• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے ملک میں سب سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کرنے والے جنرل ضیاء الحق کی 25 ویں برسی منائی گئی۔ ضیاء کے طیارہ حادثے میں موت کے بعد ایک چوتھائی صدی گزر چکی لیکن اسکی تکلیف دہ میراث کئی اشکال میں اب بھی باقی ہے۔ ان کا دور پاکستان کی تاریخ اور سیاسی مقدر کیلئے نتیجہ خیز تھا۔ اس دور کا ایک جائزہ پاکستان کو آج بھی درپیش چیلنجز کی بنیاد کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ ملک کو تکلیف پہچانے والے مسائل نے یا تو اس دور میں جنم لیا یا پھر اس دور میں توانا ہوئے۔ اگر ضیاء الحق اتنے چالاک نہ ہوتے تو وہ اقتدار پر اتنے عرصے(1977-1988) تک قابض رہنے میں کامیاب نہ ہوپاتے، انہوں نے اپنے سیاسی فائدے کیلئے مواقعوں کو استعمال کیا۔ انہوں نے بھٹو کے حامیوں اور مخالفین کو منقسم کرنے کی حکمت عملی اپناکر فائدہ اٹھایا، یہی وہ سیاسی اختلاف تھا جس نے 1977ءء کے فوجی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف جنگ کیلئے امریکی اتحادی بن کر اپنی اندرونی پوزیشن مستحکم کی۔ خود ساختہ نگراں نے اپنی اصل 90 روزہ کارروائی کو لمبے کیرئیر میں تبدیل کردیا، 1977ءء اور 1979ءء میں دو مرتبہ انتخابات کا وعدہ کیا مگر پھر انہیں منسوخ کردیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کی قوت میں کمی کیلئے طاقت کے استعمال اور پالیسیوں میں فوری تبدیلی کے امتزاج کا راستہ اختیار کیا اوراس طرح انہوں نے ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دلوائی۔ لیکن وہ پاکستان کی سیاست پر بھٹو کے اثررسوخ کو کبھی کم نہ کرسکے۔
ضیاء کے دور حکومت کے دوران ملک کو چار اہم پہلوؤں سے طویل عرصے تک سنگین نتائج بھگتنا پڑے، یہ تمام انتہائی نقصان دہ تھے۔ سب سے پہلا اور اہم ان کی اختیار کردہ ملک کی بیرونی اور اندرونی پالیسیوں کا ملاپ تھا جس کی وجہ سے مذہبی انتہاء پسندی اور شدت پسندی کو فروغ ملا۔ اگرچہ قومی سیاست میں مذہب کا اثرورسوخ ابھی باقی تھا اور آزادی کے بعد اس میں اضافہ ہوا تھا تاہم ملک میں ابتدائی تین دہائیوں کے دوران ریاست کے معاملات کو عموماًً مذہب سے دور رکھا گیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں یہ پالیسی تبدیل ہوئی جب انہوں نے ملک کو اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے قانونی اور تعلیمی نظام کو اسلامائزیشن کی طرف لے جانے کے خود ساختہ مشن کا آغاز کیا۔ ضیاء نے اپنے دور حکومت کو جائز قرار دینے کیلئے اسلام کو استعمال کرتے ہوئے سیاست اور مذہب کو یکجا کیا۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں مذہب اور فرقہ واریت کی ایک لکیر کھینچی گئی اور معاشرے میں عدم برداشت بڑھا، شدت پسندی کی سوچ پروان چڑھی اور بے لگام جذباتیت نے قوم کو تقسیم کردیا۔ ان پالیسیوں میں فرقہ واریت کا بھی اہم کردار تھا۔ افغان جنگ کے ساتھ ساتھ ان پالیسیوں نے مذہبی بنیاد پرستی کو فروغ ملا اور ملک میں نئے جنگجو گروہوں کا قیام عمل میں آیا۔ ضیاء دور حکومت میں پاکستان لمبے عرصے تک امریکہ کی ہدایت پر روسی افواج کیخلاف مہم میں مصروف رہا اور ملک ایک جنگ میں پھنس کررہ گیا جس کے ناپسندیدہ سنگین نتائج سامنے آئے اور اس وقت ملک اور خطے کو اپنی بوئے ہوئے بیج کی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے۔ افغان جنگ میں سنگین اسٹریٹیجک غلطیاں سرزد ہوئیں۔ ان میں سب سے خطرناک کمیونزم کیخلاف جنگ میں مذہب کا استعمال تھا جس نے عسکریت پسند بنیاد پرستی کو جنم دیا جو کہ پڑوسی ممالک میں بھی پھیل گئی اور اس کے بعد خود پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بنی۔ ضیاء اور اس کے ساتھی یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ کس طرح یہ جغرافیائی و سیاسی کشمکش ملک کو غیر مستحکم کرنے کیلئے متعدد ذرائع درآمد کریں گے جو ملک کی سیکورٹی کو ضرر پہنچائیں گے۔ درجنوں مسلم ممالک کے ہزاروں شہریوں کی امریکی سرپرستی میں "فورسز آف فریڈم" نے حوصلہ افزائی کی اور افغان جہاد میں حصہ لینے کے لئے ان کی تربیت کی گئی۔ ان مجاہدین میں سے متعدد افراد بعد ازاں القاعدہ کی صورت میں سامنے آئے۔ سرد جنگ تنازعوں کا خاتمہ کرنے والے 9/11 کے واقعے کے بعد اکیسویں صدی میں پہلی فوجی مداخلت کا باعث بنے۔ شدت پسندی کے علاوہ افغان جنگ سے پیدا ہونے والے مسائل میں ملک میں منشیات اور اسلحے کی پیداوار میں اضافہ، مدرسوں کی تعداد بڑھی اور ان مسائل میں کثرت سے مہاجرین کی آمد بھی شامل تھی جس کے باعث پاکستان پوری دنیا میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ ضیاء دور کا دوسرا اہم منفی پہلو اس کی حکومت کا تباہ معاشی انتظام تھا۔ یہ ان معاشی پالیسیوں کا حصہ ہے جو ملک میں مالی بحران کی اصل وجہ بنی جس میں معاشی عدم توازن اور حکومت کی جانب سے لئے گئے قرض بھی شامل تھے۔ 1980ء میں جی ڈی پی کی سالانہ پیداوار 6 فیصد تھی۔ لیکن اعدادوشمار کی رو سے یہ بہتر شرح پیداوار طبعی اور سماجی اثاثہ جات میں کمی اور بھاری قرض حاصل کرکے سامنے آئی تھی۔ مغربی ممالک سے ملنے والی امداد اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے آنے والا آمدزر، اتفاقی طور پر پیدا ہونے والے ان مواقعوں کو ضائع کردیا گیا، حکومت کی جانب سے اسے پیداواری سیکٹرز اور انفرااسٹرکچر میں خرچ کرنے کے بجائے خوش قسمتی سے ہاتھ آئی اس رقم کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ ضیاء دور کے معاشی انتظام کاروں کی عیاشی اور مالی انضباط 1984-85ء میں اس وقت کے موجودہ اخراجات کل محصولات سے بڑھ گئے۔ یہ ملک میں معیشت کی تاریخ میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے یا اخراجات میں کمی پر آمادہ ہونے کے بجائے حکومت نے نہ صرف ترقیاتی کاموں کیلئے اور موجودہ مالی خسارے کو پورا کرنے کیلئے تیزی سے بھاری قرض لینا شروع کردیے۔ ناقابل برداشت ذرائع کے عدم توازن کے بیچ کا عمل دو مرتبہ بجٹ خسارے کی صورت میں سامنے آیا اور قرض کی ادائیگیوں کے توازن کا پودا ضیاء دور حکومت میں ہی لگا۔ اسی وجہ سے ایک غلط روایت پڑ گئی جسے ضیاء کے بعد آنے والے ان کے سول اور فوجی جاں نشینوں نے بیرون ملک سے امداد لینے کو جاری رکھا اور معاشی اصلاحات کو ترک کیا جو کہ ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکتی تھی۔ معاشی اصلاحات میں تاخیر نے اسی وقت سے ملک کو بیرون ملک سے آنے والے قرضوں پر اکتفا کرنے تک محدود کردیا اور مالی لاپرواہی اور معاشی بحرانوں کی وجہ سے ملک کو آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکجز کو دہرانے پر مجبور ہوا۔ ضیاء دور کا تیسرا منفی پہلو سیاسی اور ادارتی نقصان تھا جو کہ ملک میں طویل مارشل لاء کی وجہ سے وجود میں آیا۔ ان کے 11 سالہ دور حکومت نے پاکستان کو ادارتی طور پر سنگین نقصان پہنچایا اور جس کی وجہ سے اس کے بعد آنے والے جمہوری دور حکومت کی بنیادیں بھی کمزور ہوئیں۔ طویل عرصے تک سیاسی سرگرمی پر پابندی، سیاسی جماعتوں پر پابندی، آزاد عدلیہ پر حملے، پریس پر پابندیاں، ان تمام عوامل نے سول سوسائٹی کے اداروں کو سنگین نقصان پہنچایا۔ منتشر معاشرے میں کمزور سیاسی اداروں کی وجہ سے ضیاء دور کے بعد آنے والی حکومت کیلئے بہتر طرز حکمرانی ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا۔ اگرچہ بھٹو دور میں سول بیوروکریسی کو سیاست کی نذر کرنا شروع کیا گیا تاہم ضیاء کے جلد بازی میں کئے گئے اقدامات نے ملک کو انتظامی فقدان میں ڈال دیا۔ انتظامی اور پولیس مشینری سیاست کی نذر ہونے سے یہ ادارے بری طرح مسخ ہوئے اور ان کی اہلیت میں تیزی سے کمی آئی۔
ضیاء دور کا چوتھا منفی پہلو ان کی عوام کو قومی سیاست سے دور رکھنے اور علاقائی عصبیت کی پالیسیاں تھیں جس کے سنگین نتائج مرتب ہوئے۔ جیسا کہ تاریخ دان عائشہ جلال نے علاقائی عصبیت کیخلاف آواز اٹھائی ہے جس میں علاقائی سطح پر عوامی امنگوں کو ابھارنا شامل تھا۔ اس امر کا مقصد نسلی اور مذہبی گروہوں کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنا تھا۔ ان اقدامات سے قومی سیاست کو ترک کیا گیا اور علاقائی تعصب کے رحجان کو جنم دیا گیا جس نے معاشرے کو مزید منتشر کردیا۔ علاقائی سیاست کو مہرہ بنا کر قومی ایشوز کو جان بوجھ کر دبایا گیا اور سیاستدانوں کی ایک نئی قسم پیدا کی گئی۔ ان زیر اثر رہنے والے سیاستدانوں نے حکومت کے ساتھ ہاتھ ملایا اور انہیں شہری زمینوں، بینکوں سے قرضے اور ترقیاتی فنڈز سے نوازا گیا۔ اسی سرپرستانہ اور علاقائی اثرورسوخ نے 1985ء کے بعد غیر جماعتی سیاست کو قومی سیاست پر فوقیت دی جس کی وجہ سے سیاست کا نقشہ اور سیاسی کلچر تبدیل ہوکر رہ گیا۔ ریاست کے ذرائع پر قابو پانے کیلئے حکومتی عہدوں کا حصول سیاست کا اہم مقصد بن گیا۔ ان عوامل کی وجہ سے نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے، جن میں عوامی مقاصد سے بالاتر سیاست، ذاتی مفاد کیلئے حکومتی عہدوں کا غلط استعمال، حکومتی خزانے سے لوٹ مار، ریاست کے ماتحت چلنے والے بینکوں اور اداروں سے رقوم بٹورنا اور اس نظام کے نتیجے میں تیزی سے کرپشن کا پھیلنا شامل ہے۔ تاریخ دان عائشہ جلال کے مطابق سیاست میں قانونی جواز قائم کرنا ضیاء دور میں شروع ہوا۔ صدر ضیاء کے حامی اور اس کے سیاسی جاں نشین اکثر معاشی ترقی اور سیاسی استحکام کو ان کے دور کا اہم کارنامہ قرار دیتے ہیں تاہم تباہی کے دہانے پر پہنچنے والی معیشت، ایک پرتشدد اور منتشر معاشرہ اور کمزور ریاستی ادارے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔
تازہ ترین