ ہارنے والی جماعت چانسلر انجیلا مرکل کی ہے، جو اب سیاست سے ریٹائر ہوگئی ہیں۔ گرین پارٹی اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ لے کر تیسری بڑی جماعت بن گئی، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گرین انرجی کو جرمنی میں کس قدر اہمیت حاصل ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ انجیلا مرکل کے جانشین کو یورپ کی سب سے مضبوط معیشت کی قیادت کرنا ہوگی، لیکن اس کے ساتھ موسیماتی تبدیلی جیسے معاملات بھی ان کی ذمّے داری ہوگی، جس کا ایک مظاہرہ گلاسگو کانفرنس میں سامنے آیا۔جرمنی میں ہمیشہ سے اتحادی حکومت ہی بنتی ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کے لیے اتحاد بنانا کسی بحران کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس کے مُلکی معیشت یا ترقّی پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ جرمنی اب انجیلا مرکل جیسی سیاست دان، حکم ران اور منتظم کے بغیر چلے گا۔
تیل کی قیمتیں اور منہگائی
سال کے درمیان میں تیل کی قیمتوں نے عالمی مارکیٹ میں خاصی ہل چل مچائے رکھی۔گو اس میں زیادہ شدت نہیں آئی کہ اب امریکا کے پاس بھی تیل کے ذخائر ہیں۔تیل قیمتیں ایک مرحلے پر86 ڈالر فی بیرل تک چلی گئیں۔باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تیل کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات سال کے آخری مہینوں میں منہگائی کی شکل میں سامنے آئے۔تاہم، تیل پیدا کرنے والے ممالک خوش تھے کہ ان کی معیشت پر منڈلانے والا بحران ٹل گیا۔
عرب ممالک میں معیشت بحال ہونے لگی، جس سے روزگار کے مواقع نکلیں گے، جو ہمارے جیسے ممالک کے لیے بھی ایک خوش خبری ہے۔اسی پس منظر میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کا اربوں ڈالرز کا امدادی پیکج بھی اہم ہے۔ظاہر ہے، تیل درآمد کرنے والے ممالک کے زر مبادلہ کے بل پر قیمتوں میں اضافے کے منفی اثرات مرتّب ہوئے۔پاکستان کا تیل بل سات ارب ڈالرز سے 19 ارب ڈالرز پر چلا گیا۔تاہم، سعودی عرب سے تیل کی مؤخر قیمتوں کی سہولت سے ہمیں ریلیف ملا۔ایران نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا سے نیوکلیئر ڈیل کے مذاکرات میں پیش رفت دکھائی، جب کہ سعودی عرب سے بھی معاہدہ کر کے پُرامن تعلقات کی طرف بڑھ رہا ہے۔
سعودی عرب میں اصلاحات کا سفر
ولی عہد، محمّد بن سلمان کے’’ ویژن 2030ء‘‘ کے تحت سعودی عرب حکومتی، معاشی اور سماجی سطح پر بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے، اِس سلسلے میں 2021ء میں کئی بنیادی نوعیت کی اصلاحات سامنے آئیں۔ ماضی کی روایات کے برعکس، وہاں حکومتی سطح پر کئی بڑے میوزک فیسٹیولز کے ساتھ، طرح طرح کی تفریحی تقاریب کا انعقاد کیا گیا، جن میں دنیا کے مشہور پرفارمرز نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔بھارتی فلم اسٹار، سلمان خان، شلپا شیٹھی اور جیکولین فرنینڈز کے ساتھ، معروف گلوکار، جسٹن بیبیر نے70 ہزار سے زاید شائقین کے سامنے پرفارم کیا، تو سال کے آخری دنوں میں دارالحکومت، ریاض میں چار روزہ میوزک فیسٹیول ہوا، جسے مشرقِ وسطیٰ کے بڑے میلوں میں سے ایک قرار دیا گیا۔
منتظمین کے مطابق، اس میلے میں7 لاکھ سے زاید شہریوں نے شرکت کی، جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ میلے میں فرانسیسی موسیقار، ڈی جے ڈیوڈ گویٹا نے بھی پرفارم کیا۔2021ء ہی میں مُلکی تاریخ کی پہلی فارمولا ون کار ریسنگ کا بھی جدہ میں انعقاد کیا گیا۔ اِن ایونٹس پر جہاں لوگوں نے حکومت کی تعریف کی، وہیں سوشل میڈیا پر مخالفانہ پوسٹس بھی دیکھنے کو ملیں۔سعودی حکومت کی جانب سے تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی بھی موضوعِ بحث رہی۔اِس ضمن میں پاکستان میں مفتی محمّد تقی عثمانی اور مولانا طارق جمیل کی سربراہی میں وفود نے سعودی سفیر سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔
مراکش میں حکم ران جماعت کو شکست
تین کروڑ، بیس لاکھ آبادی کے افریقی مُلک، مراکش میں ہونے والے انتخابات نے وہاں بہت کچھ بدل ڈالا کہ حکم ران جماعت، جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو بدترین شکست ہوئی۔ شکست بھی ایسی کہ اس کے سربراہ اور ان کے نائب دونوں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دونوں نے ہار قبول کرتے ہوئے استعفا بھی دے دیا۔نیشنل لبرل پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ لیے اور125 نشستیں حاصل کیں، جب کہ حکم ران جماعت کو صرف 12 نشستیں ملیں۔
فاتح پارٹی کے سربراہ عزیز اخنوش نے، جو ایک ارب پتی تاجر ہیں، جیت کے بعد کہا کہ وہ بادشاہ کی پالیسی پر عمل درآمد کریں گے۔جے ڈی پی 2011 ء میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔اسے عرب اسپرنگ سے بہت فائدہ پہنچا تھا۔ جے ڈی پی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مصر کی اخوان المسلمون کے نظریات کی حامل ہے۔2016 ء کے انتخابات میں بھی جے ڈی پی کی مقبولیت نہ صرف برقرار رہی، بلکہ اس کے ووٹوں میں اضافہ ہوا، اسی لیے حالیہ بدترین شکست نے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔کہا جاتا ہے کہ وہ انتخابی وعدے پورے نہیں کرسکی۔
سوڈان، میانمار میں فوج کی بغاوت
سوڈان مسلسل سیاسی بحران سے دوچار ہے۔فوجی سربراہ، جنرل فاتح البرہان نے وزیرِ اعظم عمر البشی کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کیا، عبوری حکومت بنائی، لیکن طاقت فوج کے پاس ہی رہی، بعدازاں اس عبوری حکومت کو بھی گھر بھیج دیا۔وزیر اعظم، عبداللہ حمدوک کو گرفتار کرکے مُلک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔اس اقدام پر مُلک بھر میں فوج کے خلاف مظاہرے ہوئے، جس کے دوران مسلّح اہل کاروں کی فائرنگ سے درجنوں شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔ تاہم، عوامی احتجاج پر ایک ماہ بعد فوج نے معزول وزیرِ اعظم کو بحال کردیا۔اسی طرح میانمار میں بھی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا، تو عوام کی جانب سے سال بھر اس کے خلاف مظاہرے ہوتے ہوئے، جس کے دوران بہت سے شہری فوجیوں کی گولیوں کا بھی نشانہ بنے۔
خلائی سائنس کی کام یابی
گزشتہ برس خلائی سائنس نے ایک اور بڑی چھلانگ لگائی، جب تاریخ میں پہلی مرتبہ خلائی ٹیلسی کے ذریعے انسان کو خلا میں سیر کرنے کا موقع ملا ۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ بھی تھی کہ یہ کام ایلن مسک نے، جو ایک امریکی کھرب پتی تاجر ہیں، نجی سیکٹر میں کیا۔اسپیس سائنس پر اب تک حکومتوں کی اجارہ داری تھی، وہ ختم ہوئی اور نجی کمپنیز کو اس میں سرمایہ کاری کرنے اور مزید تحقیق کے مواقع ملیں گے۔یہ بالکل ایسا ہی لگتا ہے، جیسے ایک مرتبہ پھر سائنس فکشن حقیقت کا روپ دھار گیا۔ جنہوں نے جولز ورن کی’’ فرام دی ارتھ ٹو مون‘‘ اور ایچ جی ویلز کی’’ دی فرسٹ مین اِن مون‘‘ پڑھی ہیں، وہ اسے اچھی طرح سمجھ لیں گے۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب دوسرے سیّاروں پر انسانی بستیوں کا خواب بھی پورا ہو جائے گا۔
خلیج میں نئی صف بندی
2021ء کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مِصر نے قطر کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے، جس کے بعد خطّے میں ساڑھے تین سال سے جاری تنازع ختم ہو گیا۔اِن ممالک نے جون2017 ء میں قطر پر ایران سے قربت اور شدّت پسند گروہوں کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے تعلقات منقطع کر لیے تھے، جب کہ قطر اِن الزامات سے انکاری تھا۔قطری امیر، خلیج تعاون کاؤنسل( جی سی سی) کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچے، تو ولی عہد ،شہزادہ محمّد بن سلمان نے خود اُن کا استقبال کیا ۔اِس اہم اور اچانک سفارتی پیش رفت پر ماہرین کا خیال تھا کہ امریکا میں اقتدار کی تبدیلی نے بھی اِن ممالک کو ایک دوسرے کے قریب ہونے پر مجبور کیا ہے۔
دوسری طرف، عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات میں بھی مضبوطی دیکھنے میں آئی۔12 دسمبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم، نیفتالی بینٹ متحدہ عرب امارات کے دورے پر پہنچے۔ یہ کسی بھی اسرائیلی وزیرِ اعظم کا اس مُلک کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔اگرچہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا دورے پر روانہ ہوتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ معاشی اور تجارتی تعلقات پر توجّہ دیں گے، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق، اس دورے کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں ایران سے متعلق امور بھی ایجنڈے کا حصّہ تھے۔مشرقِ وسطیٰ ہی کے حوالے سے یہ خبر بھی اہم رہی کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان عراق کی ثالثی میں مذاکرات جاری ہیں تاکہ خطّے میں کشیدگی کم کی جاسکے۔ تاہم، سال کے آخر تک اِس حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا۔