• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسجد کے عطیات اور وقف کے بارے میں شرعی حکم (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

سوال: مسجد کی تعمیرات سے اسی مسجد کے مدرسے کا کچھ نقصان اگر ہو تو کیا مسجد کے چندے سے اس کا ازالہ کیا جاسکتا ہے؟

جواب: اگر وقف یا جہتِ وقف دونوں مختلف ہوں تو ایک کی آمدنی کو دوسرے کے مصارف پر خرچ نہیں کرسکتے ۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ:’’ اور اگر واقف یا جہتِ وقف دونوں کی مختلف ہوں ،مثلاً: دو شخصوں نے علیحدہ علیحدہ مسجد بنائی یا ایک نے مسجد اور دوسرے نے مدرسہ بنایا اور ہر ایک نے ان کے لیے علیحدہ وقف مقررکیے ،تو پھر ایک کی آمدن سے دوسرے کے مصارف کے لیے خرچ کرنا جائز نہیں ‘‘۔(حاشیہ ابن عابدین شامی، جلد : 13،ص:441-442، دمشق)

مسجد اور مدرسے کی آمدنی کے ذرائع ،مالی حسابات اور اکاؤنٹ الگ الگ ہیں، تو ایک جگہ کا پیسہ دوسری جگہ استعمال نہیں کیاجاسکتا ۔ ایسے ہی ایک مسئلے کے جواب میں امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں:ــ ’’ اوقاف میں شرطِ واقف مثل نصِّ شارع واجبُ الاتّباع ہوتی ہے اور اس میں بلا شرط واقف یا اجازت خاصّہ شرعیہ کوئی تغیر و تبدل جائز نہیں ، مدرسے کے مال سے مسجد کا قرض ادانہیں کیا جاسکتا ،جو اداکرے گا ، تاوان اُس پر ہے ،مسجد کے مال سے نہیں لے سکتا ، مسجد پر جوجائیداد واقف نے وقف کی ،اگر اس سے بنائے مدرسہ ومصارف مدرسہ کی اجازت دی تھی ،تو جائز ہے ورنہ ناجائز ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد16،ص:157)

مزید لکھتے ہیں: ’’ وقف جس غرض کے لیے ہے ،اُس کی آمدنی اگرچہ اس کے صرف سے فاضل ہو ، دوسری غرض میں صرف کرنی حرام ہے ، وقفِ مسجد کی آمدنی مدرسہ میں صرف ہونی درکنار دوسری مسجد میں بھی صرف نہیں ہوسکتی ،نہ ایک مدرسہ کی مسجد یا دوسرے مدرسہ میں ‘‘۔(فتاویٰ رضویہ، جلد16،ص:205)

سوال: مدرسہ چلانے کے لیے صاحبِ حیثیت والدین سے معمولی فیس لی جاتی ہو ،جب کہ مستحق طلبہ کو زکوٰۃ کی مَد سے پڑھایا جاتا ہو تو کیا ایسے مدرسے کے ساتھ کسی بھی حوالے سے مالی معاونت کرنا جائز ہوگا ؟

جواب: نفلی صدقات کے لیے نادار ہونا شرط نہیں ہے ، مقامی طلبہ پر مشتمل دینی مدارس کے لیے زکوٰۃ وصول کرنا جائز نہیں ،البتہ ایسا مدرسہ جہاں مستحق ِ زکوٰۃ اور ضرورت مند طلبہ ہوں ، وہ زکوٰۃ لے کر نادار طلبہ پرخرچ کر سکتے ہیں ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk