• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان بھر کے تعلیمی بورڈز میں میٹرک کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کے اعزاز میں گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں ان طلبا و طالبات کے درمیان ساڑھے پانچ کروڑ روپے کے نقد انعامات تقسیم کئے گئے جبکہ ان کے اساتذہ کو بھی نقد انعامات سے نوازا گیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ذہین طلبا وطالبات میں نقد انعامات کا یہ سلسلہ گزشتہ چھ برس سے شروع کر رکھا ہے۔ اس تقریب میں پنجاب حکومت کی طرف سے جن طلبا و طالبات کو پاکستان کا واکنگ سفیر بنا کر مختلف یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کے دورے پر بھیجا گیا تھا، انہوں نے بریفنگ بھی دی۔ جوں جوں اس تقریب کی کارروائی آگے بڑھ رہی تھی وہاں بیٹھے میرے ذہن میں بھی نئے نئے خیالات اور آئیڈیاز جنم لے رہے تھے۔ میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آتا رہا کہ کاش میں نے میٹرک کاآج امتحان دیا ہوتا اور ایسے لوگوں میں شامل ہوتا جنہیں نہ صرف انعامات سے نوازا گیا ہے بلکہ پاکستان کا واکنگ سفیر بنا کر بیرون ممالک دورے پر بھی بھجوایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا اقدام نئی نسل کے اندر تعلیم کا شوق اور اس کے ثمرات اُجاگر کرنے کا ایک ماڈل ہے۔کراچی بورڈ کی پوزیشن ہولڈر نادیلہ اور پشاور بورڈ کے حمزہ نے کہا کہ ہمارے صوبوں کی حکومت کو بھی چاہئے کہ اس طرح طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہوئی کہ ڈی آئی خان بورڈ میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والے طالبعلم ایاز نے اپنی کہانی سنا کر نہ صرف ہمارے اسکولوں میں نافذ تعلیمی نظام کو بے نقاب کر دیا بلکہ ایک پالیسی ساز بات بھی کہہ گیا ۔ اس نے کہا کہ ہمارے اسکولوں میں زیادہ تر اساتذہ رٹا لگواتے ہیں اور کانسپٹ کی بنیاد پر پڑھائی نہیں ہوتی ۔ میں ایک غریب رکشہ ڈرائیور کا بیٹا ہوں میرا والد رکشہ چلا کر نہ صرف خاندان کی کفالت کرتا بلکہ مجھے پڑھاتا بھی مگر انہیں فالج ہوگیا تو پھر میں نے اپنے والد کا رکشہ چلا کر نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کی بلکہ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ سارا دن رکشہ چلاتا اور رات کو پڑھتا، میں نے کوئی رٹا نہیں لگایا بلکہ تمام مضامین کے کانسپٹس کلیئر کئے اور اللہ نے مجھے کامیابی دی۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کیلئے ہماری یہ تجویز ہے کہ گزشتہ چھ برس میں ہونے والی ایسی تقریبات کی مکمل ریکارڈنگ نہ صرف پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں رکھی جائیں بلکہ نئے داخل ہونے والے طلبہ کو دیئے جانے والے استقبالیہ میں باقاعدہ دکھائی بھی جائیں تاکہ تعلیم کے حصول کیلئے ان کے اندر ایک جذبہ اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا کی جا سکے۔
وزیراعلیٰ نے اس تقریب کے موقع پر خصوصی طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ دانش اسکول کے طلبہ بھی پوزیشن لے رہے ہیں اور یہ ایسے طلبہ ہیں جن کے خاندان کا پس منظر بہت ہی مفلوک الحال ہے اور تعلیم کا حصول صرف امراء کا ہی حق نہیں بلکہ غریب کو بھی اسی طرح کے مواقع میسر آنے چاہئیں۔ اس حوالے سے پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم جس طرح برائے فروخت ہے اور جو تعلیمی مافیا لوٹ مار کر رہا ہے اس بارے میں چند ایک حقائق اور اس تعلیمی مافیا کا خاتمہ کرنے کیلئے چند تجاویز ان کی توجہ چاہتی ہیں۔ اس وقت تعلیمی بورڈز نے انٹر کے امتحانات کا ابھی اعلان نہیں کیا لیکن گزشتہ تین مہینے سے ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے نہ صرف داخلے شروع کر دیئے ہیں بلکہ بیشتر تعلیمی اداروں میں داخلے مکمل بھی ہو چکے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے والدین کا استحصال اور بلیک میلنگ کر رہے ہیں مگر محکمہ تعلیم اور اس کو ریگولیٹ کرنے والے حکومتی ادارے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کو چیک کرنے والا نہیں، کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ ابھی تک تو رزلٹ آیا نہیں اور تم کس بنیاد پر میرٹ بنا رہے ہو، کس بنیاد پر لوگوں کو داخلے دے رہے ہو، چونکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی کریڈیبلٹی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور پھر طلبا و طالبات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ والدین بے چارے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں ڈر ہے کہ کہیں داخلے بند نہ ہو جائیں اور ہمارا بیٹا یا بیٹی داخلے سے محروم نہ رہ جائے تو وہ مجبور ہیں کہ کسی نہ کسی ادارے میں فیس جمع کرائیں۔ ان اداروں کی فیس سالانہ لاکھوں روپے ہے لیکن افسوس کہ سب کچھ تعلیم سے محبت کرنے والے وزیراعلیٰ کے صوبے میں ہو رہا ہے۔ حکومتی اداروں کا ایسے اداروں کو چیک نہ کرنے سے والدین یہ تاثر لینے میں حق بجانب ہیں کہ ایسے اداروں کو سرکار کی آشیر آباد حاصل ہے اور اس آشیر باد کے بغیر یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اتنی بھاری فیسیں لینے اور غیرقانونی طور پر داخلے کرنے کی جرأت کیسے کر سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ یہ بہت ہی سنجیدہ ایشو ہے اس طرف خصوصی توجہ دی جائے اور ذیل میں دی گئی چند تجاویز اس لحاظ سے کار آمد ہو سکتی ہیں۔
-1تمام تعلیمی بورڈز کے معیار کو بہت بہتر بنایا جائے تاکہ انٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہ رہے کیونکہ تعلیمی بورڈز سے امتحان پاس کرنے کے بعد داخلے کیلئے انٹری ٹیسٹ لینا بذات خود اپنے ہی تعلیمی بورڈز پر عدم اعتماد ہے۔ اگر داخلوں کیلئے حکومت نے انٹری ٹیسٹ لازمی لینا ہے تو پھر تمام بورڈز ختم کر دینے چاہئیں۔ انٹری ٹیسٹ کی وجہ سے تعلیمی شعبہ میں ایک نیا مافیا پیدا ہو چکا ہے اور یہ مافیا انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے نام پر فی طالبعلم 25، 25ہزار روپے لوٹ رہا ہے پھر ایک ٹیسٹ تمام تعلیمی اداروں کی اہلیت کیلئے ہو تو شاید والدین سکون کا سانس لیں مگر ہر تعلیمی ادارہ اپنا علیحدہ سے بھی انٹری ٹیسٹ لے رہا ہے۔ اس کیلئے ایک سے ڈھائی ہزار تک فیس ہے جبکہ ہر تعلیمی ادارے میں پراسپیکٹس کی قیمت ایک سے تین ہزار روپے تک ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عام آدمی کا ان اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانا تو دور کی بات وہ تو یہ تک سکت نہیں رکھتے کہ اپنے بچوں کو اپلائی کروا سکیں۔ -2حکومت کو چاہئے کہ تمام تعلیمی اداروں جن میں یونیورسٹیاں، کالجز اور اسکول شامل ہوں، انہیں اے، بی اور سی تین کیٹیگری میں تقسیم کیا جائے ‘ ہر ایک کا ایک معیار ہو، اس معیار کے مطابق ان سب کی فیس کا اسٹرکچر اور ضابطہ اخلاق مقرر کیا جائے یہ فیس سرکاری تعلیمی اداروں سے کسی بھی طرح 50فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ اس وقت یہ تعلیمی ادارے بالکل بے مہار ہیں اور اپنی اپنی مرضی کی لوٹ مار پہ لگے ہوئے ہیں۔
-3کسی بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کو اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ رزلٹ آؤٹ ہونے سے پہلے داخلے شروع کر کے مکمل کریں بلکہ اس کیلئے حکومت کی طرف سے ڈیڈ لائن یا حتمی تاریخ دینی چاہئے کہ اے کیٹیگری کے تعلیمی ادارے رزلٹ آنے کے بعد دس دن، بی کیٹیگری والے20دن اور سی کیٹیگری کے تعلیمی ادارے تیس دن کے اندر اپنے داخلے مکمل کریں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ بہتر اسٹوڈنٹس داخلہ حاصل کر سکیں گے۔ اس وقت تو جو بہت اچھے اسکور حاصل کرنے والے طالبعلم ہیں وہ خطیر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ کم نمبر حاصل کرنے والے پیسے کی بنیاد پر اچھے تعلیمی اداروں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب تک داخلوں کیلئے کوئی واضح طریقہ کار طے نہیں کیا جاتا، ملک میں تعلیم کی بنیاد پر ترقی کے خواب صرف خواب رہیں گے کیونکہ ذہانت پیچھے چلی جائے گی اور پیسوں کی بنیاد پر ڈگریاں حاصل تو کی جاسکیں گی مگر کوئی قابل لوگ آگے نہیں آسکیں گے۔ اس لئے وزیراعلیٰ نے اپنے وزیر تعلیم رانا مشہود کو یہ جو الٹی میٹم دیا ہے کہ اگلے پانچ برس میں اگر ہر بچہ اسکول میں نہیں ہوگا تو یہ سیاست سے باہر ہوں گے، ہماری گزارش ہے کہ اس الٹی میٹم میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنا میں بھی شامل کریں!
تازہ ترین