• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناولز پر ڈرامے بنانے کا رجحان برقرار رہا، نیوز بیسڈ مارننگ شوز پسند کیے گئے

پاکستان میں26نومبر1964ء سہ پہر ساڑھے تین بجے ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا،جس کے بعد سےتاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابتدا میں بلیک اینڈ وائٹ نشریات ہوا کرتی تھیں اور دورانیہ بھی کم تھا۔بعد ازاں،مُلک بَھر میں5 ٹی وی اسٹیشنز قائم ہوئے، جہاں سے محدود وسائل کے باوجودایک سے بڑھ کر ایک موضوع پرمبنی پروگرامز نشر کیے جانے لگے،جن میں آپس میں قطعاً کوئی مماثلت نظر نہ آتی تھی، لیکن آج حال یہ ہے کہ اَن گنت چینلز کے باوجود بیش تر پروگرامز یک سانیت کا شکار ہیں ،کیوں کہ ریٹنگ کی دوڑ میں اگر کسی چینل کا کوئی ایک پروگرام ہٹ ہوجائے،تو پھر زیادہ تر چینلز اُسی فارمیٹ کو فالو کرتے نظر آتےہیں، البتہ جیو چینل کواپنے آغاز ہی سے Trend Setter کا اعزاز حاصل رہا۔ 

چاہے مارننگ شو ہو یا ٹاک شوز، اسپورٹس سے متعلقہ کوئی پروگرام ہو یا کوئی انٹرٹینمنٹ شو، اپنے منفرد فارمیٹ کی بنیاد پر ناظرین کےدِلوں پر راج ہی کرتے ہیں، تب ہی تو2021ء میں بھی منفرد نیوز بیسڈ مارننگ شو’’جیو پاکستان‘‘ تمام مارننگ شوز کی فہرست میں نمبر وَن ٹھہرا۔ دیگر مارننگ شوز میں باخبر سویرا، چائے، ٹوسٹ اور ہوسٹ،ایکسپریسو، مُسکراتی مارننگ ، گڈ مارننگ پاکستان، مارننگ ایٹ ہوم،مارننگ وِد جگن کاظم اور نیادِن بھی دیکھے گئے۔

ایک نجی چینل سے نشر کیے جانے والے مارننگ شو کی میزبان ندا یاسر، جنھیں اپنے شو میں زیرِ بحث موضوعات کے حوالے سے اکثر تنقید کا سامنا رہتا ہے، سالِ گزشتہ بھی حسبِ روایت ایک پُرانا ویڈیو کلپ وائرل ہونے کی بنا پرتنقید ہی نہیں، میمز کی بھی زد میں رہیں، تو جگن کاظم کو بھی اپنے شو میں ایک مخرّبِ اخلاق مقابلہ کروانے پر شدید ردِّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ 2021ء میں شائستہ لودھی بھی مارننگ شو کی میزبانی کرتی نظر آئیں، انہوں نے ’’مارننگ ایٹ ہوم‘‘ کی میزبان، نادیہ حسین کی جگہ سنبھال لی۔ اگرٹاک شوز کا جائزہ لیا جائے، تو 2021ء میں بھی مشتعل مزاجی، الزام تراشی اور دشنام طرازی کا عنصر غالب رہا، یہاں تک کہ نوبت ہاتھا پائی، مار کُٹائی تک آگئی۔ پاکستان تحریک ِانصاف کی رہنما، فردوس عاشق اعوان کے تھپڑ کی گونج کئی روز تک سُنی گئی۔ 

اگرچہ اس طرح ٹاک شو کی ریٹنگ تو بڑھ جاتی ہے، مگر زیرِ بحث مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔ یعنی سَر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور سَر پھوڑ کر اُٹھتے ہیں۔تاہم، گزشتہ کئی برسوں کی طرح 2021ء میں بھی جیو نیوز سے نشر ہونے والا پروگرام ’’آج، شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ‘‘ خبروں، تجزیوں کے معیار، مہمانوں کے انتخاب اور ریٹنگ کے اعتبار سے نمبر وَن رہا، تو دوسری طرف جیو کے مقبول ترین ٹاک شو’’کیپٹل ٹاک‘‘ نے میزبان کی تبدیلی کے باوجود اپنے معیار اور ریٹنگ میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ 

دیگر ٹاک شوز میں جرگہ، نیا پاکستان، رپورٹ کارڈ ، میرے مطابق اور ایک دِن جیو کے ساتھ ناظرین کی توجّہ کا مرکز رہے،تو ندیم ملک لائیو، کل تک، جاوید چوہدری کے ساتھ، کامران خان کے ساتھ،آواز،آف دی ریکارڈ،لائیو وِد شاہد مسعود، پبلک پلس، خبر گرم ہے، حرفِ راز، تماشا، نسیم زہرا ایٹ8،نیوز وائیز، ٹو دی پوائنٹ وِد منصور علی خان، ایکسپریس ایکسپرٹ،جی فار غریدہ فاروقی، نیوز وَن اسپیشل، پاور پلے، سوال یہ ہے، نائٹ ایڈیشن، نقطۂ نظر بائے مجیب الرحمٰن شامی، ہم مہر بانو کے ساتھ،ہارڈ ٹاک پاکستان،معذرت کے ساتھ، ٹو نائٹ وِد فریحہ،آن دی فرنٹ وِد کامران شاہد، ویوز میکرز، نیور نائٹ وِد نجم ولی خان، سیدھی بات، بینش سلیم کے ساتھ، پسِ پردہ اور آج پاکستان کی آواز بھی ناظرین میں دیکھے گئے۔

اسپورٹس کے شائقین کے لیے پی ٹی وی اور جیو کے بعد ایک اور چینل نے بھی اپنے اسپورٹس چینل کا آغاز کیا، لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے موقعے پر جیو نیوز کا پروگرام ’’جشنِ کرکٹ‘‘ناظرین میں بے حد سراہا گیا، جب کہ پی ٹی وی کے پروگرام ’’گیم آن ہے‘‘ کے میزبان ڈاکٹر نعمان نیاز اورسابق فاسٹ بالر شعیب اختر کے درمیان آن ایئر بحث و تکرار اس حد تک بڑھی کہ شعیب اختر نے پروگرام سے استعفیٰ دے دیا۔بعد ازاں، نعمان نیاز کو آف ائیر کرکے، شعیب اختر کو بھی ایک قانونی نوٹس دیا گیا، لیکن کچھ دوستوں کے بیچ پڑنے سے معافی تلافی ہوگئی اور ہرجانے کا دعویٰ بھی واپس لے لیا گیا۔ 

گزشتہ برس جرائم کے مختلف پروگرامز کا سحر ٹوٹتا نظر آیا تو مزاحیہ شوز بھی ایک ہی فارمیٹ کی بنا پر یک سانیت کا شکار رہے ، تاہم، جیو نیوز کا’’ خبر ناک‘‘ ناظرین میں دیکھا گیا، تو مذاق رات،حسبِ حال،زبردست،اوپن مائیک کیفے وِد آفتاب اقبال بھی ریٹنگ لیتے رہے۔ انٹرٹینمنٹ شوز میں ٹائم آؤٹ وِد احسن خان، جی سرکار وِد نعمان اعجاز اورتاروں سے کریں باتیں، خاصے پسند کیے گئے، مگر افسوس کہ2021ء میں بھی تمام تر دعووں کے باوجود کسی بھی چینل سے بچّوں کے لیے کوئی خاص پروگرام شروع نہ ہوسکا۔

گزشتہ کئی برس سے ماہِ صیام کا چاند نظر آتے ہی مختلف چینلز سے رمضان ٹرانس میشن کا آغاز ہوجاتا ہے، اس ضمن میں 2021ء میں بھی جیو چینل کا احساس رمضان سرِ فہرست رہا، تو دیگر چینلز سے نشر ہونے والے رمضان پاکستان، شانِ رمضان، رمضان میں بول اور برکتِ رمضان پسند کیے گئے، البتہ بعض میزبان اپنی بے ہنگم حرکتوں کے باعث رمضان کا تقدّس پامال کرتے نظر آئے، جیسے عامر لیاقت حسین کے ناگن ڈانس پر ناظرین اور سوشل میڈیا صارفین نےانہیں آڑے ہاتھوں لے لیا، تو ساحر لودھی بھی رمضان ٹرانس میشن کے بیت بازی سیگمنٹ میں معروف شاعر، جون ایلیا کے ایک شعر کو قافیہ، ردیف کے اعتبار سے غلط قرار دینے اورامیدوار کی مسلسل تضحیک کرنے پرشدید تنقید کی زد میں آئے۔اس کے علاوہ تہواروں اور قومی ایّام پر مختلف چینلز، خصوصاً جیو کی اسپیشل ٹرانس میشنز ناظرین کی توجّہ سمیٹنے میں کام یاب رہیں۔

