• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1957ء میں ایک پاکستانی فلم عشق لیلیٰ کے نام سے بنی تھی۔ یہ فلم بلیک اینڈ وائٹ تھی ۔ اس فلم میں اقبال بانو نے خوبصورت نغمہ اپنی خوبصورت آواز میں گایا تھا۔ یہ اپنے دور کی بڑی حسیں فلمسٹار صبیحہ خانم پر فلمایا گیاتھا۔ آج صبیحہ خانم امریکہ میں اپنے بیٹے اور بہو کے پاس زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں۔ جس طرح پاکستان کے 19 کروڑ 98 لاکھ لوگ زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔ اور جس میں سے7کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ صرف 2 لاکھ افرادموجیں مار رہے ہیں۔ اور یہ 2 لاکھ حاکم، سیاست دان، بیوروکریسی، فوج ، پولیس کے اعلیٰ افسر اور وڈیرے ہیں۔ آئندہ چند برسوں میں ان 2 لاکھ افراد کی تعداد میں چند ہزار کا اضافہ اور غریبوں کی تعداد میں کئی کروڑ کا اضافہ ہو چکا ہوگا۔ ہاں تو دوستوں بات ہورہی تھی گانے کے بول کچھ یوں تھے
پریشان رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوت مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا غم اگر لوٹے گئے راہ محبت میں ہم
یہ بازی ہم نے ہاری ہے، ستاروں تم تو سو جاؤ
تھوڑی سی ترمیم اور قتیل شفائی کی روح سے انتہائی معذرت کے ساتھ۔
پریشان عوام ساری ہے، ستاروں تم تو سو جاؤ
ملک میں سکوت مرگ طاری ہے، ستاروں تم تو سو جاؤ
تمہیں کیا غم اگر لوٹے گئے راہِ الیکشن میں ہم
یہ بازی عوام نے ہاری ہے ستاروں تم تو سو جاؤ
عوام کو اب عمر بھر پُو پھٹے تک جاگنا ہوگا
ہماری قسمت میں لوڈشیڈنگ طاری ہے
جس زمانے میں قتیل شفائی نے یہ نغمہ لکھا تھا اس زمانے میں یقینا لوگ لوڈشیڈنگ نامی کسی بلا سے واقف نہیں تھے۔ اگر آج قتیل شفائی زندہ ہوتے تو کبھی ستاروں کو سو جانے کا مشورہ نہ دیتے۔اب تو بے چارے غریب لوگ ستاروں کی روشنی ہی میں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر رات کو گپ شپ کرکے رات بسر کرلیتے ہیں ۔ ہر الیکشن کے بعد جیتنے والوں کے ستارے تو چمک اٹھتے ہیں اور ہارنے والوں کے ستارے ڈوب جاتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آج کی اپوزیشن کل تک حکمران تھی۔ اور آج کی حکمران جماعت، کل تک اپوزیشن میں تھی۔ البتہ کرپشن کے ستارے سدا عروج پر رہتے ہیں۔ ستارے تو بے چارے عوام کے ہر وقت گردش میں رہتے ہیں آپ ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح سیاست میں داخل ہو جائیں۔ پھر دیکھیں غربت کے ستارے کس طرح آپ سے دور بھاگنا شروع کردیں گے اتنا تیزی سے سپرے کرنے سے ڈینگی مچھر نہیں بھاگتا جس قدر تیزی سے سیاست میں آنے کے بعد غربت آپ سے بھاگ جائے گی سیاست کے علاوہ آپ بیوروکریسی میں آ جائیں۔ تو یہ عمل اور بھی تیز ہو جائے گا۔ دہشت گردی کے جن نے پورے ملک میں سکوت مرگ والی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے، ہر شخص خوف زدہ ہے۔ پاکستان کی 67 برس کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو سب سے کم کرپشن ایوب خان کے دور میں ہوئی۔ سب سے زیادہ صنعتی اور زرعی ترقی ایوب خان کے دور میں ہوئی۔ کئی پانچ سالہ منصوبے شروع ہوئے۔ اس بے چارے کو چینی کی معمولی مہنگائی لے ڈوبی۔ آج مہنگائی اور کرپشن عروج پر ہے اور تو اور خادم اعلیٰ پنجاب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرضی کیمپ برائے سیلاب متاثرین کا ڈرامہ رچایا گیا۔ پتہ نہیں اس فرضی کیمپ کو لگانے والوں کا میاں شہباز شریف نے کیا حشر کیا؟۔ آپ نے جیو پر یہ خبریں ضرور دیکھی ہوں گی۔ اسی طرح گھوٹکی میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی ماموں بنا دیا گیا۔ سیلاب زدگان کی امداد کے لئے فرضی کیمپ لگایا جو نہی وزیر اعظم وہاں سے گئے تمام کیمپ غائب ہوگیا۔ یہ ٹوپی ڈرامے آخر کب تک چلیں گے؟ اور یہ ٹوپی ڈرامے کون کرا رہا ہے۔؟آج کوئی سول سوسائٹی اور عوام مہنگائی اور کرپشن کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہی، کوئی جلوس، جلسہ نہیں ہو رہا، کس طرح نادیدہ قوتوں نے ایوب خان کی معمولی غلطیوں پر ان کا تختہ الٹ دیا تھا۔ وہی نادیدہ قوتوں نے اس خوبصورت ملک کا بیڑہ غرق کیا۔ اگر واقعی ایوب خاں کو مزید دس سال مل جاتے تو نہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا اور نہ اس ملک میں اس طرح کی کرپشن، مہنگائی، دہشت گردی اور ہر محکمے میں رشوت عام ہوتی۔ ہماری بات سے اختلافات کرنے والوں کو پورا حق حاصل ہے۔ ہمارے عوام بھی بڑے کمال کے ہیں۔ پہلے انتخابات میں جیتنے کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے ہیں ، ہوائی فائرنگ کرتے ہیں۔ پھر سیاست دانوں کے جانے کی دعائیں کرتے ہیں اور جب فوج آتی ہے تو پھر یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ جب سے بڑے میاں صاحب اقتدار میں آئے ہیں چہرے سے رونق ختم ہوگئی ہے۔ الیکشن سے قبل ان کے چہرے پر لالیاں اور بڑی رونق اور ہشاش بشاش نظر آتے تھے مگر اب وہ بات نہیں ۔ لگتا ہے کہ کسی نادیدہ قوت کے زیر اثر ہیں۔ قوم سے خطاب تو کیا مگر لوگوں کو امید یں نہ دلاسکے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ ”مذاکرات یا طاقت کا استعمال، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہوں۔“ ارے بھائی صاحب آپ صاحب اقتدار ہیں۔ آپ تو اب کر گزرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ چاہتا تو وہ شخص ہوتا ہے جو اقتدار میں نہ ہو۔ اور پھر آپ کا یہ کہنا کہ ”گوادر کو ہانگ کانگ کی طرز پر فری پورٹ بنایا جاسکتا ہے۔“ یہ بھی بڑا عجیب بیان لگتا ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہم گوادر کو فری پورٹ کا درجہ دے چکے ہیں اور آئیں لوگ یہاں اپنا کاروبار کریں۔ کبھی کبھی ہمیں شیخ رشید کی باتوں میں بالکل صداقت نظر آتی ہے کہ آئندہ چار ماہ میں عوام کو پتہ چل جائے گا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس سے پولیس کی تربیت، ان کے پاس اسلحہ اور دیگر تمام سہولتوں کی قلعی کھل چکی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے صحیح کہا کہ ہر ہفتے سو لاشوں کا تحفہ دیا جا رہا ہے۔ کبھی سمجھ دار لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کا اس وقت ساتھ دے دیتے تو آج یقینا حالات کچھ اور ہوتے۔ میاں صاحب اب تو کھل کر ان لوگوں کو ختم کر دیں جو ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ آج کل اپنے صوبے میں ڈینگی کو پھیلنے سے روکنے پر بڑا زور دیا جارہا ہے۔ ہمیں مرید کے، کے ایک سرکاری سکول کی سربراہ نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ آخر حکومت ہم سے کیا چاہتی ہے الیکشن ڈیوٹی، مردم شماری اور اب ڈینگی کے خاتمے کے لئے بھی تمام امور اساتذہ ادا کر رہے ہیں۔“ پھر حکومت کہتی ہے کہ رزلٹ اچھے نہیں آتے۔ ہمیں یادہے کسی ایک حکومت کے زمانے میں جب ملک میں آٹے کی شدید قلت ہوگئی تھی تو سکولوں کے اساتذہ کو آٹے کی تقسیم کام بھی دیا گیا تھا۔ یعنی حکومت اپنے تمام فالتو کام اساتذہ سے کراتی ہے۔ جب حکومت خود استاد کو عزت نہیں دے گی تو معاشرہ بھلا کیا عزت دے گا؟ بعض معزز ایم پی اے اور ایم این اے تو اپنے گاؤں کے ماسٹر کو اوئے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب الیکشن ڈیوٹی، ڈینگی ڈیوٹی اور مردم شماری ڈیوٹی ان رشوت خور محکموں کے ملازمین سے کرائیں، ہمارے خیال میں ہسپتال کے گائنی وارڈ کے باہر بھی ماسٹروں کو بٹھا دیں تاکہ بروقت مردم شماری ہوسکے۔ رشوت خور محکموں کے ملازمین سارا سال فائلیں میزوں پر رکھ کر یہ کہتے ہیں ۔
کوئی آئے کوئی آئے
اور کچھ دے کر جائے
حکومت کو چاہیے کہ اب پانی کی نکاسی کا کام بھی سکولوں کے اساتذہ سے ہی کرائیں۔ پنجاب میں 63 ہزار سکولز لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ ہیں۔ واسا اور دیگر شہروں کے ادارے پانی کی نکاسی کا کام تو نہیں کر رہے ۔اب تو بے چارے تھانیدار بھی پانی تھانوں سے نکالتے نظر آئیں گے۔ حال ہی میں نولکھا کے تھانیدار کو قائم مقام سی سی پی او رائے طاہر نے تھانے میں گندگی اور گندا پانی کھڑا ہونے پر معطل کردیا۔ کیونکہ تھانے میں ڈینگی کے لاروے موجود تھے۔ ارے بھائی جو گندگی تھانیداروں کے ذہن میں ہے ۔ رشوت حاصل کرنے کے لئے وہ جو کچھ کیسوں میں گند ڈالتے ہیں اور پورے ملک میں جو کرپشن کا ڈینگی پھیلا ہوا ہے اس پر کس کو معطل کریں گے؟
واقعی لاہور زندہ دلان کا شہر ہے۔ ایک طرف لوگ دہشت گردی سے مر رہے ہیں دوسری طرف شہر میں ڈانس پارٹیاں اور ایسی ایسی شادیاں ہو رہی ہیں جن میں بھارت سے گلو کار بلائے جا رہے ہیں۔ ایک ایک شادی پر چار چار، پانچ پانچ کروڑر وپے خرچ ہو رہے ہیں۔ ایسا زندہ دلوں کا شہر کس نے دیکھا ہوگا۔
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
فارم ہاؤسوں کی رونقیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ غریب دیہاتی علاقوں میں بڑے بڑے فارم ہاؤس بنانے والوں نے سوچا کہ وہ یہاں جو کچھ کرتے ہیں ارد گرد کے لوگ کیا کہتے ہیں۔ ان کے جذبات اور احساسات کیا ہیں؟ واقعی زندہ دلی ہو تو ایسی ہو۔ آخر میں یہ کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ ”وہ پورے ملک کے لوگوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتے ہیں۔“ اس پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
تازہ ترین