• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ نوشتہٴ دیوار تھا۔ میانوالی، پشاور یہی کچھ ہونا تھا جو ہوا۔ گذشتہ اتوار ”میرے مطابق“ کی ریکارڈنگ سے پہلے والی معمول کی میٹنگ جاری تھی جب میں نے اپنی ٹیم سے کہا کہ میں ضمنی الیکشن کے حوالہ سے پشاور میں بلور صاحب کی کامیابی دیکھ رہا ہوں۔ پھر یوں ہوا کہ یہ موضوع وقت کی کمی کا شکار ہوگیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ مجھے پشاور کے حوالے سے یقین تھا لیکن میانوالی میرے نزدیک مشکوک اور ففٹی ففٹی کا کیس تھا۔
میرے قارئین اور پاکستان تحریک انصاف کے مخلص و معصوم ورکرز اور سپورٹرز کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ پہلے میں نے ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالہ سے ”غلط بخشیوں“ پر شدید احتجاج کیا۔ بعدازاں عمران خان نے بھی اس کا اعتراف کیا لیکن حیرت ہے کہ ضمنی الیکشن میں بھی ایکشن ری پلے ہی ہوا اور وہی جھک ماری گئی جس کے نتائج سامنے ہیں۔ دوسری بات جو پی ٹی آئی کو سمجھ نہ آسکی وہ اسی کالم میں میرا یہ مشورہ تھا کہ پارٹی خیبرپختوانخوا میں حکومت بنانے سے بچے کیونکہ یہ ن لیگ کی میرٹ پسندی نہیں ایک سیاسی چال اور ٹریپ ہے لیکن پی ٹی آئی باز نہیں آئی اور اپنا بھرم داؤ پر لگا دیا جس کی پہلی قسط ضمنی الیکشن میں ادا کرنی پڑی، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بجا کہ خان پر اعتماد ہے کہ وہ ”کے پی کے“ میں کوئی انقلاب بپا کرسکے گا لیکن میں بھی اپنی بات پر قائم ہوں۔ دیکھتے ہیں کہ میرا اندازہ صحیح ثابت ہوتا ہے یا عمران خان کا اعتماد۔ ویسے میری ذاتی خواہش اور دعا یہ ہے کہ میرا اندازہ ہی غلط ثابت ہو کہ اسی میں پاکستان پی ٹی آئی اور ”کے پی کے“ کی بہتری ہے۔ میرا مسئلہ یہ کہ میں ضرورت سے زیادہ حقیقت پسند ہوں اور میری رومان پسندی کی لگامیں بہت مضبوط ہیں۔ اک اور بات جو ریکارڈ پر موجود ہے کہ پی ٹی آئی کے معجزانہ ٹیک آف پر میں نے ”چوراہا“ میں ہی تفصیلاً عرض کردیا تھا کہ فلم ”مولا جٹ“ کا ہیرو جو یہ کہتا تھا ”مولے نوں مولا ناں مارے تے مولا نئیں مردا“ اسی طرح ”عمران خان کو بھی عمران نہ مارے تو عمران نہیں مرتا“ افسوس کہ یہ والی بات بھی ابھی تک تو ٹھیک ہی جارہی ہے اور یہاں بھی یہی خواہش اور دعا ہے کہ اللہ کرے یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہو لیکن اس کی ایک ہی صورت ہے کہ عمران مخصوص لوگوں کے شکنجے اور سحر سے نکلے اور اگر نہیں نکل سکتا تو اپنے ان لوگوں کو بھی اپنی ”کور ٹیم“ میں شامل کرے جن کا سیاسی شعور پختہ ہو اور وہ زمینی حقائق سے پوری طرح آگاہ ہوں۔
عمران کا المیہ پہلے بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ جب پی ٹی آئی لانچ کی گئی تو اس کے اسقاط کا سبب بھی اسی قسم کے ”ممی ڈیڈی“ اور ”برگر بابو“ تھے جنہیں میں سکاچ کارنر کے جانی واکر کہا کرتا تھا۔ یہ فکری اور سیاسی طور پر وہ چوزے ہوتے ہیں جو خود کو لڑا کے اصل مرغے سمجھتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں کیڈ لک محسوس ہوتے ہیں لیکن انکا بونٹ اٹھا کر دیکھو تو اندر انجن کسی آلٹو یا موٹر سائیکل کا ہوتا ہے۔ اسی طرح کے کچھ جمہوری جمناسٹوں نے عمران کو گھیرا ہوا ہے۔ ایک آدھ ”کارپوریٹ بے بی“ بھی ہے جو اتنا ہی موثر رہا تو آئندہ الیکشن تک پی ٹی آئی کو دکھاد فیکٹری میں تبدیل کردیگا۔ اس کیریکٹر کو ایک آدھ بار ہی دیکھا ہے یہ ہیٹ سے کبوتر نکالنے اور آپ کا رومال اپنی جیب سے برآمد کر کے دکھانے کا فن تو ضرور جانتا ہوگا لیکن یہ اصلی پاکستان کی اسے بی سی سے بھی آگاہ نہیں۔ نجانے اسے دیکھ کر یونیورسٹی کے زمانے کا وہ مہمل سا نعرہ کیوں یاد آیا تھا جو 70,60 کی دہائی میں بہت ہی مقبول تھا۔ اس زمانے کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ یونیورسٹی میں اچانک کوئی پاٹ دار آواز میں پوری قوت سے یہ نعرہ لگاتا ۔
”چغد بغد لم ڈھینگ چبغدے ٹھاہ“
جواب میں طلبا وطالبات پورے جوش و خروش کے ساتھ ”چبغدے ٹھاہ … چبغدے ٹھاہ … چبغدے ٹھاہ“ کا ورد شروع کردیتے۔ سچ یہ ہے کہ مجھے آج تک اس مہمل سے نعرے کی کچھ سمجھ نہیں اور نہ ہی میرے ہم عصروں میں کسی اور کو ہوگی لیکن اس میں کوئی نہ کوئی میسج ضرور تھا۔ جسے سمجھ تو سبھی لیتے، بیان آج تک کوئی نہیں کرسکا سو عمران کو بھی چاہئے کہ ”چغد بغد لم ڈھینگ چبغدے ٹھاہ“ کو ٹھیک سے سننے سمجھنے کی کوشش کرے کہ ”اگے تیرے بھاگ لچھئی“
چلتے چلتے عمران خان سے ایک اور تاریخی سچ شیئر کرنا بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ جلال الدین محمد اکبر جیسے چٹے ان پڑھ انگوٹھا چھاپ کو تاریخ ”مغل اعظم“ کہتی ہے اور تغلق جیسے جینئیس کو ”ابنارمل“ لکھا جاتا ہے کیونکہ اکبر اعظم کے مشیر موتیوں جیسے تھے جبکہ تغلق کے مشیر بہت ہی ماٹھے ایسے لوگ تھے جو اس کا موڈ دیکھ کر مشورے دیتے۔
اوریاد رہے … جانتا صرف وہی ہے جو سیکھنا جانتا ہے اور یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ پشاور اور میانوالی صرف دو نشستوں کا معاملہ نہیں، عقل مندوں کیلئے اس میں بڑے اشارے ہیں لیکن پھر وہی بات کہ
چغد بغدلم ڈھینگ چبغدے ٹھاہ!
تازہ ترین