• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں روز اول ہی سے سیاسی نظام ہو یا فوجی نظام حکومت !ہر دور میں اقتدار سنبھالنے والوں نے اس بات کی کوشش کی کہ ان کی پسند کے افراد کو من مانے عہدے اور نوکریاں دلادی جائیں اور میرٹ کے نام پر خاندان اور پارٹی کے کارکنوں کو نوازنے میں کوئی بھی دور یا کسی بھی دور کے حکمران پیچھے نہیں رہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کی تقاریر لکھنے والے ماہرین ان سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور اخبارات میں”میرٹ“ کے طرح طرح نعرے اور سلوگن کا اعلان کراتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سلسلہ 1970ء کے بعد تو ا یک کینسر کی طرح پورے معاشرے کے ہر شعبہ میں پھیل گیا جس سے ہماری بیوروکریسی جس کے کام اور قابلیت کا بڑا چرچا ہوا کرتا تھا، کم از کم جنوبی ایشیاء کے ممالک میں تو ہر سطح کے آفیسروں کی تربیت کے لئے انسٹرکٹرز کے طور پر ہمارے حکام کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ وہ سلسلہ بیوروکریسی کی تقسیم، سیاسی اور ذاتی مفادات کی نذر ہوگیا۔1970ء کا ذکر اس لئے کہ اس سے پہلے بھی صدر ایوب خان کا دور ہو یا کوئی اور! ہر دور میں کچھ نہ کچھ افراد میرٹ اور ضرورت کے بغیر سفارت خانوں سے لے کر مختلف اداروں میں بڑی مالی مراعات کے ساتھ تعینات ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں اگر پیپلز پارٹی کے ادوار کا جائزہ لیں تو اس میں بھی”اپنا آدمی“ کے تصور کے تحت کیا کچھ ہوتا رہا ہے بلکہ اس کے حالیہ دور میں تو میرٹ پاس کرنے والوں کو بھی بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کیا گیا،اس کے20-15سال پرانے معطل یا برطرف کارکنوں کو بھی بحال کرکے قومی خزانے سے اربوں روپے انہیں واجبات کی مدمیں دئیے گئے۔ مسلم لیگ، چاہے وہ جونیجو لیگ ہو یا ق لیگ یا ن لیگ ان کے ادوار میں بھی ”اپنا آدمی“ لگانے کے اصول کو ختم نہیں کیا گیا، یہ سلسلہ ماشاء اللہ اب بھی جاری ہے۔ اس سے نقصان یہ ہورہا ہے کہ سول سروس اور پروفیشنل سروسز جس کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے تھے اب اس کے آفیسرز اور ماہرین مجبور ہو کر سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی خوشامدیا ان کا دل جیتنے کے لئے اپنے کام سے زیادہ اس حوالے سے سرگرم رہتے ہیں یعنی ان کی اکثریت تعداد سارا دن اپنی نوکری بچانے یا اچھی اسائمنٹ لینے کے لئے زیادہ سرگرم رہتی ہے۔ اس بیماری کی زد میں ہمارے مالیاتی ادارے اور دوسرے انتظامی ادارے بھی آئے ہوئے ہیں، یعنی ایسے لگ رہا ہے کہ ہمارے نظام میں”آدمی کلچر“ کینسر کی طرح بڑھ رہا ہے۔ اس سے میرٹ کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے اس سے اچھی سے اچھی تعلیم اور صلاحیت کے باوجود آفیسرز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے پچھلے دس بیس سال میں تو اسلام آباد ہو یا صوبے، کلیدی پوسٹوں پر مخصوص انتظامی گروپوں کی اجارہ داری کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔1990ء کی دہائی سے لے کر اب تک تو یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ایف بی آر میں1500سے زائد آفیسرز ان لینڈ ریونیو سروس اور400سے زائد کسٹم سروس سے ہیں۔ انہیں نظر انداز کرکے فنانس ڈویژن کے ایک بہترین آفیسر کو چیئرمین کے عہدہ پر تعینات کرکے پورےFBRکو پیغام دیا گیا کہ اب اپنا کام کریں، آپ کا باس ہمارا آدمی ہوگا۔ اس طرح کی کئی مثالیں پولیس سے لے کر پبلک سیکٹر کے تقریباً تمام اداروں میں ملتی ہیں جس میں پی ا ٓئی اے، سٹیل مل، ریلوے ہر ادارہ قابل ذکر پوزیشن میں ہے۔ پاکستان کے موجود ہ انتظامی حالات کی خرابی اور گورنس کمزورہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ فوجی حکمران بھی ہر جگہ اپنا اپنا آدمی لگا کر کام چلاتے رہے، اس طرح ہمارے سیاسی حکمرانوں نے بھی اس راستے کو اپنائے رکھا۔ بہتر ہے کہ ہر محکمہ میں ضروری نہیں کہ ڈی ایم جی کے آفیسر ہی تعینات کئے جائیں بلکہ انہیں متنازعہ بنانے سے بچایا جائے اس سے بڑے بڑے قابل آفیسر بلاوجہ متنازعہ انداز میں زیر بحث آتے ہیں کہ جس سے ان کی قابلیت اور صلاحیت پر”سیاسی دھبہ“لگنے سے ان کے کیئریر پر بھی اثر پڑرہا ہے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف اس سلسلہ میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور بیوروکریسی کے سینئر حکام سے مشاورت کریں، اس کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا جائے جو اس بات کا جائزہ لیں کہ پاکستان کے انتظامی سروس کے ڈھانچے میں کیا اصلاحات کی جائیں جس سے پولیس سے لے کر فوج، عدلیہ ،فنانس، ایف بی آر، پی آئی اے، سٹیل مل، ریلوے، محکمہ خارجہ، صنعت و تجارت، منصوبہ بندی کمیشن ،غرض پبلک سروس کے ہر ادارے میں میرٹ پر بھرتی اور ترقی کو یقینی بنایا جائے۔ اس سے جہاں انتظامی اور معاشی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے وہاں قومی سطح پر قومی اداروں میں تنزلی کے گراف کو بڑھنے سے روکنے میں کافی مدد مل سکے گی۔اس وقت وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں اور اضلاع میں ہر سطح پر”اپنا آدمی“لگانے کے چکر نے قومی اداروں کی کارکرگی صفر کردی ہے جس سے عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھنے ہی جارہے ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ جو آفیسر یا شخص جس جاب کے لئے درکار ہو اسے پہلی ترجیح دینے اور جو بھی محکمہ میں ہے اسے سینارٹی کے لحاظ سے تعینات کرنے کی پالیسی کے لئے سروسز ایکٹ میں ترمیم بھی کرنا پڑے تو حکومت اکثریتی پوزیشن کی وجہ سے پارلیمنٹ سے یہ ترمیم کراسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت اوراپوزیشن کو مل کر قومی اداروں کو تنزلی سے نکال کر میرٹ کا پابند کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین