• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں
نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا
میں کتابٍ دل میں اپنا حال غم لکھتا رہا
ہر ورق اک باب تاریخ جہاں بنتا گیا
آج کے اخبارات کی گرم گرم خبریں ضمنی انتخابات میں ہونے والے اپ سیٹ سے متعلق پڑھ کر مجھے فراق گورکھ پوری کے مندرجہ بالا اشعار یاد آگئے سوچا قارئین کی نذر کردوں۔ ن لیگ پہلے ، پی پی پی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہیں۔ ان انتخابات سے اگرچہ پارٹیوں کی قیادت کی مقبولیت کے بارے میں کوئی حتمی رائے تو نہیں دی جاسکتی لیکن ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں مثلاً عمران خان اپنے آبائی حلقے میانوالی سے اپنی جیتی ہوئی سیٹ گنوا بیٹھے۔ اسی طرح خیبر پختون خواہ جوکہ ان کا حکومتی صوبہ ہے وہاں بھی سیٹ ان کے ہاتھ سے نکل گئی ۔ ن لیگ شہباز شریف کی سیٹ ہار گئی۔ پیپلزپارٹی کو ہاری ہوئی سیٹیں مل گئیں۔ یہ نتائج انتہائی دلچسپ اور معنی خیز ہیں خاص طورسے عمران خان اور شہباز شریف کے حوالے سے ووٹروں نے دونوں شخصیات کو ووٹ دیکر11مئی کو جتوایا تھا۔ پھر صرف تین ماہ کے عرصے میں ایسے کون سے عوامل تھے کہ دونوں رہنما اپنے ووٹروں کے دل سے اُتر گئے اور نظروں میں گر گئے ۔ ان دونوں لیڈروں کو خاموشی سے تنہائی میں بیٹھ کر اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور یاد کرنا چاہئے کہ انہوں نے انتخابات کے بعد کس کس سے نظریں پھیریں ، کس کس کو ملاقات کا وقت نہیں دیا اور لوگوں کے ووٹ لیکر لوگوں کے حکمران بن کر انہیں کس انداز سے اور کتنی حد تک نظر انداز کیا ۔ پیپلزپارٹی کی دو سیٹوں پر کامیابی کی واحد وجہ یہ ہے کہ لوگ ان حکمرانوں سے مایوس ہوئے جن کو انہوں نے اپنے دل میں جگہ دے رکھی تھی اب ری ایکشن کے طورپر انہوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا اور پیپلز پارٹی ہاری ہوئی سیٹیں جیت گئی۔ اگر ملکی حالات ایسے ہی رہے تو میرا اندازہ ہے کہ اگلے انتخابات میں پیپلز پاٹری دگنی نشستیں حاصل کرلے گی کیونکہ جن لوگوں نے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر نئی قیادت کو ووٹ دیا تھا وہ نئی قیادت سے نالاں اور مایوس لگتے ہیں جس کا اظہار انہو ں نے پارٹی کی قیادت کو ہروا کر کیا۔ میرا مطلب ہے کہ عمران خان کی جیتی ہوئی سیٹیں اور شہباز شریف کی جیتی ہوئی سیٹ ان کی رعونت اور مطلق العنانیت کی نذر ہوگئی۔ یہاں احمد فراز کی غزل کے دو اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں
کیا پیر میکدہ ہے کہ سند کے حرص میں
میخانہٴ وفا کے سب آداب لے گیا
اے مست خواب ناز قیامت گزر گئی
”مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا“
سیلاب سے یاد ایٓا کہ ہم ابھی بھی سیلاب کی زد میں ہیں اور کوئی پتہ نہیں کب پانی کا بہاؤ بڑھ کر فصلوں اور جانوں کو نقصان پہنچائے ۔ میری خدا سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کے جان و مال کو محفوظ رکھے اور حکومت کو توفیق دے کہ وہ پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی چھوٹے چھوٹے منصوبے بنائے جس سے تھوڑی تھوڑی بجلی بھی پیدا ہوجائے اور ہم سیلاب سے بھی بچ جائیں مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت ان مسائل کے بارے میں ضرور سوچ رہی ہو گی اور پانی کی ذخیرہ اندوزی اور پھر اس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہوگی۔ موجودہ حکومت نے بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی ہم لوگ لو ڈ شیڈنگ سے نجات حاصل کر لیں گے کیونکہ اب حکومت نے اپنی تمام تر توجہ اس طرف مبذول کی ہوئی ہے۔ دوسری چیز جس کا میں نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی تفصیل سے ذکر کیا تھا وہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے۔ آج بھی صبح صبح تین بوری بند نعشیں بلدیہ کے علاقے سے ملی ہیں جنہیں اغوا کر کے تشدد کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور پھر ان کی بوری بند تشدد زدہ نعشیں ملتی ہیں۔ اس سلسلے میں پیش رفت یہ ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل نو ہوئی ہے جس کے سربراہ وزیراعظم ہونگے اب اس کمیٹی کو کوئٹہ اور کراچی کے حالات سنوارنے کیلئے فوری طورپر مصلحتوں سے پاک ٹرانسپیرنٹ فیصلے کرنے ہونگے جو کہ عملی اقدامات پر مبنی ہوں۔ صرف بیان بازی سے حالات اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں ہم اب ہیں۔ انہیں سنوارنے کے لئے سخت اور کڑوے فیصلے کرنے پڑیں گے اور اگر نہ کئے تو تمام ترقیاتی پروگرام اور ان کے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ جہاں امن نہ ہو وہاں معاشی ترقی نہیں ہوتی۔ گوادر کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اتنا روپیہ خرچ کر کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ روز بوری بند نعشیں ملتی ہیں۔ پولیس اور رینجرز پر حملے ایک معمول بن گیا تھا مگر اب تو آرمی کے ٹرک کے نزدیک بھی دھماکا ہوا ہے جو کہ ایک بڑا خطرناک عمل ہے۔ اس کے کچھ بھی نتائج نکل سکتے ہیں۔ آخر میں حبیب جالب کے حسب حال اشعار پر کالم کا اختتام کرتا ہوں
ہے کون زمانے میں میرا پوچھنے والا
ناداں ہیں جو کہتے ہیں گھر کیوں نہیں جاتے
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے
تازہ ترین