• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے سنا تو ہوگا،لڑائی کے بعد یاد آنے والے مُکّے کے بارے میں۔ کہتے ہیں اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئے۔اس بندوق کا کیا کریں جو ضرورت کے وقت زنگ آلود ثابت ہو؟ اور ان لوگوں کا جو اس کے رکھوالے ہیں؟ اور وہ جو نشانہ بازی پر ہر سال قوم کے ہزاروں روپے ضائع کرتے ہیں، ان کا کیا کیا جائے ؟ اور ان کے سربراہوں کا؟ اور بھی بہت سے سوال ہیں،جواب جن کے شاید ہی مل سکیں۔
وہ جو ایک شخص تھا، پانچ چھ گھنٹے تک تماشا اس نے لگائے رکھا۔دور دراز کا کوئی علاقہ ہوتاتوکئی سوال شاید پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ وہاں نفری کم ہوتی ہے، اچھے نشانہ باز کہاں ہوتے ہیں۔ پولیس بھی بس خانہ پری کے لئے ہوتی ہے۔ وہاں اگر کوئی مداری تماشا لگائے، شہر کو یا علاقے کو مفلوج کردے توحالات پر قابو پانے میں کچھ دیر لگ سکتی ہے۔ اس تاخیر پر سرزنش ہونی توچاہئے مگر رویہ کچھ نرم رکھا جا سکتا ہے۔مگر اور ایک محاورہ ہے کہ یہ بہت بڑامگر ہے، یہ سب کچھ تومملکتِ پاکستان کے دارالحکومت میں ہوا۔ سنا ہے اور کہا یہی جاتا ہے بار بار کہ اسلام آباد میں سیکورٹی کے انتظامات بہت سخت ہیں۔ جگہ جگہ پولیس پوسٹیں قائم ہیں، چیکنگ ہوتی ہے اور پتہ نہیں کون کون سے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں اس شہر کو محفوظ رکھنے پر مامور ہیں۔ ان اداروں سے کون پوچھے کہ آپ کرتے کیا ہیں؟ آپ کا فائدہ کیا ہے؟ آپ کی ذمہ داری کیا ہے؟ اگر اس شہر اور ملک کی حفاظت آپ کے فرائض میں شامل ہے،ہونی تو چاہئے تو اکثر آپ نے ناقابل ِرشک نتائج ہی فراہم کئے ہیں اور خفیہ ایجنسیوں کی نظر تو زیادہ تر اپنے ہی شہریوں پر رہتی ہے۔ ان کے فون ٹیپ کرنا، کہاں آ رہے ہیں؟ کہاں جا رہے ہیں؟ ان سرگرمیوں میں ہی ان کا زیادہ کیا، تقریباً سارا ہی وقت لگ جاتا ہے۔ سو ان سے کیا پوچھیں کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کی اطلاع آپ کو کیوں نہیں مل پاتی؟ اور اگر مل جاتی ہے تو اسے روک کیوں نہیں پاتے؟
اب اسلام آباد میں ایک آدمی گاڑی میں اسلحہ رکھ کر گھومتا پھرتا ہے،ریڈ زون میں داخل ہوتا ہے اور وہاں گولیاں چلا کرلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ آپ کوتو بہت بعد میں پتہ چلا کہ کچھ ہو رہا ہے۔ ٹی وی نے بتایا کہ ایک شخص گولیاں چلا رہا ہے پھر کہیں ہل جل ہوئی۔ اگر کہا جاسکے کہ کسی کے کان پر جوں رینگی۔ ہوا تو مگرکچھ بھی نہیں۔ پانچ چھ گھنٹے تماشا لگا رہا۔ سارا ملک ، ساری دنیا دیکھتی رہی۔ ایک اتفاق نہ ہوتا تو پتہ نہیں مزیدکتنے گھنٹے یہ ناٹک جاری رہتا، آپ تو کچھ کرتے نظر نہیں آرہے تھے۔
کرنا کیا تھا؟ ایک مسلح شخص کو قابو کرنا تھا۔ یہ کتنا مشکل کام ہے، اس دن آپ کی کارکردگی سے اندازہ ہوا۔ خدانخواستہ ایک سے زیادہ ہوتے،عزائم بھی وہ مذموم رکھتے ،ارادے بھی خراب۔ تو کیا ہوتا؟ مطلب یہ کہ تب آپ کیا کرتے؟ کچھ اس سے زیادہ خراب نتائج آپ نے فراہم کئے ہوتے۔جو لوگ ایک شخص پر قابو نہ پا سکیں، ان سے توقعات باندھنا کہ کسی بڑی آفت میں وہ کچھ کر سکیں گے، عقل و دانش اس کی اجازت نہیں دیتی۔ جس وقت یہ ڈرامہ جاری تھا،چند دن پرانا ”جنگ “ اتفاق سے سامنے آگیا۔ پراگ میں ایک جنگلی سور شہر میں آگیا اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔ سور اور وہ بھی جنگلی ہو تو اسے قابو کرنا کیا مشکل ہے، چند گولیاں اس کے لئے کافی ہیں۔ مگر اخبار میں لکھا تھا کہ اسے بے ہوش کرنے والی گن سے قابو کیا گیا۔ یہ گن ہر چڑیا گھر میں ہوتی ہے۔ اگر شیر پنجرے سے باہر نکل جائے تو اسے گولی تو نہیں ماری جا سکتی۔ اس گن سے اسے بے ہوش کر دیتے ہیں۔ پراگ میں یہی کیا گیا اور بر سبیلِ تذکرہ،یہ اُس دن کا واقعہ ہے جب کراچی میں رینجرز نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا کیونکہ بقول ان کے، وہ چیک پوسٹ پر رُ کا نہیں تھا۔ تو کیا آپ کے پاس ایسی کوئی گن نہیں ہے؟ جو لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، اُس عورت کا آنا جانا، پولیس افسر کا اس سے بات کرنا اور بچوں کی اُچھل کود، ان میں سے کئی یہ مشورہ دینا چاہتے تھے کہ جانوروں کو بے ہوش کرنے والی گن استعمال کریں، معاملہ نمٹائیں۔ مگر وہ جو امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں،ایسا کچھ کرتے نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اسٹن گن زنگ آلود تھی اورایک کی رینج چھ، سات فٹ تھی اور بس۔ آپ کے اسلحہ خانے میں بس یہی کچھ تھا؟ کیا یہی کچھ ہونا چاہئے؟ اور یہ بھی کہ گن تو تھی چلانے والا کوئی نہیں تھا،کمال ہے۔ تو وہ جو اربوں روپے پولیس پر اور دوسرے اداروں پرہر سال ہمارے خرچ ہوتے ہیں، وہ کہاں جاتے ہیں؟ ان کا مصرف افسران کے لئے پرتعیش کاروں کی خریداری ہے اور بس؟ ان افسران کی بیگمات اور بچے بھی آپ کے اور میرے پیسے سے خریدے گئے پیٹرول پر ان گاڑیوں میں شاپنگ کرتے ہیں۔
اور وہ تماشا بھی دنیا نے دیکھا اور محظو ظ ہوئی کہ زمرد خان کی جرأت یا حماقت کے بعد جب اس شخص کو بالآخر گولی ماری گئی اور وہ گر گیا تو آپ نے دیکھا، بہت سے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے، اسے مارنے کوٹنے لگے۔ اب کیا اس کی ضرورت تھی؟ بالکل نہیں۔ یہ کیسا رویہ ہے؟ کبھی سوچنا تو چاہئے۔ اب تو وہ قانون کی گرفت میں تھا، اس سے قانون کے مطابق نمٹنا چاہئے مگر آپ اسے مار پیٹ رہے ہیں۔ ذرا پہلے یہ ”کارنامہ“ انجام دیا ہوتا، اگر اتنے ہی بہادر تھے تو۔ اُس وقت تو آپ سے کچھ نہ بن پڑا۔ نیچے سے اوپر تک، سب نے اپنی نااہلی کا ثبوت،کھلا ثبوت فراہم کردیا،روز روشن میں۔ وہ جو اوپر بیٹھے ہیں انہوں نے وہ کچھ بھی نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا، مشورہ، ہدایت، نگرانی کچھ بھی نہیں۔ ان نااہلوں، غیر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، اس پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو مگر کون کرے؟ بالآخر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور اعلیٰ عدالت کے جج نے بھی پوچھاکہ اسٹین اور ڈوپ گن کیوں استعمال نہ کی جا سکی؟جج صاحب کو توپتہ ہے کہ ایسے موقع پر کیا کرنا ہوتا ہے۔جنہیں کرنا چاہئے انہوں نے نہیں کیا کہ وہ گنیں زنگ آلود تھیں،ان کی دیکھ بھال کبھی کی ہی نہیں گئی۔ یہ ایک ایسے شہر کا قصہ ہے جو بہت ’محفوظ‘ بتایا جاتا ہے، جہاں تمام اعلیٰ حکام رہتے ہیں، جو دارالحکومت ہے۔ یہ وقت کئی مرتبہ آچکا ہے اس ساری صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور ان تمام خامیوں کو دور کیا جائے جو کسی وقت، خدانخواستہ، کسی بڑی مشکل کا باعث بن جائیں۔ ہمارے اسلحہ خانے میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ دیکھ لیں ان میں سے کیا کیا زنگ آلود ہو چکا ہے؟ ابھی ٹھیک کر لیں۔ لڑائی کے بعد یاد آنے والے مُکّے کا تو آپ کو پتہ ہی ہے، ایک ہی استعمال ہے۔
تازہ ترین