2021ء میں20ویں لکس ایوارڈ کے میڈیا پارٹنر کی چئیر جیو چینل کے حصّے میں آئی۔ یہ تقریب کورنگی انڈسٹریل ایریا کے ایک نجی اسٹوڈیو میں منعقد کی گئی، جس کی میزبانی کے فرائض مہوش حیات، احمد علی بٹ، منشاپاشا اور احسن خان نے انجام دئیے۔ اس تقریب میں سال 2020ء کے بہترین اداکار کا ایورڈ بلال عباس (کریٹکس چوائس)اوردانش تیمور (ویورز چوائس)، جب کہ اداکارہ کا ایوارڈ یمنیٰ زیدی (کریٹکس اور ویورز چوائس)نے حاصل کیا۔ بہترین ڈراما رائٹر کا ایوارڈ عمیرہ احمد کو جیو سے نشر ہونے والے ڈراما سیریل ’’الف‘‘ پر دیا گیا۔ اسی طرح دوسرے سالانہ پاکستان انٹرنیشنل اسکرین ایوارڈ (PISA) کی تقریب کا انعقاد دبئی میں ہوا، جس میں پہلی بار یوٹیوبرز، انسٹاگرامرز، ٹِک ٹاکرز، وِلاگرز اور ڈیجیٹل کانٹینٹ کری ایٹرز کو بھی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 

اس تقریب میں بہترین ٹی وی اداکارہ کا ایوارڈ سونیا حسین (کریٹکس چوائس) اورسارہ خان (ویورز چوائس)، جب کہ بہترین ٹی وی اداکار کا ایوارڈ محب مرزا (کریٹکس چوائس) اور فیروز خان (ویورز چوائس) کے حصّے میں آیا۔ ویسے2021ء اس اعتبار سے بھی جیو نیوز چینل کے لیے لکی ائیر ٹھہرا کہ جہاں جیو نے یوٹیوب پر ایک کروڑ فالوورز کا سنگِ میل عبور کرکے پہلے پاکستانی نیوز چینل کا اعزاز حاصل کیا،وہیں جیو انٹرٹینمنٹ ’’ہر پَل جیو‘‘ کے یوٹیوب چینل نے 23.4ملین فالورز کے ساتھ انٹرنیٹ کی دُنیا میں بھی خُوب نام و مقام بنایا۔

ڈراموںکا ذکر کیاجائے، تو بقول معروف مصنّف، ڈراما نگار اور مزاح نگار، انور مقصود’’ موجودہ دَور میں جس طرح کے ڈرامے لکھے اورنشر کیے جا رہے ہیں، اُنہیں ڈراما نہیں کہا جا سکتا کہ جب سے ٹی وی انڈسٹری میں ڈائجسٹ لکھنے والوں کی اینٹری ہوئی ہے، ڈراموں کا مزاج ہی بدل گیا ہے ۔‘‘اسی طرح بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ’’ہمارا ڈراما کہیں زیادہ بہتر ہوسکتا ہے، اگر اسے 12تا 15اقساط تک محدود کردیا جائے کہ 28تا 32اقساط تک کہانی اس طرح گھسیٹی جاتی ہے کہ اچھے بھلے ڈرامے سے سخت بوریت اور بہترین کرداروں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ ‘‘

بہرحال، ہر سال کے آغاز سے جہاں متعدّد ڈرامے ایک طویل سفر شروع کرتے ہیں، تو ان میں سے کچھ تو مقبولیت حاصل کرتے ہیں، لیکن کچھ تنقید کی زد میں بھی آجاتے ہیں۔جیسا کہ سال 2021ء میں جنوری تا دسمبر مختلف ڈرامے نشر ہوئے ،جن میں سے قارئین کی آرا سے مرتب کی جانے والی ایک فہرست کے مطابق جن ڈراموں نے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا،اُن میں سرِ فہرست جیو چینل سے نشر ہونے والا سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ کا ڈراما سیریل،’’’خدا اور محبّت سیزن تھری‘‘تھا، جس نے یوٹیوب پر 52ملین سے زائد ویوز حاصل کرکے پاکستانی ڈراما انڈسٹری کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے،تو بھارت میں بھی نمبر وَن ٹرینڈ کرتارہا کہ اس ڈرامے کی ایک قسط کو ڈیڑھ کروڑ سے زائد بھارتیوں نے دیکھا۔ ڈرامے کے رائٹرہاشم ندیم ، جب کہ ہدایت کار سیّد وجاہت حسین تھے۔ 

گل بی کا لکھا ڈراما’’رقیب سے‘‘ ایک بہترین کلاسیکل ڈراما تھا،جسے ہر اعتبار سے مدّتوں یاد رکھا جائے گا۔واضح رہے، اس ڈرامے کے ذریعے معروف گلوکارہ حدیقہ کیانی نے ڈیبیو دیا۔ اسی طرح ہیومن ٹریفکنگ سمیت کئی حسّاس موضوعات اُجاگر کرتے ڈراما سیریل’’ دِل نا اُمید تو نہیں‘‘ نے ناظرین کو آخری قسط تک نا اُمید نہ ہونے دیا۔ 

ڈرامے کی کہانی آمنہ مفتی نے لکھی تھی۔اس سیریل کو ہائپ ملنے کی وجہ، جہاں منفرد اسٹوری لائن تھی، وہیں یمنیٰ زیدی، نعمان اعجاز، عمیر رانا، وہاج علی، یاسرہ رضوی، نوید شہزاد اور عدنان شاہ ٹیپو کی شان دار اداکاری بھی تھی۔ اِسی طرح پہلی قسط نشر ہونے سے قبل ہی متنازع ہوجانے والا ڈراما ’’ڈنک ‘‘بھی ریٹنگ چارٹ پر خاصا نمایاں رہا۔

اس ڈرامے کے رائٹر محسن علی اور ہدایت کاربدر محمود تھے، جب کہ کاسٹ میں نعمان اعجاز، بلال عباس، ثنا جاوید، یاسرہ رضوی،شہود علی، ازیکہ ڈینیل اور لیلیٰ واسطی وغیرہ شامل تھے۔ ہاشم ندیم کے ایک اورتحریر کردہ ڈراما سیریل ’’رقصِ بسمل‘‘ نے بھی ناظرین سے خُوب پزیرائی حاصل کی، اس ڈرامے کے ذریعے معروف فلمی اداکارہ زارا شیخ نے ٹی وی کی دُنیا میں بھی قدم رکھ دیا۔

ایک اور سبق آموز، لیکن حد درجہ طوالت کے سبب مقبولیت کھو دینے والے ڈرامے ’’اولاد‘‘ نے بھی توجّہ حاصل کی۔ اس ڈرامے کی کہانی سیّد امیر علی شاہ نے لکھی، جب کہ ہدایت کار عباس رضا تھے۔ ڈراما سیریل ’’پردیس‘‘ بھی ناظرین میں بے حد دِل چسپی سے دیکھا گیا کہ اس میں پردیس کاٹنے والوں اور ان کے اہلِ خانہ کے مسائل کوبخوبی اُجاگر کیا گیا۔ 35 اقساط پر مشتمل اس ڈرامے کی لکھاری ثروت نذیر اور ہدایت کار مرینہ خان تھیں۔ زنجبیل عاصم کے قلم سے تحریر کردہ ڈراما ’’فتور‘‘ بھی ناظرین سے پسندیدگی کی سند حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔ 

اسی طرح ڈراما سیریل ”قیامت“ نے بھی پہلی ہی قسط سے ریٹنگ چارٹ پر برتری قائم کی۔ اس ڈرامے کی رائٹر بھی ثروت نذیر، جب کہ ڈائریکٹر علی فیضان تھے۔ اس ڈرامے میں احسن خان نے ایک عیّاش، اَن پڑھ اور بدتمیز شوہر کا کردار ادا کیا، جس کے لیے انہوں نے خاص طور پر اپنا وزن بڑھایا۔ محبّت و الم کی داستان پر مبنی ڈراما سیریل ’’لاپتا‘‘ بھی جہاں ناظرین کے دِلوں میں جگہ بنانے میں کام یاب رہا، وہیں چند مناظر پر (خاص طور پر عائزہ خان کا دکان دار کو ویڈیو وائرل کرنی کی دھمکی دینا اور سارہ خان کا گوہر رشید کو تھپڑ مارنا) اعتراضات بھی سامنے آئے۔ 

ڈراما ’’پہلی سی محبّت‘‘ بھی، جس کی مصنّفہ فائزہ افتخار اور ہدایت کار انجم شہزاد تھے، مقبولیت حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔ اس ڈرامے کے ذریعے نام وَر فیشن ڈیزائنر حسن شہریار نے ڈیبیو دیا۔ علاوہ ازیں، رنگ محل، مجھے خدا پر یقین ہے، فطرت ، محبّت چھوڑ دی مَیں نے، خواب نگر کی شہزادی، وفا بے مول، عشق ہے،پھانس،میرے اپنے، یوں تو ہے پیار بہت، آزمایش، نیلی زندہ ہے اور مجھے وداع کر جیسے ڈراموں نے بھی ناظرین کی توجّہ سمیٹی، تو تادمِ تحریر نشر ہونے والے ڈراموں میں محبّت داغ کی صُورت، دِل مومن، فاسق، جو بچھڑگئے، اے مشتِ خاک، تیری بے حسی، ڈور، بنّو، بے چاری قدسیہ، عشقِ لا، دوبارہ، قصّہ مہر بانو کا، جیم چے، بددُعا، مَیں ہاری پیا، بے نام، امانت، بےرُخی اور صنفِ آہن، بے بسی، بد نصیب، بساط، بے باک، بے نام بھی دِل چسپی سے دیکھے جارہے ہیں۔2021ء میں ماہِ رمضان میں روزانہ نشر کیے جانے والے خصوصی ڈراموں کا ذکر کریں، تو لَو ٹرائی اینگل پر مبنی صائمہ اکرم چوہدری کا تحریر کردہ جیو کا ڈراما ’’عشق جلیبی‘‘ ناظرین کی بَھرپور توجّہ کا مرکز ٹھہرا، تو ایک اور چینل سے نشر ہونے ولا صائمہ اکرم ہی کا لکھا رومانی اور کامیڈی ڈراما ’’چُپکے چُپکے‘‘ بھی ریٹنگ کی دوڑ میں نمایاں رہا، جب کہ حسن امام کا تحریر کردہ ڈراما’’تانا بانا‘‘بھی خاصی دِل چسپی سے دیکھا گیا۔

پچھلے کئی برسوں کی طرح گزشتہ برس بھی ناولز پر ڈرامے بنانے کا رجحان برقرار رہا۔ اس ضمن میں ہاشم ندیم کے ناول ’’پَری زاد‘‘، جوجنگ، سنڈے میگزین میں قسط وار شایع ہوا اور عمیرہ احمد کے ناول ’’ہم کہاں کے سچّے تھے‘‘کا تذکرہ بےمحل نہ ہوگا۔ ’’پَری زاد‘‘ پر بننے والے ڈرامے کی کاسٹ میں خاصے منجھے ہوئے اداکار شامل ہیں، جن کی اداکاری نے ناظرین کو تاحال اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے، البتہ ’’ہم کہاں کے سچّے تھے‘‘ کے لیے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ناول، ناول ہی رہتا تو اچھا تھا۔جب کہ ڈراموں کے اوریجنل ساؤنڈ ٹریکس میں راحت فتح علی خان اور نیشا اشعر کی آواز میں گایا گیا’’مَن جھوم جھوم‘‘،جس کی دُھن نوید ناشاد نے ترتیب دی، سرِ فہرست رہا۔

اس کے علاوہ برطانوی اخبار، ایسٹرن آئی کی جانب سے جاری کردہ بااثر شوبز شخصیات کی فہرست میں پہلی بار کسی پاکستانی اداکارہ نے جگہ بنائی۔فہرست کے مطابق ساتویں نمبر پر پاکستانی اداکارہ سجل علی تھیں، جب کہ گلوکار عاطف اسلم 25 ویں، حدیقہ کیانی 30 ویں، یمنیٰ زیدی 35 ویں اور بلال عباس 39ویں نمبر پر رہے۔