• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا وطنِ عزیز پاکستان 1947ء 14اگست اسلامی کلینڈر کے مطابق رمضان المبارک 1366ھ کو وجود میں آیا ۔ گویا پاکستان کو بنے ہوئے عیسوی کلینڈر کے مطابق66سال، اس کی سالگرہ کے67سال، اور اسلامی کلینڈر کے مطابق بنے ہوئے67سال اور اس کی اسلامی سالگرہ کے68سال بنتے ہیں۔ اس کی وجہ ہر 33سال کے بعد اسلامی کلینڈر میں1سال عیسوی کلینڈر کے مقابلے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اتفاق سے اس سال 66سال کی وجہ سے 2سال کا اضافہ ہوا کیونکہ پاکستان 1947ء میں رمضان المبارک میں اگست کے مہینے میں وجود میں آیا تھا ۔ اس سال رمضان المبارک اور اگست کا مہینہ بھی ساتھ آئے ۔ خیر یہ تو ایک عددی اتفاق تھا مگر ہم اس ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں، اس ملک کے وجود میں آنے کے صرف ایک دن کے فرق سے ہمارا پڑوسی ملک بھارت 15اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا اگر ہم دونوں ملکوں کا مقابلہ کریں تو ان میں صرف ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں ایٹمی طاقت ہیں بقایا تمام معاملات میں ہم بھارت سے بہت پیچھے ہیں۔ اس میں بھی بھارت کا ہاتھ ہے جو روز اول سے نہ کل دل سے پاکستان کو تسلیم کر سکا ہے نہ آج اور نہ ہی آنے والی کل وہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے۔ وہ پاکستان دشمنی میں نہ صرف ہمارے بلکہ خود اپنے ملک میں بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ ہر سطح پر آج بھی پاکستان کو نیچا دکھانے کا کوئی حربہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، خواہ وہ معاشی مسئلہ ہو یا اقتصادی ، سماجی، مذہبی کیوں نہ ہو۔ روز اول سے ہی وہ کشمیر کو ہضم کئے ہوئے بیٹھا ہے۔ اس کے لئے خود اس کی اپنی فوج کے نوجوان بیکار موت کے شکار ہو رہے ہیں اور اس وہ ساتھ ساتھ کھربوں روپے ہر سال اس آگ میں جھونک رہا۔ حساب لگائیں گزشتہ 66سال کو ضرب دیں تو وہ کشمیر کی زمین کے ایک گز کی قیمت فرانس کے پیرس ، جاپان کے گنزا ٹوکیو، امریکہ کے نیویارک کے مین ہٹن کی قیمت سے بھی زیادہ ادا کر چکنے کے باوجود کشمیر اس کا نہ ہو سکا۔ مگر وہ بضد ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے اچھے پڑوسی بن کر رہنے کے بجائے ایک دوسرے پر بندوقیں آج بھی تانے ہوئے ہیں اور دنوں ملکوں کو لڑانے والے 66سال سے یہ تماشا خود بنا کر بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہیں اور ہم دونوں ہی ان کے بنائے ہوئے جال میں الجھے ہوئے ایک دوسرے کو کس طرح نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ کھیل تب تک جاری رہے گا، جب تک دونوں فریق عقل کے ناخن نہیں لیتے اور اپنے دوست نما دشمنوں کے چنگل سے باہر نہیںآ تے۔کاش آج بھی اگر وہ فیصلہ کرلیں تو دونوں ملکوں کی دشمنی کے علاوہ ان کی غربت، جہالت ، معاشی ابتری بھی ختم ہو سکتی ہے اور دونوں ملک ترقی کی اس منزل تک پہنچ سکتے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے سوچا بھی نہیں۔
پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کے ذمہ دار خود ہمارے سیاستدان، بیوروکریٹس اور چار جنرل ہیں پہلے جنرل محمد ایوب خان پھر جنرل یحییٰ خان،جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف ۔ اب اقتدار پیپلزپارٹی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تیسری بار ملا ہے ۔ قوم سے ڈھائی ماہ بعد میاں محمد نواز شریف نے خطاب کیا اور وہ تمام حالات بتائے جو قوم پہلے ہی سے نہ صرف جانتی ہے بلکہ بھگت رہی ہے جس میں سب سے خطرناک المناک صورتحال دہشت گردی سے نمٹنے کا ہے جو کسی بھی طرح کم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے ۔ جس کی نشاندہی خود بے بسی کے ساتھ وزیر اعظم نے ایک گھنٹے سے زیادہ کی تقریر میں بیان کی۔ دوسرا مرحلہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق تھا جو الیکشن سے پہلے ایک سال میں ختم ہونے کے وعدے پر شروع ہوا، اقتدار ملنے کے بعد 2سال کا وعدہ دہرایا گیا پھر 3سالوں کی کوشش کا کہہ کر 5سالوں پر ختم ہوا گویا اگلے 5سال تک قوم اس عذاب میں مبتلا رہے گی۔ آج 41حلقوں کے نتائج کے مطابق قوم نے دوبارہ جزوی فیصلہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) پہلے نمبر، جانے والے صدرآصف علی زرداری کو دوسرے نمبر اور تحریک انصاف کے عمران خان کو تیسرے نمبر پر کامیابی تو دلوا دی مگر مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے اس کی وجہ آج بھی ہمارے سیاستدان مل بیٹھ کر ان دونوں مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ قوم اسی طرح مایوسی کے غار میں ہے۔ حکمران دوبارہ قرضے بھی لینے شروع ہو گئے ہیں۔کراچی میں روزانہ اسی طرح جانیں ضائع ہو رہی ہیں، کوئٹہ اسی طرح خون میں نہا رہا ہے ۔ خیبرپختونخوا کا پشاور اسی طرح بم دھماکوں سے گونج رہا ہے۔ حکومت کو 3ماہ ہونے کو ہیں مگر کچھ بھی تبدیل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے اوپر سے بھارت ہماری سرحدوں پر آگ کے گولے برسا رہا ہے، دونوں طرف سے موت کا رقص جاری ہے ۔ ہم صرف احتجاج کر کے بھارتی وزرات خارجہ کے ذمہ داروں کو دفتر خارجہ طلب کر کے فرض پورا کر رہے ہیں۔ 67واں آزادی آکر گزر چکا ہے ملک کو وعدوں وعیدوں سے جس طرح آج تک چلایا جاتا رہا ہے کل بھی انہی وعدوں وعیدوں کے حوالے کر کے اگلے 5سال بھی گزر جائیں گے۔ مسلم لیگ جائے گی تو پاکستان پیپلز پارٹی آئے گی۔ آخر یہ کرسیوں کی تبدیلی کا کھیل کب تک چلے گا؟قوم صرف سالگرہ کی مبارکبادیں وصول کرنے کے لئے زندہ ہے۔
تازہ ترین