• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دنوں سے ڈاکٹر شوکت کا یہ خط بری طرح لٹک بھی رہا ہے اور رٹوک بھی۔ اس طویل خط کے چوندے چوندے کچھ حصے خوشی بلکہ فخر کے ساتھ پیش کررہا ہوں کہ بندھے ٹکے، گھسے پٹے انداز میں سوچنے والوں کے ہجوم میں اوریجنل سوچ رکھنے والے بھی موجود ہیں۔ ایسی حقیقت پسندانہ سوچ میں تھوڑا سا ہی اضافہ ہو جائے تو معاشرہ کے فکری خدوخال نکھرنے لگیں گے ورنہ تو ہم وہ لوگ ہیں جو ثواب کمانے مکہ مدینہ اور چھٹیاں منانے یورپ امریکہ جاتے ہیں … بہرحال خط ملاحظہ فرمایئے۔
”آپ کا کالم ”بربادی کی بنیادیں“ تاریخ کا حصہ بنے گا۔ ایسے جاگیردارانہ معاشرہ میں بیماری کی تشخیص ہی اصل جہاد ہے۔ ہمارے اندر بہت سی PRE SUPPOSITIONS کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ مثلاً بے معنی، بے بنیاد، کھوکھلا احساس برتری۔ بچہ بچہ کہتا ہے کہ کیونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے دنیا سے برتر ہیں حالانکہ کوئی نہیں جانتا کہ ”ہم“ سے ہماری مراد کیا ہے، رہ گئی ”مسلمانی“ تو کیا صرف لیبل کافی اور باقی سب کچھ صفر نہیں ہے۔ مغرب چاہے پارسائی، سچائی، ایمان داری میں آخری حد سے بھی آگے ہو ہم کم تولنے، جھوٹ بولنے، ملاوٹ کرنے والوں کیلئے زاندہٴ درگاہ ہے۔ اپنی ہر شناخت اپنی دھرتی سے باہر تلاش کرنے والوں کے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں۔ درہ خیبر کے رستے آنیوالے مہم جوؤں نے یہاں ظلم کے پہاڑ توڑے۔ مال مویشی زر وجواہر کے ساتھ ساتھ عورتوں، بچوں، مردوں کو غلام اور کنیزیں بنا کر لے جاتے رہے اور دیا کیا؟ کچھ محل، قلعے اور مقبرے؟ تاج محل ”عجوبہ“ ہے تو یہاں کا نہری نظام اس سے بڑھ کر ایک ایسا عجوبہ جس سے کروڑوں انسان فیض یاب ہوئے۔ نئے شہر آباد ہوئے، ویرانوں میں فصلیں لہلہانے لگیں۔ ہمارے ہر ”ظل الٰہی“ نے ہمیں ”عالم پناہ“ … ”جان کی امان پاؤں تو عرض کروں“ اور ”حضور کا اقبال بلند ہو“ کے سوا کیا دیا؟ بالکل درست کہ غیر ملکی حملہ آوروں نے مقامی مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ کیا جو گورے نے مقامی کالے مسیحیوں کے ساتھ کیا۔ نتیجہ یہ کہ آج بھی ہمیں اپنے بدنام ناموں کے ساتھ مخدوم لگاتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ ہمارے ضمیر کا خمیر ہی اس سے اٹھا ہے۔ ماضی کو ایمانداری سے آشکار کرنا ہی درست راستہ ہے کیونکہ وہیں سے ہم مستقبل کیلئے راستہ نکال سکتے ہیں۔ ہم خود نمائی خود پسندی کا شکار لوگ آخر اتراتے کس بات پر ہیں؟ دلیل یا منطق کا ہماری زندگیوں میں وجود ہی نہیں۔ بے ایمانی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو کوئی شرمندگی نہیں کیونکہ ہم نے شرم سے پانی پانی ہونا سیکھ لیا ہے اور چلتا پانی پاک ہوتا ہے۔ عربی، ایرانی، تاشقندی مسلمان سائنسدانوں کی دور دراز خواب ناک سربلندی کے طلسم سے آزاد ہو کر اپنی عظمت اپنے اندر ڈھونڈیں اور پیدا کریں۔ اگر آپ خود اپنے ہم وطنوں، ہم مذہبوں کو ”نیچ“ اور ”کمی کمین“ سمجھتے ہیں تو یقین مانیں انہوں نے بھی آپ کو ہمیشہ یہی کچھ سمجھا اور آج بھی ایسا کچھ ہی سمجھتے ہیں۔ خود تجربہ نہیں تو عرب دنیا میں مزدوری کرنے والے کسی غریب پاکستانی مسلمان سے پوچھو کہ انہیں کیسے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ حالت کیا ہے؟ ہم پیسہ پیدا نہیں کررہے بلکہ ملکی وسائل کی بندر بانٹ ہورہی ہے۔ اوقات یہ ہے کہ روڈو سلطان نام کے ایک قصبہ سے بڑے بڑے پٹرول ٹینکرز گذرتے ہیں۔ ایک بار ٹینکر کی ٹینکی مین بازار کے درمیان لیک کر گئی۔ ہزاروں لیٹر پٹرول دھار کی صورت بہنے لگا۔ اس ”دولت“ کو ”لوٹنے کیلئے عوام لوٹے، بالٹیاں اور کنستر، ڈبے، گلاس لے آئے، کچھ موٹر سائیکل بھرنے لگے، کچھ اپنے کپڑے پٹرول میں بھگونے لگے کہ گھر جا نچوڑ لیں گے۔ ٹینکر اور ڈرائیور دور کھڑے التجائیں کرتے رہے کہ آگ سے نہ کھیلو اور پھر وہی ہوا جو ہوناتھا۔ پٹرول نے کہیں سے آگ پکڑ لی تو قیامت آگئی، ساری مارکیٹ، موٹر سائیکل، گاڑیاں بھسم بیسیوں آگ میں جل مرے۔ یہ ہیں ”اصلی سیاسی و معاشی حالات“ جن پر نہ کوئی رائٹر بولتا ہے اور اینکر۔ دوسری طرف وہ ہیں جن کی کاروں کے دروازے ڈرائیور اور گھروں کے گیٹ چوکیدار کھولتے ہیں۔ آبادی میں بڑھوتری کی رفتار 600 بچے فی گھنٹہ یا 12600 بچے فی دن ہے۔ یہ بچے دودھ، بجلی، پانی، دوا، تعلیم، علاج معالجہ، کپڑے مانگیں گے تو کیا انہیں نسیم حجازی کے ناول پڑھاؤ گے؟ اقبال کی شاعری سناؤ گے؟ وعظوں سے ان کے پیٹ بھرو گے؟ جالب کی شاعری سے ان کا علاج کرو گے؟ گلیوں میں رینگتے اور غلیظ نالیوں میں سوئمنگ کرتے ہوئے ان ”شاہینوں“ میں سے صاف ستھرے، نظم و نسق کے عادی، مہذب، ایمان دار، فرض شناس اور محنت شاقہ کرنے والے کہاں سے نکالو گے؟
مریضانہ سوچ کی معراج دیکھئے، قلمی انداز ملاحظہ ہو کہ … ”پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے“ یعنی زمین سے کچھ واسطہ، لینا دینا نہیں یا پہاڑ پر چڑھنا ہے یا سمندر میں گھسنا ہے۔ چین کے وزیراعظم نے اسلام آباد کی سڑکوں پر سجے بڑے بڑے بینرز میں سے ایک کو پسند کیا جس پر لکھا تھا۔
”چین اور پاکستان دو اچھے اور عظیم ہمسایوں کی مانند رہیں۔ (آمین)“
زیرک اور جنیوئین لیڈر نے ایک یہ نظر میں عمدہ ترین بینر ڈھونڈ لیا۔ ”ہم مبالغہ کو بطور آکسیجن استعمال کرتے ہیں، مغالطہ کا مشروب پیتے اور مسخ شدہ تاریخ کھاتے ہیں۔ اسی لیے ہماری ہر خرابی، ناکامی، گندگی اور نالائقی کے ذمہ دار یہود و نصاری ہیں۔ خدا جانے ان کی بجلی کیوں نہیں جاتی؟ ان کی ملیں، کارخانے، فونڈریاں گیس بجلی چوری کیوں نہیں کرتیں؟ ان کے زمیندار پانی چوری کیوں نہیں کرتے؟ ان کی خوراک خالص کیوں ہوتی ہے؟ وہاں جعلی دوائیں کیوں نہیں بنتیں؟ فرقہ ورانہ فسادات کیوں نہیں ہوتے؟ جا بجا گندگی کے ڈھیر کیوں دکھائی نہیں دیتے۔“
قارئین!
ڈاکٹر صاحب کے اس خط کے بعد مبارک ہو کہ کشکول توڑ گروپ نے کنگ سائز کشکول میں بارہ ارب ڈالر قرضہ (مزید) کی خوشخبری سنا دی ہے اور 6 ماہ میں ختم ہونیوالی لوڈشیڈنگ کا 5 سالہ شیڈول تو آہی چکا ہے جو اعتزاز احسن کے اس صوفیانہ بیان کا بھی جواب نہیں کہ …
”پارسا قیادت نے 17 ارب کا ڈاکہ 2 ماہ میں مار ڈالا“
ہور چوپو اور ”چوپتے“ ہی چلے جاؤ کہ پہلے پیپلز پارٹی اور اب ن لیگ جمہوریت مستحکم ہورہی ہے!
تازہ ترین