• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل کراچی کے معقول اور نامعقول لوگ پھجے گول گپے والے کی تلاش میں سب کچھ بھلا کر گھر سے نکل پڑے ہیں۔ ان میں نئے پرانے‘ بھولے بسرے سیاستدان‘ اداکار‘ صداکار‘ چھوٹے بڑے دکاندار‘ نامور اور گمنام بیوپاری‘ کارآمد اور بیکار کاروباری لوگ شامل ہیں۔ پھجے گول گپے والے کی کھوج میں وہ سب اس قدر محو ہوچکے ہیں کہ انہیں یہ تک یاد نہیں کہ کبھی بھی اور کہیں بھی ایک سنسناتی گولی ان کا کام تمام کرسکتی ہے۔ وہ سب پیرواہ اور بے نیاز کراچی کے گلی کوچوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ جن گلی کوچوں میں ان کی گاڑی نہیں جاسکتی ان گلیوں میں پھجے گول گپے والے کی تلاش میں پیدل چل پڑتے ہیں۔ میں اپنا شمار کبھی بھی معقول لوگوں میں نہیں کرتا لہٰذا میں نامعقول دیگر نامعقول لوگوں کی طرح پھجے گول گپے والے کی تلاش میں نکل پڑا۔ میرے پاس گاڑی شاڑی تو ہے نہیں۔ نا ہی میرے پاس بائیک شائیک ہے۔ میرے پاس قدیم دور کی ایک سائیکل شائیکل ہے۔ وہ سائیکل تقسیم ہند سے پہلے میں نے جونا مارکیٹ میں ایک کباڑی سے خریدی تھی۔ تب جونا مارکیٹ میں دوسری جنگ عظیم کا کباڑ بکتا تھا۔ فوجیوں کے اوور کوٹ‘ ہیلمٹ‘ بیلٹ‘ لانگ بوٹ‘ جرسیاں‘ موزے‘ دستانے‘ ایلمونیم کے ساس پین‘ کیتلیاں‘ چمچے‘ کانٹے‘ چھریاں اور دیگر الم غلم بکتا تھا۔ وہیں سے میں نے قدیم دور کی سائیکل خریدی تھی جس کے ہینڈل پر لکھا ہوا تھا۔ میڈ ان برمنگھم‘ گریٹ برٹن۔ سائیکل کے پیچھے مڈگاڑ پر کراچی منسپلٹی کا رجسٹرڈ نمبر پیتل کے چھوٹے سے تکون پر لکھا ہوا تھا۔ نمبر تھا‘ ایٹ ایٹ ایٹ۔ یعنی آٹھ آٹھ آٹھ۔ وہ سائیکل میں نے دس روپے میں خریدی تھی۔ سائیکل اپنے نام کرانے کیلئے میں منسپلٹی پہنچا۔ آج کل اس منسپلٹی کو ہم سب میونسپل کارپوریشن کے نام سے جانتے ہیں۔ سائیکل کے اندراج دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ سائیکل اصل میں دیامل جیٹھامل کالج کراچی کے ایک لیکچرار پنٹو ڈسوزا کی تھی۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کیلئے انگلستان گئے تھے۔ پی ایچ ڈی کرکے لوٹے تو اپنے ساتھ ایک عدد سائیکل لے آئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ڈسوزا نے دیامل جیٹھامل کالج سے استعفیٰ دیا‘ اپنا سب کچھ بیچ باچ برطانیہ کی فوج میں شامل ہو کر ویانا چلا گیا اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ دیامل جیٹھامل کالج کو آج کل آپ ڈی جے سائنس کالج کے نام سے جانتے ہیں۔ اس قدر دیدہ زیب اینگلو اورینٹل عمارت شاید ہی کراچی میں آپ کو کہیں نظر آئے۔
اپنی تاریخی سائیکل پر سوار ہو کر میں بھی دیگر معقول اور نامعقول لوگوں کی طرح پھجے گول گپے والے کی تلاش میں نکل پڑا۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پھجا گول گپے والا کون ہے؟ اس کے گول گپوں میں ایسی غیر معمولی کیا خوبی ہے کہ کراچی کے معقول اور نامعقول لوگ دیوانہ وار اس کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ آپ برنس روڈ چلے جائیں۔ قدم قدم پر آپ کو گول گپے والے‘ دہی بھلے یا دہی بڑے بیچنے والے‘ چنا چاٹ بیچنے والے ملیں گے۔ مگر یہ پھجا گول گپے والا کون ہے جس نے اچانک رات و رات اپنے نام نامی اسم گرامی اور شہرت سے کراچی کے معقول اور نامعقول لوگوں کی نیند اڑا دی ہے فی الحال کوئی نہیں جانتا کہ پھجا گول گپے والا کون ہے۔ وہ کہاں رہتا ہے؟ دیکھنے میں کیسا ہے؟ کالا ہے‘ سانولا ہے یا گور چٹا ہے؟ اس کے گول گپوں میں ایسی کیا خوبی ہے کہ حاکم وقت بھی اس کے تذکرے سے نہیں چوکتے۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف لاہور میں ایک ریسٹورنٹ سے پائے منگوا کر خوب شوق سے کھاتے تھے۔ کبھی کبھار بنفس نفیس میاں صاحب اس ریسٹورنٹ میں پائے کھانے پہنچ جاتے تھے۔ اب بھی میاں صاحب اس ریسٹورنٹ کے پائے اور مغز کی نہاری بہت پسند کرتے ہیں۔ جوں ہی میاں صاحب پہلی بار ملک کے وزیراعظم بنے اس ریسٹورنٹ کے وارے نیارے ہوگئے۔ پائے پکانے والے سے میاں صاحب کے گہرے مراسم کا پتہ چلا تو لوگ ریسٹورنٹ کا نام بھول گئے اور پائے پکانے والے کے نام سے ریسٹورنٹ کو پہچاننے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پائے پکانے والے کا نام ملک گیر شہرت کا حامل ہوا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے بڑے یقین سے لوگوں کو بتادیا تھا کہ میاں صاحب پائے پکانے والے کو فوڈ منسٹر کے عہدے سے نوازیں گے مگر میاں نواز شریف نے اپنے پسندیدہ پائے بنانے والے کو نہیں نوازا۔
میرا لاہور آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں میرا لاہور جانا آنا کیوں نہیں ہوتا۔ صرف آنا جانا کیوں ہوتا ہے؟ میں نے سوچ رکھا ہے کہ آنے جانے اور جانے آنے سے جان چھڑانے کیلئے میں ایک مرتبہ اس طرح لاہور جاؤں گا کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ لاہور آنے جانے کے دوران مجھے کئی مرتبہ میاں صاحب کے پسندیدہ پائے بنانے والے کے یہاں پائے کھانے کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ اچھے پائے بناتا ہے۔ پائے کھانے کے بعد نیکر پہن کر انارکلی سے ریشم گلی تک دوڑ لگانے کو جی چاہتا ہے۔ ایک مرتبہ میاں صاحب کے ایک مخالف بلکہ کٹر دشمن نے مجھے کہا ”چل بالم‘ آج میں تجھے گنجے کے پائے کھلاتا ہوں۔ گنجے کے پائے کھانے کے بعد تو میاں صاحب کے پسندیدہ پائے پکانے والے کے پائے کھانا بھول جائے گا“۔
میاں صاحب کا دشمن اور میرا لاہوری دوست مجھے لاہور کی تاریخی گلیوں کی سیر کراتے ہوئے ایک ایسی جگہ لے آیا جہاں گنجے کے پائے کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ گنجے کے پائے سے اچھے‘ لذیذ اور ذائقہ دار پائے میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں کھائے تھے۔ گنجے کے پائے کھانے کے بعد میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ ”کاش میں پاکستان کا وزیراعظم بن پاتا تو گنجے کو فوڈ منسٹر بناتا۔ پائے کو قومی طعام کا درجہ دے کر یکجہتی کو فروغ دیتا اور ملک کو بانٹنے والی بریانیوں مثلاً سندھی بریانی‘ پنجابی‘ بلوچی بریانی‘ پختون بریانی اور کراچی بریانی کی کمر توڑ کر رکھ دیتا“۔
غیر سیاسی شخص کو سیاسی بات نہیں کرنی چاہئے۔ اسی طرح سیاسی شخص کو غیر سیاسی بات نہیں کرنی چاہئے۔ بڑی گڑ بڑ ہوجاتی ہے۔ بڑی چھان بین کے باوجود مجھ جیسے بونگے یہ جاننے سے قاصر رہے ہیں کہ اگلے ماہ ستمبر میں ہمارے نئے صدر لگنے والے اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بننے والے جناب ممنون حسین سیاسی شخصیت ہیں یا کہ غیر سیاسی شخص ہیں۔
ایک ٹیلی ویژن چینل سے انٹرویو کے دوران جب جناب ممنون حسین نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے اپنے دیرینہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میاں صاحب جب بھی کراچی آتے ہیں تب گول گپے کھانے کی فرمائش کرتے ہیں اور ممنون حسین صاحب میاں صاحب کو کئی خاص جگہ سے خاص قسم کے گول گپے منگوا کر کھلاتے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن۔ کراچی کے معقول اور نامعقول لوگ اس گول گپے والے کی تلاش میں نکل پڑے ہیں اور اسے ایک نام بھی دے دیا ہے‘ پھجا گول گپے والا۔
تازہ ترین