• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
” وہ آگے بڑھ کر آتے ہیں، اب انہوں نے میرے دونوں بازو اپنے ہاتھوں میں قابوکئے ہوئے ہیں۔ میرے چہرے پر کپڑا ڈال دیا جاتا ہے اور آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر ، میرے دونوں بازوؤں کو پکڑ کر میری پشت کی طرف کر کے ہتھکڑی لگا دی جاتی ہے اور ایک ڈبل کیبن گاڑی میں بٹھادیا جاتا ہے۔ وہ مجھے سیٹ کے ساتھ لگا کر بٹھاتے ہیں اور میری گردن کو اتنی شدت سے زور دیکر نیچے کرتے ہیں کہ میرا چہرہ میرے گھٹنوں کو جاکر لگتا ہے۔ شدت تکلیف سے میں گردن اوپر کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھ پر تھپڑ اور گھونسے برسنا شروع ہو جاتے ہی۔ ڈبل کیبن گاڑی راستے پر تیزی سے دوڑ رہی ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کا رخ حیدرآباد کی طرف ہے۔ پندرہ بیس منٹ بعد گاڑی کسی انجانے مقام پر آکر رکتی ہے۔ مجھے گاڑی سے اتارا جاتا ہے۔ دو اشخاص مجھے بازوؤں سے پکڑ کر آگے لیکر چلتے ہیں۔ کچھ قدم اٹھانے کے بعد میں خود کو ایک تنگ اور گھٹن زدہ جگہ پر محسوس کرتا ہوں۔ وہ مجھے کسی کمرے میں لیکر آتے ہیں جہاں افسروں کی بہتات لگتی ہے۔ ان میں سے کوئی بالا عملدار اہلکاروں کو حکم دیتا ہے کہ”پہلے اس کے کپڑے تبدیل کراؤ“ وہ مجھے قریب والے کمرے میں لیکر جاتے ہیں، میری آنکھوں پر مسلسل پٹی بندھی ہے وہ بھی کَس کر۔ پٹی اور اسٹیشن پر ملی ہوئی مار پیٹ کے سبب سر، گردن، کولہے اور پیٹھ شدت درد لئے ہوئے ہیں۔ وہ میری پشت پر سے لگائی ہوئی ہتھکڑی کھول کر مجھے کپڑے بدلنے کو کہتے ہیں۔ پہلے پاجامہ ہاتھ میں دیا جاتا ہے وہ پہن لیتا ہوں تو قمیض ہاتھ میں پکڑاتے ہیں۔ جب کپڑے بدل لیتا ہوں تو پھر ہتھکڑی لگادی جاتی ہے۔ساتھ ساتھ آنکھوں پر بندھی کالی پٹی کے اوپر سیاہ خورد یا بوتھاڑا پہنایا جاتا ہے جو پھانسی پر چڑھائے جانے کے وقت سزائے موت کی قیدی کو پہنایا جاتا ہے۔ اس بوتھاڑے کو ٹوپلہ بھی کہا جا سکتا ہے جو اوپر سر اور چہرے کے ڈھانپنے سے لیکر چھاتی تک کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اس خورد میں سے سانس لینے کو منہ اور ناک کے سامنے تین چھوٹے سوراخ نکلے ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی اس میں دم گھٹتا ہے۔ خورد کے اوپر سے اب بھی ایک اور پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ تبرک کے طور دو تین زبردست تھپڑ مار دیئے جاتے ہیں جس کے بعد پہلے والے کمرے میں لے جایا جاتا ہے۔ آنکھوں پر خورد سمیت تین کالی پٹیاں بندھی ہوئیں، ہاتھ پیچھے کی طرف کس کر بندھے ہوئے، مجھے فرش پر بٹھایا جاتا ہے۔ بیٹھتے ہی میرا سر جا کر دیوار سے لگتا ہے۔کوئی افسر میرے پیچھے کھڑا ہو کر میری آنکھوں کے پاس ہاتھ لگا کر بندھی تینوں پٹیوں کا معائنہ کرتا ہے۔”کیا دیکھ رہے ہو؟ “ وہ مجھ سے پوچھتا ہے۔ ”کچھ بھی نظر نہیں آ رہا“ میں اسے جواب میں کہتا ہوں ”نچلی طرف کوئی روشنی کی لکیر وغیرہ؟“وہ مجھ سے پھر سوال کرتا ہے۔”نہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا“ میں نے جواب دیا۔ ”یہاں کچھ دیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرنا۔ پٹی کے ساتھ کوئی بھی حرکت نہیں کرنی ہے۔ اگر اس قسم کی کوئی کوشش کی تو صرف اس بات پر بھی تمہارا حشر بہت خراب ہوگا۔ افسر کہتا ہے۔”