• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ میں لئے جانے والے کچھ اقدامات پر بزنس کمیونٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں ملک کے صنعت و تجارت کے سب سے بڑے ادارے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی معاشی ٹیم، سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ اور کسٹم و ٹیکس کے اعلیٰ حکام سے فیڈریشن ہاؤس میں ایک ملاقات کی جس میں فیڈریشن کے صدر زبیر ملک، نائب صدور، پاکستان کی بزنس کمیونٹی کے لیڈرز طارق سعید، ایس ایم منیر اور میرے علاوہ دیگر اہم شخصیات گل احمد کے بشیر علی محمد، کرم سرامکس کے ارشاد قاسم، انور ٹاٹا اور بشیر جان محمد وغیرہ نے شرکت کی۔ 3گھنٹے جاری رہنے والی اس اہم میٹنگ میں وزیر خزانہ نے ملک کو درپیش معاشی مسائل کا ذکر کیا جس میں بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے، زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی، ملک میں توانائی کا بحران، امن و امان کی ناقص صورتحال، ریونیو کی وصولی میں کمی اور غیر دستاویزی معیشت جس کی وجہ سے لاکھوں افراد ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں جس کے باعث ہماری ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح کم ہوکر صرف 8.5% سے 9%تک آگئی ہے اور ہم ہر سال ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں کرپارہے۔ محدود مالی وسائل کے باعث حکومت کے پاس ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز دستیاب نہیں جس کی وجہ سے وہ سوشل سیکٹر بالخصوص تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں عوام کو مہیا نہیں کرپارہی، نتیجتاً ملک میں غربت میں روز بروز اضافہ، دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ بزنس کمیونٹی کو 2 سے 3 سال تک کڑوا گھونٹ پی کر زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 503 ارب روپے (تقریباً 5 بلین ڈالر) کے گردشی قرضے (سرکولر ڈیٹ) کی 45 دن میں ادائیگی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا لیکن انرجی بحران ختم کرنے کیلئے یہ ناگزیر تھا۔ گزشتہ حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کیلئے 5 سالوں میں 1450 ارب روپے کی سبسڈی دی اور اس طرح ہمارے قرضے جی ڈی پی کے 66%تک پہنچ گئے جس کے ہم مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے حکومت نے حال ہی میں 200 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے کمرشل اور صنعتی صارفین کے نرخوں میں اضافہ کیا ہے اور اس طرح 3 سالوں میں حکومت بجلی کے نرخوں میں دی جانے والی سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے صنعتی صارفین کیلئے گیس کے نرخوں میں بھی 17% اضافہ کردیا ہے۔ صنعت کاروں کے مطابق فوری طور پر اتنا زیادہ اضافہ ان کی پیداواری لاگت کو بڑھادے گا جس سے پاکستانی مصنوعات بین الاقوامی منڈیوں میں غیر مقابلاتی ہوجائیں گی جبکہ موجودہ حالات میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے ملکی ایکسپورٹس میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ سال حکومت کو بمشکل 2050 ارب روپے کے ریونیو وصول ہوئے اور اس سال ریونیو ہدف 2475 ارب روپے رکھا گیا ہے جسے حاصل کرنے کیلئے حکومت کو نئے ٹیکسز لگانے پڑے ہیں۔ بزنس کمیونٹی نے وزیر خزانہ کو بتایا کہ ملک میں سرمایہ کاری اور کیپٹل گروتھ کیلئے دنیا میں ویلتھ ٹیکس ختم کیا جارہا ہے لیکن ہماری حکومت کی جانب سے بجٹ میں متحرک اثاثوں پر 0.5% ٹیکس عائد کرنے کی وجہ سے لوگ ویلتھ ٹیکس کے گوشواروں میں اپنے اثاثے ظاہر کرنے سے ہچکچائیں گے جس سے ملک میں سرمایہ کاری اور کیپٹل گروتھ پر منفی اثرات پڑیں گے۔ بزنس کمیونٹی کا یہ بھی خیال تھا کہ آنے والے سالوں میں حکومت ویلتھ ٹیکس کی شرح بڑھاکر ریونیو ہدف پورا کرنے کیلئے اسے استعمال کرے گی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ بزنس کمیونٹی اسے زکوٰة سمجھ کر دیں کیونکہ اس کے ذریعے غربت میں کمی لائی جائے گی۔ میٹنگ کے دوران بزنس کمیونٹی نے بینکوں سے 10 لاکھ روپے سے زیادہ ٹرانزیکشن کے بارے میں بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ FPCCI کی بینکنگ اینڈ فنانس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے کہا تھا کہ فنانس ایکٹ 2013ء کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء میں 165-Aکی شق جس کے تحت ایف بی آر کو بینکوں کے اکاؤنٹس تک رسائی دی گئی ہے شامل کرنا آئین، بینکنگ کمپنیز اور رازداری ایکٹ 1962ء، اکنامک ریفارمز پروٹیکشن ایکٹ 1992ء اور فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947ء کیخلاف ہے کیونکہ بینک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کی معلومات خفیہ رکھے اور انہی قوانین کے تحت بزنس مین اور اسٹیک ہولڈرز انکم ٹیکس آرڈیننس میں نئی ترمیم کے خلاف کورٹ سے رجوع کررہے ہیں۔ میں نے ایف بی آر کی ان کاوشوں کی حمایت کی جس کے تحت ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا لیکن ٹیکس حکام کے ان اختیارات جن سے وہ بینکوں کے کھاتے داروں کے اکاؤنٹس کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرسکتے ہیں کے غلط استعمال پر خدشات کا اظہار کیا۔ میں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے کوئی ایسا میکنزم اختیار کیا جائے جس کے تحت ٹیکس حکام ٹھوس شواہد کی بنیاد پر عدالت سے کھاتے داروں کے اکاؤنٹ تک رسائی کے آرڈر لے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے مطلوبہ معلومات حاصل کر سکیں بصورت دیگر اس بات کے خدشات ہیں کہ کھاتے دار اپنی رقوم پاکستانی بینکوں سے منتقل کر دیں گے اور ملک میں ڈالرائزیشن کا عمل شروع ہو جائے گا جس کے نتیجے میں لوگ غیر ملکی کرنسیوں میں لین دین کریں گے۔ اس سلسلے میں، میں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو تمام کمرشل بینکوں کے صدور کے ساتھ فیڈریشن میں ایک اہم میٹنگ کیلئے مدعو کیا ہے تاکہ بینکوں کے کھاتے داروں کے تحفظ اور ٹیکس حکام کو دیئے جانے والے نئے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے احتیاطی اقدامات پر حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایک ملین روپے سے زیادہ ٹرانزیکشن کی معلومات صرف ان اکاؤنٹ ہولڈرز کی حاصل کی جائیں گی جو انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت کے پاس اس وقت 5 لاکھ افراد کی ان کی شاہانہ طرز زندگی کی بنیاد پر معلومات موجود ہیں جس میں سے10 ہزار افراد کو ایف بی آر نے نوٹس جاری کئے ہیں کہ وہ اپنے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائیں اور 3 نوٹسز کے بعد عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ حکومت نے بجٹ میں کمپنیوں کے ٹرن اوور ٹیکس کو 0.5% سے بڑھاکر 1% کردیا ہے جس پر بزنس کمیونٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلاواسطہ (Indirect) ٹیکس حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ دنیا بلاواسطہ ٹیکسز ختم کرکے بالواسطہ (Direct) ٹیکسز کے نظام پر آرہی ہے جبکہ ہمارے ملک میں اب بھی بلاواسطہ ٹیکسز لگائے جارہے ہیں اور اس کے تحت اگر کوئی کمپنی مالی سال کے اختتام پر خسارے میں جاتی ہے تو اسے بھی سہ ماہی بنیادوں پر1% ٹرن اوور ٹیکس ادا کرنا پڑے گا حالانکہ دنیا بھر میں انکم ٹیکس صرف منافع پر عائد کیا جاتا ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر کے بارے میں وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے گزشتہ دورہ کراچی میں منی ایکسچینجرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے ملاقات کی تھی جس میں انہیں معلوم ہوا کہ انڈیا میں سونے کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافے کی وجہ سے پاکستان میں سونے کی بغیر کسٹم ڈیوٹی عارضی امپورٹ جس کے تحت سونا جیولری بناکر ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے کی امپورٹ 200 کلوگرام سے بڑھ کر 1400 کلوگرام تک پہنچ چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ یہ سونا پاکستان کے راستے انڈیا اسمگل کیا جارہا ہے تو اسے روکنے کیلئے پاکستان میں بھی سونے کی امپورٹ پر انڈیا کے برابر کسٹم ڈیوٹی عائد کیا جانا چاہئے لیکن ایسا کرنے سے ملک میں سونا مہنگا ہوکر غریب و متوسط طبقے کی استطاعت سے باہر ہوجائے گا، اس صورتحال کے پیش نظر حکومت نے سونے کی امپورٹ پر ایک ماہ کیلئے پابندی عائد کردی ہے جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 106 روپے سے کم ہوکر 103 روپے تک آگئی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ جلد ہی سونے کی امپورٹ پر نئی پالیسی کا اعلان کیا جائے گا، ان کے مطابق مستقبل قریب میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ متوقع ہے جس کے پیش نظر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید مستحکم ہوجائے گی۔ وزیر خزانہ نے بزنس مینوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے فیڈریشن اور ایف بی آر کی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز بھی دی ہے۔ حکومت کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بزنس کمیونٹی کے تحفظات دور کرکے انہیں مکمل اعتماد میں لے تاکہ اسے مطلوبہ معاشی اہداف حاصل ہوسکیں۔
تازہ ترین