• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا جنرل (ر)مشرف کو پانچ سال پہلے بے نظیر بھٹو کے قتل کی ”سازش کرنے یا ایسا کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنے“ کی پاداش میں پھانسی ہو جائے گی؟ نہیں، ایسا نہیں ہوگا۔ گزشتہ ہفتے اے ٹی سی( انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت)نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کرنے پر جنرل (ر) پرویزمشرف اور چار دیگر افراد پر فرد ِ جرم عائد کی ۔ یہ کیس پانچ سال پہلے دائر کیا گیا تھا ۔ اے ٹی سی نے ملزمان پر فرد ِ جرم عائد کرنے میں تین سال لگا دیئے۔ اب تک پچاس گواہوں میں سے صرف اٹھارہ نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے تاہم وہ گواہیاں بے معنی ثابت ہوئیں کیونکہ اُس وقت جنرل پرویز مشرف پاکستان میں نہیں تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ایک مرتبہ پھر گواہ نئے سرے سے عدالت کے سامنے پیش ہوں گے، سوال و جواب کا طویل سلسلہ شروع ہوگا اور وکلاء وقت ضائع کرنے کے نت نئے حربے آزمائیں گے۔ اس طرح اے ٹی سی کو کیس کی سماعت میں مزید پانچ سال لگ جائیں گے، اس کے بعد ہائی اور سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت میں مزید کئی سال لگ جائیں گے۔ ہمیں یاد ہے کہ کیسز میں حائل سیاسی پیچیدگیوں اور قانونی طریق ِ کار کی وجہ سے آصف زرداری کے خلاف بنائے گئے بدعنوانی کے کیسز گزشتہ سولہ سال (اس دوران تین حکومتیں تبدیل ہوئیں) سے التوا میں ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ دس سال بعد ملک پر کس کی حکومت ہو گی؟
اس کیس میں سب سے اہم سوال گواہی کا ہے، اسی طرح حالات و واقعات بھی اہم ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے اہم گواہ اپنے بیان سے پھر جائیں ”غائب“ ہوجائیں یا پھر طاقتور حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے اپنے بیان سے پھر جائیں…اب تک ایک گواہ، جس نے بہت بہادری دکھانے کی کوشش کی تھی، پراسرار حالات میں قتل ہو چکا ہے جبکہ ایک اور نہایت جلد بازی میں ملک چھوڑ کر بھاگ چکا ہے، جبکہ کچھ اور نے بھی بیان دینے سے معذرت کر لی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اہم ترین گواہ اور بے نظیر بھٹو کے واقعات کو قریب سے جاننے والا مارک سیگل بھی دیر تک پاکستان میں رہ کر اپنی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالنا چاہیں۔ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ دفاعی ادارے اس بات کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنے سابقہ چیف کو ہر قیمت پر بچائیں گے۔
اس سلسلے میں عدلیہ، حکومت اور اپوزیشن کا رویہ بھی سامنے ہے۔ اگر عدلیہ کی طرف سے اصغر خان کیس، جس میں آئی ایس آئی پر الزام تھاکہ اس نے 1990ء کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے رقم استعمال کی، کو ”نمٹانے “ کی مثال سامنے رکھی جائے کہ کس طرح اسے ایک عشرے تک التوا میں ڈالے رکھا، پھر بہت دھماکہ خیز انداز میں کیس کی سماعت کی لیکن پھر انجام کار کچھ بھی ہوا۔ اسی طرح بلوچستان کے غائب شدہ افراد کے کیسز میں بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو پائی ہے، نہ کسی کو سزا ملی ہے تو پھر یہ گمان کرنا غلط نہ ہوگا کہ پرویز مشرف کے کیس میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ اس کے علاوہ 2013ء کے اختتام تک موجودہ چیف جسٹس صاحب کی مدت ختم ہوجائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اگلے چیف صاحب نسبتاً مختلف رویہ اپنائیں۔جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو نواز شریف کی فوج اور مشرف کے حوالے سے پالیسیاں قابل ِ فہم ہیں۔ تھیوری کی حد تک نواز شریف دفاعی اداروں کو سویلین حکومت کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کو پتہ ہے کہ یہ کہنا آسان ہے مگر کرنا مشکل۔ ابھی انکے سامنے بہت سے دیگر مسائل ہیں جیسا کہ خراب معیشت، امن وامان کا مسئلہ اور ان مسائل کے ہوتے ہوئے فوج کے ساتھ کوئی بھی چھیڑخانی سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔بلاشبہ ان کی بھارت کے ساتھ امن کی خواہش کا لائن آف کنٹرول پر ہونے والی کشیدگی کے تناظر میں دم توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مشرف کے حوالے سے بھی اُنہیں اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ اس عمل کیلئے ایک طرف ہو کر ایک برادر اسلامی ملک کی نصیحت پر کان دھرنا زیادہ محفوظ ہو گا۔ یہ سب کو یاد ہے کہ جب نواز شریف جیل میں تھے تو سعودی عرب کی مداخلت سے ہی وہ بیرون ِ ملک جانے کے قابل ہوئے تھے۔ تاریخ خود کو کیوں نہیں دہراسکتی۔
پی پی پی نے اس مسئلے پر خاموشی کی پالیسی اپنارکھی ہے۔ اگرچہ صدر زرداری وقتاً فوقتاً ”شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو کیفر ِ کردار تک پہنچانے “ کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ جنرل مشرف کے خلاف کچھ نہیں کر سکے۔ یقینا وہ فوجی قیادت کے تیور پہچاننے میں غلطی نہیں کرتے تھے۔ ہاں، جب وہ اقتدار سے باہر ہوں گے تو ان کی خواہش ہو گی کہ مسٹر شریف طاقتور اداروں کے ساتھ الجھیں اور اس طرح پی پی پی کی ” بحالی“ کا راستہ ہموار کریں۔ جہاں تک ایم کیو ایم، جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو انکے بارے میں سکوت ہی بہتر ہے۔ وہ سب فوج کے ساتھ اپنے مطلب کیلئے رابطے میں رہتے ہیں ، چنانچہ ان میں سے کوئی بھی مشرف کو سزا دینے کی بات نہیں کریگا۔ یواین کے آفیشل ہیرالڈو منز (HeraldoMunez) ، جو محترمہ کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم میں شامل تھے، اپنی کتاب کے اختتام میں لکھتے ہیں”یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بے نظیر بھٹو کا قتل پاکستان کی تاریخ ، جس میں جرائم سے اغماض برتا جاتا ہے، میں ایک اور ناقابل ِ حل کیس ثابت ہو گا۔ جب تک ان کی یاد لوگوں کے دل میں رہے گی، ان کے قاتل کے بارے میں شکوک و شبہات کے سائے بھی موجود رہیں گے“۔ جہاں تک پرویز مشرف کا تعلق ہے تو وہ اب جلاوطنی کی اذیت برداشت کریں گے۔
تازہ ترین