فروری کے آخر میں آنکھوں پر پٹی کے عذاب سے جان چھٹی یہاں جو بھی تشدد ہوا ، پٹی کا عذاب اس تمام تشدد سے زیادہ اذیت ناک اور خراب تھا۔ پٹی محض آنکھوں کو بند کرنے کا نام نہیں۔ آنکھوں پر پٹی باندھنے اور کالے خورد چڑھانے کا ایک سبب بیشک یہ ہوتا ہے کہ قیدی کو یہاں کچھ بھی دیکھنے سے روکا جائے۔ ان جگہوں کی دہشت ہی یہی ہے کہ ان کو پراسرار اور سمجھ میں نہ آسکنے والی محسوس کرایا جائے،اس کے ساتھ ساتھ ایجنسیوں کے اہلکار خود کو نظروں میں آنے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پٹی کا سب سے بڑا کام اب بھی کوئی اور ہے۔ وہ یہ ہے کہ پٹی انتہائی زیادہ اعصابی دباؤ پیدا کرتی ہے۔آنکھوں کو متاثر کرنے سے آگے بڑھ کر پٹی دماغ کی رگوں کو متاثر کرتی ہے۔ فشار خون اوپر نیچے رہنے لگتا ہے۔ پٹی کے کسنے کی وجہ سے گردن تھک کر سُن ہو جاتی ہے۔ کولہے،گردن اور سر درد سے پھٹنے لگتے ہیں اور کنپٹیاں پھٹنے لگتی ہیں۔ دیگر ہر تکلیف وقت گزرنے کے ساتھ گھٹتی جاتی ہے لیکن پٹی کا عذاب جیسے جیسے وقت گزرتا ہے بڑھتا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سخت اعصابی تناؤ (ڈپریشن) پیدا ہوتا ہے۔ ڈپریشن انسانی شخصیت پر سب سے زیادہ منفی اثر ڈالتا ہے۔ جسمانی عذاب کا اثر تھوڑا وقت رہتا ہے لیکن ذہنی تشدد کا عذاب دیرپا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں جسمانی تشدد کے ساتھ ذہنی تشدد والا حربہ بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جسمانی موت سے زیادہ وہ روحانی یا ذہنی موت مارنا چاہتے ہیں“۔ مندرجہ بالا اقتباسات میرے حال ہی میں ختم کی ہوئی میرے زیر مطالعہ سندھی زبان میں لکھی کتاب ” قیدی تخت لاہورجا “ ( ”قیدی تخت لاہور کا) ” ٹارچر سیل جی کتھا“ یعنی ”ٹارچر سیل کی کتھا سے ماخوذ ہیں جس یہ تاثرات سابقہ گمشدہ ہوکر دس ماہ تک خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں رہنے والے سندھی شاعر ، صحافی اور قوم پرست کارکن نواز خان زؤر کے ہیں۔ نواز خان زؤر ایک خوبصورت شاعر اور نفیس انسان ہیں ان کی مذکورہ کتاب شاید پاکستان میں گمشدہ لوگوں میں سے ایک کی سرگزشت پر پہلی اور دستیاب کتاب ہے۔ اسی طرح ایک اور گمشدہ سیاسی رہنما نے بھی اپنی سرگزشت مجھے کچھ اس طرح بتائی تھی۔کئی دنوں، مہینوں اور برسوں بعد انہوں نے اس کے سر اور چہرے کو ڈھانپنے والا خورد ہٹایا، اس کی آنکھوں پر باندھی پٹی ہٹائی اور اس نے دیکھا وہ اسے دور دور تا حد نظر سر سبزکھیتوں اور درختوں والے میدان میں لے آئے ہیں۔ اس کے ہاتھوں میں اب ہتھکڑی بھی نہیں تھی، نہ پیروں میں پیر کڑی، پرندے چہچہاتے تھے۔ انہوں نے اس سے کہا ’سر جی! اگرآپ بھاگ سکتے ہیں تو بھاگ جائیں۔’ وہ ان کے ساتھ چلتا جارہا تھا۔ ابھی وہ ان کی بھاگ جانے کی آفر پر سوچ ہی رہا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کے آگے ایک ویلیز جیپ آ کر رکی جس پر ان کے (فوجی) افسر سوار تھے۔ افسروں نے اسے میدان میں لانے والے سپاہیوں سے کہا کہ ”تم لوگ گرفتار ہو اور اب تمہارا کورٹ مارشل ہوگا‘ لیکن سپاہیوں نے اس سے کہا’ ڈاکٹر صاحب ہمارا کیا ہے ہم پھر بھی دو تین سال کے بعد باہر ہوجائیں گے لیکن آپ بھاگ نکلیں اور اب وہ اسی شش و پنج میں ہے کہ اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور خواب ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ ایک لاپتہ آدمی کا خواب تھا۔ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ پاکستانیوں میں سے ایک ڈاکٹر صفدر سرکی۔ سندھی قوم پرست رہنما اور امریکی شہری جس نے حقیقت تو یہ ہے کہ دو سال سے زائد عرصے تک ایک دن بھی سورج کے روشنی دیکھی نہ اس کی آنکھوں سے پٹی اتاری گئی۔ وہ سات بائی پانچ فٹ کے سیل میں قید رہا۔ دو سال کے بعد انہوں نے اسے ایک آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی اجازت دی۔ جب میں نے دو سال بعد خود کو آئینے میں دیکھا تو اپنا چہرہ اور حالت دیکھ کر میں گھنٹوں تک دھاڑیں مار کر روتا رہا۔’ڈاکٹر صفدر سرکی نے مجھے بتایا ’میں خود کو اپنے والد جیسا لگ رہاتھا۔’ اس نے کہا۔ ڈاکٹر صفدر سرکی کے والد ان کی گمشدگی کے دوران فوت ہو گئے تھے۔ دو سال تک صفدر سرکی اپنی قبر کے گڑھے جیسے سیل میں خون اور پاخانے سے بھرے دو کمبلوں میں سے ایک کمبل ننگے فرش پر بچھا کر اور دوسرا اپنے اوپر تان کر سوتا رہا۔اب بھی وہ پلنگ یا چارپائی پر نہیں سو سکتا۔ رہائی پر اس کی ہڈیوں کو فرش پر سونے کے عادت پڑ گئی تھی۔ وہ اکثر راتوں کو سو نہیں سکتا تھا۔ ”میں نے اس سے پہلے سناتھا کہ مرنے کے بعد آدمی سے پوچھ گچھ کرنے دو فرشتے آتے ہیں لیکن قبر کا عذاب میں نے اپنی گمشدگی کے دوران بھگتا’ وہ مجھے بتا رہا تھا۔ ڈاکٹر صفدر سرکی اور نواز خان زؤر پھر بھی خوش قمست ٹھہرے کہ وہ اس گمشدگی کے عقوبت خانوں سے زندہ واپس لوٹے لیکن کئیوں کی طرح بلوچ صحافی حاجی رزاق سربازی اور نوجوان سندھی طالب علم رہنما افضل پنوہر اتنے خوش نصیب نہ تھے کہ جن کی تشدد سے مسخ شدہ لاشیں ان کے اہل خانہ کو ملیں۔ بلوچی اخبار توار کا سب ایڈیٹر حاجی رزاق سربازی ان بلوچ گمشدگان میں سے ہیں جن کی لاشیں بلوچستان سے گم ہوکر کراچی میں حال ہی میں دریافت ہوئی ہیں۔ حاجی رزاق کی لاش تشدد سے اتنی مسخ تھی کہ صرف اس کی ٹانگوں سے اس کے گھروالوں کو شناخت کرنے میں چوبیس گھنٹے لگ گئے جبکہ نوجوان افضل پنوہر جسے دو مرتبہ خفیہ ایجنسیاں اٹھا کر لے گئی تھیں اور آخری بار جب نیم زندہ درگور اسے رہا کیا گیا تو اسے ٹی بی سمیت کئی مرض لاحق ہوچکے تھے لیکن گزشتہ پندرہ اگست کو اسے سندھ یونیورسٹی کیمپس سے جامشور اور حیدرآباد کے ایس ایس پیز کی سربراہی میں زندہ گرفتار کیا گیا اور لے جاکر کوٹری میں جعلی مقابلے میں قتل کردیا گیا۔گم کرنے والی ایجنسیاں شاید اس عدلیہ پر بھروسہ نہیں کرتیں۔گمشدہ لوگوں کیلئے کوئٹہ میں احتجاجی کیمپ لگانے والے ماما قدیر بلوچ کہ جن کے بیٹے خود ایجنسیوں نے غائب کرکے قتل کردیئے تھے کے احتجاجی کیمپ کو ہی جلاکر نیم خاکستر کردیا گیا ہے۔ماما قدیر بلوچ کہتے ہیں کہ کئی دنوں سے احتجاجی کمیپ قائم کرنے پر انہیں خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔سندھیوں اور بلوچوں پشتونوں چاہے بے نوا بے آسرا پنجابیوں اور سرائیکیوں کی طرف اپنے رویے پر ریاست کو نظر ثانی کو بھی بہت دیر ہوئی جاتی ہے۔گمشدگیاں کرنے یا حکم دینے والے شاید سمجھ رہے ہیں کہ وہ قومی سلامتی مضبوط کر رہے ہیں (جس کی مضبوطی کی فکر کا قوم مظاہرہ حال ہی میں اسلام آباد میں لائیو تماشے کی طور پر دیکھ چکی ہے) لیکن حبیب جالب والی بات کہ
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو منزل کھو رہے ہو
تازہ ترین