• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی عقلمند کا قول ہے جو اس نے شعر میں یوں بیان کیا ہے:
سب سے پیار توکر سکتا ہوں
سب سے جنگ نہیں کر سکتا
جنگ ایک تباہ کن عمل ہے جبکہ امن یا پیار تعمیری فعل ہے۔ تباہیاں ہمیشہ جنگ سے ہوتی ہیں جبکہ کامیابیاں اور سکون امن کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ ایک آفاقی سچائی ہے جس میں کسی بحث و مباحثے کی ضرورت نہیں۔ قومی بالادستی اور دوسروں کا استحصال کرنے کی خاطر بھی جنگیں ہوتی ہیں لیکن وہ جنگیں وہ قومیں کرتی ہیں جو اپنی معاشی اور فوجی ترقی کی معراج پر ہوتی ہیں۔ حالانکہ بعض اوقات طاقتور اقوام اور افواج کو بھی وہ جنگیں مہنگی پڑتی ہیں اور وہ تنزلی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ہماری حالیہ تاریخ میں دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور سابقہ سوویت یونین کو افغان جنگ نے تباہ و برباد کر دیا تھا۔ حالانکہ پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں سوویت یونین نے ایشیاء اور مشرقی یورپ کی بہت سی جنگوں میں کامیابی بھی حاصل کی تھی ۔
وسعت پذیری اور قبضہ گیری کیلئے ہونیوالی جنگوں میں بعض اوقات بڑے غیر منطقی اور عجیب و غریب جواز دئیے جاتے ہیں ۔ جیسے امریکہ نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار وں کی تلاش کے جواز میں عراق پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا جبکہ 9/11کی آڑ میں افغانستان میں آبیٹھا۔ طاقت کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور اپنی مبادیات۔ بالکل اس شیر کے اصولوں کی طرح جسے بھوک لگی تھی اور وہ کسی طرح بھی کسی جانور کا شکار کرنا چاہتا تھا۔ ندی پر پانی پیتے ہوئے اس کی نظر ہرنی کے ایک بچے پر پڑی جو اس سے کچھ فاصلے پر پانی پی رہا تھا۔ طاقتور اور بھوکے شیر نے اسے کہا کہ تم میرا پانی گندا کر رہے ہو۔ میں تمہارا جھوٹا پانی پی رہا ہوں۔ بچے نے جواب دیاحضور پانی تو آپ کی طرف سے میری طرف آرہا ہے ، شیرنے چلا کر کہا کہ پہلے ایسا ہوا ہے بیچارے بچے نے کہا: حضور وہ میں نہیں تھا… شیر نے غرّاتے ہوئے جواب دیا وہ تم نہیں تھے تو تمہارا کوئی رشتہ دار ہوگا اور یہ کہتے ہوئے کمزور ہرنی کے بچے پر حملہ کر کے اس کا شکار کرلیا۔
دنیا کی تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے جب طاقتور نے کمزور کو مختلف حیلے بہانوں سے جنگ کے لئے اکسایا اور پھر اس کا شکار کر لیا۔ جس طرح وسعت پذیری کے لئے جنگ و جدل طاقتور کی مجبوری ہوتی ہے۔ اس طرح ایسی جنگ جس میں موت یقینی ہو، اس سے بچنا کمزور کیلئے لازمی ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر جاندار کا ہر عمل اپنی بقاء کیلئے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کہیں اور کبھی جنگ میں بقاء ہے اور کبھی جنگ سے بچنے میں جو افراد یا اقوام قومی غیرت اور وقار یا مذہبی حمیّت کے نام پر آنکھیں بند کرکے گہری کھائی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ انہیں محّب ِ وطن یا غیرت مند یا کی بجائے اچھے لفظوں میں کوتا ہ نظر ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے اس عاقبت نا اندیشانہ طرزِ عمل سے دشمن کی منشا پوری کرتے ہیں۔ آج جب ہم بحیثیت قوم اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنی ناکامیوں اور تباہیوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں سب سے خطرناک عنصر کچھ طبقات کا نظریہ، نظر آتا ہے جن کے نزدیک ڈپلومیسی ، یا سیاسی مہارت اور دور اندیشی کی کوئی اہمیت نہیں یہ عناصر اسے بزدلی دیتے ہیں ۔ ان کی حب الوطنی اور دینی حمیت کا واحد تقاضایہ ہے کہ ہر مخالف، کو طاقت کے ذریعے نیست و نا بود کر دیاجائے۔ چاہے اس کے نتیجے میں آپ خود بھی تباہ و برباد ہو جائیں اور مدِ مقابل کو کچھ بھی نہ ہو۔ اسی نظرئیے کے تحت افغانستان میں امریکی مفادات کی جنگ کو جہاد قرار دیکر ہم نے سوویت یونین کو تو شکست و ریخت سے دوچار کر دیا لیکن پوری دنیا کو امریکی سامراج کی چیرہ دستیوں کے حوالے کردیا اور اپنی سرزمین کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔
اب رہی سہی کسر اپنے امریکہ کیساتھ محاذ آرائی کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے۔ کچھ مذہبی اور سیاسی سقراط ڈرون جہازوں کو مار گرانے کی صلاح دے رہے ہیں کیونکہ ان کی حب الوطنی اور دینی غیرت کا یہی تقاضا ہے لیکن کیا کبھی انہوں نے اپنی معاشی اور سیاسی اور فوجی طاقت کا امریکہ اور نیٹو کے ساتھ موازنہ کیا ہے؟ اس سے پہلے ہم اسامہ کے ایک محفوظ پاکستانی مقام سے برآمد ہونے کی جگ ہنسائی اور اس کے نتیجے میں امریکی غیض و غضب سے بچنے کی تدابیر کرنے کی بجائے محاذ آرائی کے اس تباہ کن راستے پر گامزن ہیں جس کا تصور ہی خوفناک ہے۔ کون جانے کہ جنہیں ہم نے دھوکہ دیا ہے وہ طاقتیں یہی چاہتی ہوں کہ ہم محاذ آرائی میں ناقابلِ واپسی تک آگے چلے جائیں ۔آخر ہم کیوں نہیں سوچتے کہ کس کس سے جنگ کریں گے؟
تازہ ترین