• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں امریکہ نے اپنے بدنام زمانہ U2 جاسوس طیاروں اور ان کی پروازوں سے متعلق خفیہ دستاویزات امریکی قانون کے تحت ایک خاص عرصہ گزرجانے کے بعد پبلک کیلئے عام کردی ہیں۔ اس طرح یکم مئی 1960ء کو پشاور کے فضائی اڈے بڈابیر سے امریکی سی آئی اے کے جاسوسی مشن پر سوویت یونین روانہ ہونے والے امریکیU2 جاسوس طیارے اور اسے روسی علاقے میں مارگرائے جانے کا واقعہ ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے جبکہ ان دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق امریکہ نے U2 جاسوس طیاروں کا پروگرام 1956ء میں شروع کیا جس کا مقصد سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں اور میزائل تنصیبات کا کھوج لگانا تھا۔ اُس وقت کوئی بھی جنگی جہاز46 ہزار فٹ سے زائد پرواز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا اور سوویت یونین کا طیارہ شکن نظام بھی صرف اس بلندی تک پرواز کرنے والے ہی جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بالآخر امریکی سائنسدان74 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والا ایسا طیارہ بنانے میں کامیاب ہوگئے جو سوویت یونین کے ریڈار اسکرین اور طیارہ شکن نظام کی پہنچ سے باہر تھا۔ اس طیارے کو امریکہ نے U2 کا نام دیا۔ گوکہ ان طیاروں پر کوئی ہتھیار نصب نہ تھے مگر یہ طیارے پاورفل کیمروں اور جاسوسی کے نظام سے لیس تھے جو دشمن کی جوہری تنصیبات کی واضح تصاویر اتار سکتے تھے۔ جب ان طیاروں کے ٹرائل مکمل ہوئے اور سی آئی اے اہلکاروں نے پہلی بار روسی سرزمین پر مختلف اہم نقوش کی تصاویر دیکھیں تو وہ دنگ رہ گئے جس کے بعد امریکہ نے سوویت یونین اور چین کے خلاف جاسوسی کے مشن کو جاری رکھنے کیلئے اپنے زیر استعمال اور U2 طیاروں کی پروازوں کیلئے موزوں ترین پشاور کے بڈابیر فضائی اڈے کا انتخاب کیا مگر رن وے پر کام جاری رہنے کے سبب U2طیاروں کی پروازوں کو عارضی طور پر لاہور سے شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جس کیلئے C-124 کارگو طیارے میں چار U2 جاسوس طیاروں، 8 پائلٹ و عملے کے دیگر ارکان کو لاہور لایا گیا۔ اس طرح 4 اگست 1957ء کو لاہور سے U2 طیاروں کا جاسوسی مشن شروع ہوا جس میں سوویت یونین اور چین پر ان طیاروں کی پروازیں شامل تھیں۔ اس مشن کا نام ”سوفٹ ٹچ“ رکھا گیا۔ 23 روز تک جاری رہنے والے اس مشن کے دوران جاسوس طیاروں نے9 پروازیں کیں جن میں سے7 سوویت یونین اور 2 چین پر تھیں جو بہت کامیاب رہیں اور ان کے ذریعے امریکہ کو ان ممالک میں قائم کی گئی متعدد نئی میزائل سائٹس کا علم ہوا۔
یکم مئی1960ء کو ایک U2 طیارے نے پشاور کے بڈابیر ایئر بیس سے پرواز کی لیکن جب یہ جاسوس طیارہ سوویت یونین کی سرزمین پر 60 ہزار فٹ کی بلندی سے تصاویر اتار رہا تھا تو زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایک روسی میزائل نے اسے نشانہ بناڈالا۔ طیارے کا پائلٹ گرے پاور (Gary Powers) پیراشوٹ کے ذریعے کود کر اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا جسے گرفتار کرکے 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اس واقعے کے بعد سوویت یونین کے صدر خروشیف نے بین الاقوامی میڈیا کے سامنے تمام ثبوت پیش کئے اور پاکستان کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے دھمکی دی کہ ”ہم نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے اور ہم اس شہر کو نیست و نابود کر دیں گے جہاں سے یہ طیارہ پرواز کرکے ہماری حدود میں داخل ہوا“۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر وابستہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان کیخلاف دل کھول کر منفی پروپیگنڈے کی مہم چلائی۔ بھارت کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اس کے اتحادی سوویت یونین کو نقصان پہنچانے کی بالواسطہ کوشش کی ہے جس کا اسے بھرپور سبق سکھانا چاہئے۔پاکستان میں صدر ایوب خان کی فوجی حکومت نے لاکھ تاویلیں پیش کیں مگر چونکہ ہمارا موقف کمزور تھا اور طیارے نے ہماری سرزمین سے ہی پرواز کی تھی، اس لئے دنیا بھر میں ہمیں بدنامی اور رسوائی سے دوچار ہونا پڑا اور آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ روس نے بھارت کے ساتھ مل کر مملکت خداداد کے ٹکڑے کردیئے۔ واضح ہو کہ1971ء کی جنگ میں روس نے اپنی ایٹمی گن بوٹس کے ذریعے مشرقی پاکستان کی سرحدوں کی بحری ناکہ بندی کرکے بھارت کی بھرپور مدد کی تھی۔ حالیہ امریکی خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے قبل دنیا یہ سمجھتی رہی کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جس نے اپنی سرزمین U2 طیاروں کی جاسوس پروازوں کیلئے امریکہ کو دی تھی مگر نصف صدی گزرنے کے بعد اب یہ حقیقت پہلی بار دنیا پر آشکار ہوئی ہے کہ 60ء کے عشرے میں U2 جاسوس طیاروں کی پروازیں صرف پاکستان کی سرزمین سے ہی نہیں بلکہ بھارتی سرزمین سے بھی کی جاتی رہی ہیں۔ دستاویزات کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران دباؤ میں آکر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے امریکہ سے فوجی مدد کی درخواست کی تھی جسے امریکہ نے بھارت کے ایئر بیس سے U2 طیاروں کی چین کیخلاف جاسوسی کی پروازوں سے مشروط کیا تھا۔ اس طرح بھارتی ریاست اڑیسہ میں عالمی جنگ دوم میں قائم کیا گیا ایئر بیس امریکی سی آئی اے کے زیر استعمال رہا جہاں سے چین کے خلاف U2 طیاروں کی پروازیں کی گئیں۔ آج اس حقیقت سے پردہ اٹھنے کے بعد اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار کہلوانے والا ملک بھارت اور اس کے حکمراں جواہر لال نہرو جو غیر وابستہ ممالک کی تنظیم کے روح رواں مانے جاتے تھے کا چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا ہے۔
ماضی میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے بڈابیر فضائی اڈے کو امریکی سی آئی اے کے حوالے کرنے اور پاکستان سےU2 جاسوس طیاروں کی پروازوں کی اجازت دینے سے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنامی اور خفت اٹھانا پڑی اور نتیجتاً ہمارا مشرقی بازو ہم سے کاٹ کر الگ کردیا گیا لیکن افسوس کہ ایسے کڑے وقت میں ہمارا منافق دوست امریکہ ہمارے کام نہ آیا اور اس کا ساتواں بحری بیڑا ہماری مدد کو نہ پہنچ سکا جبکہ ہم امریکہ کے سینٹو اور سیٹو معاہدے میں شامل تھے اور ہماری مدد کرنا اس کا فرض تھا۔ افسوس کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ نصف صدی گزرنے کے بعد ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امریکہ ناقابل اعتبار ملک ہے، افغان جنگ کے دوران شمسی ایئر بیس امریکی سی آئی اے کے حوالے کردیا جہاں سے پاکستان کے ہی خلاف جاسوس اور ڈرون طیاروں کی پروازیں جاری رہیں تاہم اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں کئے گئے امریکی سیلز کے آپریشن کے بعد شدید عوامی دباؤ میں آکر سویلین حکومت نے شمسی ایئر بیس کو امریکی سی آئی اے سے خالی کرایا جس کے نتیجے میں پاکستان مزید ٹکڑے ہونے سے بچ گیا اور ہمارے جوہری اثاثے محفوظ رہے۔
تازہ ترین