• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیابھر میں گزشتہ دو سال سے جاری کورونا کی وباکے باعث جہاں ہر ملک کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ تاہم، پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی دور اندیش پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف کورونا سے زیادہ نقصان نہیں ہوا بلکہ برآمدات اور روزگار کی فراہمی کے تناظر میں سب سے بڑے کاروباری شعبے ٹیکسٹائل انڈسٹری نے سال گزشتہ کے دوران حکومتی تعاون سے برآمدات میں اضافے کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ گیس بحران کے باوجود حکومت نے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس کی فراہمی ممکن بنائی ہے بلکہ اس میں مزید اضافے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ علاوہ ازیں، وزارت تجارت کی طرف سے’’ڈی ایل ٹی ایل‘‘ کی مد میں چار ارب روپے کے ریفنڈز جاری کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 2.6 ارب روپے ٹیکسٹائل سیکٹر کو جبکہ 1.3 ارب روپےنان ٹیکسٹائل سیکٹر کو ادا کئے گئے جس سے نہ صرف صنعتی اداروں کو درپیش سرمائے کی قلت میں کمی آئی ہے بلکہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں مزید سرمایہ کاری کا راستہ بھی ہموار ہوا ہے۔ اسی طرح مشینری کی درآمد کے لئے کم شرح سود پر قرضوں کی فراہمی بھی ایک اچھا اقدام ہے اور اس سہولت کے تحت تقریباً 200 ارب روپے سے زیادہ مالیت کی ٹیکسٹائل مشینری درآمد کی جا چکی ہے جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنی استعدادِ کار بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس حکومتی اقدامات اور لاہور ہائیکورٹ کے تاریخی فیصلے سے سینکڑوں بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ سال گزشتہ کے اختتام پر برآمدات کے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران برآمدات میں مجموعی طور پر 25 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے برآمدات کا مجموعی حجم 12 ارب ڈالر سے بڑھ کر 15 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کا ہے جو تقریباً 27 فیصد ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبہ میں سب سے زیادہ اضافہ یارن کی برآمد میں ہوا۔برآمدات میں اضافے کے اس تسلسل کو برقرار رکھنے اور قومی معیشت کی پائیدار بنیادوں پر ترقی کے لیے ٹیکسٹائل پالیسی کا اس کی اصل حالت میں نفاذ ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ویلیو ایڈیشن کرنے والی پروسیسنگ انڈسٹری اور گارمنٹس مینوفیکچرز پر بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہئے اور ایسے اداروں کو الگ سے خصوصی پیکیج یا مراعات دی جائیں جو اپنے طور پر ریسرچ و ڈویلپمنٹ کرکے عالمی معیار کے مطابق نئی مصنوعات تیار کر رہے ہیں کیونکہ ویلیو ایڈیشن کرکے پانچ ڈالر والی پروڈکٹ کے 20 یا 30 ڈالر بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ حکومت نے ٹیکنیکل ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر کچھ ریبیٹ دیا ہے لیکن اسے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مزید بڑھانے اور اس کے بارے میں انڈسٹری کو مزید آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے حکومت تحقیق بھی کروا سکتی ہے کہ دنیا کے کس کس ملک میں کس طرح کی ٹیکنیکل ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کی جا سکتی ہیں۔اسی طرح برآمدات کی ترسیلات کی واپسی کیلئے 180 دنوں کی مدت کو بحال رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ یورپ کے بیشتر ملک 180 دن کی ایل سی کھولتے ہیں اور اس مدت کو کم کرنے کی صورت میں ان ملکوں کیلئے ہماری برآمدات متاثر ہوں گی۔

علاوہ ازیں،حکومت کو چاہئے کہ مقامی منڈی کی ضروریات کو پورا کرنےکے لیے یارن کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ ویلیو ایڈیشن کے ذریعے برآمدات کی مالیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے۔ یارن کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے پاور لومز انڈسٹری تو شدید بحران کی وجہ سے جزوی طور پر بند ہو چکی ہے۔ اس کی بحالی کے لئے بھی فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والی زیادہ تر اسیسریز ہم اب بھی چین یا دیگر ممالک سے درآمد کر رہے ہیں تو ان کی مقامی سطح پر تیاری کے لئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس باب میں وزیر اعظم عمران خان کے اس وژن پر عملدرآمد کی رفتار تیز کرنے کی ضرورت ہے کہ ایکسپورٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک میں ایسی مصنوعات کی تیاری پر بھی توجہ دی جائے جو پاکستان بیرون ملک سے درآمد کرتا ہے اس طرح نہ صرف ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی میں بھی اضافہ ہو گا۔

ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافے کے موجودہ رجحان کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پائیدار اور جائز ٹیرف دیا جائے۔ آج سے دو دہائی قبل بھی پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ترقی کی جانب رواں دواں تھی اور امریکہ و یورپی یونین کی جانب سے ملنے والی مراعات کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی نمو جاری تھی۔ اس وقت حکومت نے انڈسٹری کی انرجی کے حوالے سے ضروریات کو ہنگامی بنیادوں پر پورا کرنے کے لئے گیس سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کی وجہ سے انڈسٹری کے بڑے حصے نے اپنے جنریٹرز لگا کر گیس سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی تھی لیکن بعد میں جب ملک میں گیس کا بحران پیدا ہوا تو انڈسٹری کو یک دم گیس کی فراہمی رو ک دی گئی جس سے تقریبا 20 سے 30 دن تک انڈسٹری بند رہی۔ اس فیصلے سے بڑے بڑے صنعتی یونٹس یک دم خسارے میں چلے گئے تھے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے کامرس وٹیکسٹائل عبدالرزاق دائود نے کیپٹو یونٹس کو گیس کی فراہمی بحال کروا کے بروقت مثبت اقدام کیا ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں تاریخی اضافے کے باوجود ہماری درآمدات اب بھی انتہائی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو مالیاتی دبائو کا سامنا ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے چین، انڈیا اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے موازنے کے لئے کسی انٹرنیشنل ادارے سے تحقیق کروائے تاکہ جن پہلوؤں میں پاکستان ان ممالک سے پیچھے ہے،ان کی نشاندہی ہو سکے اور ان میں بہتری کیلئے حکمتِ عملی تشکیل دی جا سکے۔

تازہ ترین