• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہالینڈ کے ایک جریدے نے ملائیشیا کی ایک کمپنی کے حوالے سے لکھا ہے ملائیشیا میں ایک ایسی مشین ایجاد کی گئی ہے جو مسلمانوں کو پانی کے اسراف کے بغیر وضو کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ سبز رنگ سے مزین یہ مشین خودکار (حساس آلات) اور بیسن کی حامل ہے اس طرح پانی کے ضیاع کو روکنے میں مددملے گی۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ1.7 ملین ہے۔ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور انہی علاقوں میں پانی کی قلت ہے۔مشین کے موجد اے اے سی ای (AACE) نے ان مشینوں کی فروخت کیلئے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دولت مند ممالک پر انحصار کیا ہے یہ مشین جس کی قیمت 3 سے 4ہزار ڈالر ہوگی، آئندہ چھ ماہ میں مارکیٹ میں لائی جائے گی۔ لوگوں کو پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے مختلف طریقے اور ایک نئی ترغیب دی جائے گی جو روایتی طریقہ کار کے بجائے ہائی ٹیک طریقے پر مبنی ہوگی۔ کمپنی کے صدر اینھول گومز نے پریس کو بتایا کہ روایتی طریقہ وضو میں بہت سا پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ گومز نے کوالالمپور میں اس مشین کی لانچنگ کے وقت یہ تمام تفصیلات اخبار نویسوں کو بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس آلہ یا مشین میں ریکارڈ شدہ قرآنی آیات کو ایک مخصوص بٹن دبا کر سنا بھی جاسکے گا۔ مشین کی اونچائی لگ بھگ پانچ فٹ ہے اس سے وضو کرنے میں صرف 1.3 لیٹر پانی خرچ ہوگا۔ زمانہ حج کے دوران لگ بھگ 20لاکھ عازمین حج کیلئے روزانہ وضو کیلئے 50ملین لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ اس مشین کے استعمال سے یومیہ صرف 10 ملین لیٹر پانی صرف ہوگا ایسی صورت میں 40 ملین لیٹر پانی کی آسانی سے بچت ہوسکے گی۔ دبئی نے اپنے ایئرپورٹ کیلئے اس مشین کو خریدنے کا آرڈر دیا ہے۔ کمپنی کے صدر گومز نے بتایا کہ اس مشین کی تیاری میں دو سال کا عرصہ لگا تقریباً 50لاکھ ڈالر خرچ آیا لیکن ہمارا تجربہ بے حد کامیاب رہا۔ ملائیشیا کے مسلمانوں نے اس ہائی ٹیک مشین کے تعلق سے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے یہ ایک بہترین ایجاد و اقدام ہے کہ جو عین اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اٹھایا گیا ہے، بعض عناصر دیگر مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس ملک میں پانی ارزاں ہے اس لئے مشین کوئی معقول وجہ نیوز نہیں ہے۔ ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ قدرتی وسائل کے تحفظ میں مشین بے حد مددگار ثابت ہوگی۔ ہمیں انسانیت اور آنے والی نسلوں کیلئے نئی اشیاء ایجاد اور سہولتیں فراہم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے اقدام کرنے ہوں گے اور ان میں ایک بڑا مسئلہ کرہٴ ارض پر صاف شفاف پانی کی کمی بھی ہے۔ادھر اقوام متحدہ نے ایک بے حد اہم وارننگ دی ہے کہ انسان کرہٴ ارض کے وسائل کا بے دریغ اور بے دردی سے استعمال کررہا ہے جس کو فوری طور پر روکا جانا چاہئے ورنہ بڑے پیمانے پر ایک عالمگیر تباہی و بربادی ہمارا انتظار کررہی ہے۔ ”جیسا کہ ہم جانتے ہیں دنیا میں پانی کے ذخیروں کو تباہ کن طریقے سے آلودہ کیا جارہا ہے ، دستیاب پانی فی الحال سالانہ 45 فیصد استعمال ہورہا ہے اور اس میں سے دوتہائی زرعی مقاصد کیلئے زیر استعمال ہے۔ سال 2025ء میں یہ کھپت 70فی صد ہوجائے گی جبکہ 4.5 بلین لوگ جو دنیا کی آبادی کا 45فیصد حصہ ہوں گے وہ ایسے ملکوں کے باشندے ہوں گے جن کی فی کس 50 لیٹر پانی کی بنیادی ضرورت بھی پوری نہ ہوسکے گی۔ آئندہ پچاس برس میں یعنی 2063ء میں دنیا کی آبادی لگ بھگ دس بلین ہوجائے گی۔ چین اور جنوبی ایشیاء (پاکستان ، بھارت ، بنگلہ دیش وغیرہ) میں زیر زمین پانی کی سطح ابھی سے ہر سال ایک میٹر کے لگ بھگ نیچے اترتی جارہی ہے“۔ آج بھی دنیا کے ایک ارب 20 کروڑ افراد کو صاف پانی میسر نہیں ہے اور ترقی پذیر ممالک میں 95فیصد گندا پانی اور 70فیصد صنعتی گندگی دریاؤں ، نہروں ، ندی نالوں اور کھالوں میں بہا دی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس صدی میں پانی تیل کی طرح قیمتی اشیاء میں شامل ہوجائے گا اور اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ فائدہ آسٹریا کو ہوگا کہ یہ ملک آبی وسائل سے مالا مال ہوگا اور وہ سعودی عرب کے تیل کی طرح پانی سے مالا مال ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر تین سیکنڈ میں ایک بچہ پانی کی مناسب سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہو کر مرجاتا ہے اور جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں مغربی ممالک میں آگ اور سورج کو مرکزیت حاصل ہے تو مشرق میں پانی کے مختلف ذرائع مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ کہاوت ہے کہ ”سادہ پانی صرف گھوڑے پیتے ہیں“ چنانچہ پانی کے بجائے مغربی ممالک کے باشندے شراب سے پیاس بجھاتے ہیں لیکن یہی شراب سے تشنگی بجھانے والی قومیں پانی کی اہمیت سے آگاہ ہورہی ہیں اور اب یہ بھی معترف ہیں کہ قدرت کا بہترین مشروب صاف و شفاف پانی ہے کہ پانی زندگی کو پروان چڑھاتا ہے، پانی صحتِ بدن کیلئے لازمی اور ضروری ہے۔دوسری طرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا سب سے اہم مسئلہ پینے کا صاف پانی ہے۔ گندے پانی سے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ (اس کی تازہ اور افسوسناک مثال پاکستان میں ڈینگی مچھر یا بخار کا حملہ ہے) اعداد و شمار کے مطابق پچھلے بیس برسوں میں اندازے سے کہیں زیادہ بیماریوں نے ترقی پذیر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ پانی کو ”زندگی اور جیون“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور بہت سے مقامات اور علاقوں میں اسے ”امرت“ اور ”آب حیات“ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔سائنس دانوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کا طوفان اور پھیلی ہوئی آلودگی کے باعث پانی کیلئے جنگوں کے خطرات بڑھتے جارہے۔ جرمنی کے پروفیسر ولیم ہاگن نے کہا ہے کہ ”ہم تیل پر جنگیں لڑ چکے یہ ہماری زندگی ہی میں لڑی گئیں اس طرح پانی پر بھی جنگیں ممکن ہیں یہ ہماری زندگی ہی میں ہوں یا آئندہ نسل اس کا خمیازہ بھگتے“۔ یہ بات اس رپورٹ میں کہی گئی ہے جو ورلڈ واٹر ویک (www) کے ختم ہونے پر کتابی صورت میں شائع کی گئی ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے متمول ممالک میں لاعلمی اور اطمینان بخش صورتحال نظر آرہی ہے جو اچھی علامت نہیں۔ امریکہ کے پروفیسر نیچرل ریسورسز مچل نے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ناآسودہ علاقوں کو خشک سالی، وبائی امراض اور پانی کے حقوق پر متوقع جنگوں سے کون روکے گا؟ اور اس حقیقت سے کون جھنجھوڑے گا؟ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء (ہم بدنصیب پاک و ہند) ان ممالک میں شامل ہیں جہاں ان جنگوں کا خطرہ ہے۔میں اس سے پہلے بھی کئی بار اپنے کالموں میں اس بات کی نشاندہی کرچکا ہوں کہ پاکستان 2018ء تک ”پانی کی انتہائی قلت“ والا ملک بن جائے گا۔ پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی جو گزشتہ صدی (1951) میں 5650 مکعب میٹر تھی۔ 1999ء میں 1450 مکعب میٹر رہ گئی تھی جبکہ آئندہ چند برسوں میں یہ مزید کم ہو کر ایک ہزار مکعب میٹر کو بھی نہیں چھو پائے گی اور کشور حسین شاد باد میں موجود زیر زمین پانی کی سطح لگ بھگ 50فٹ مزید نیچے چلی جائے گی۔ میرے حساب سے آج ہمارا (پاکستان و بھارت) سب سے اہم مسئلہ پانی کا حصول ہے نہ کہ جدل و جنگ اس لئے ہمیں (پاک و ہند) اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ ہمیں صاف و شفاف پانی میسر آسکے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ پانی ہی ہماری شہ رگ ہے اور پانی ہی بدن کا اٹوٹ انگ ہے۔ کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں سوچ رہا ہوں…؟
تازہ ترین