• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سبحان اللہ! خاکسار نے تو اپنے تئیں انقلاب کی حمد و ثنا بیان کی تھی۔ انقلاب کے علمبردار جانے کس کس کونے کھدرے سے نکل آئے اور ایسی بے بھاؤ کی پڑیں کہ طبیعت ہری ہو گئی۔ لذت آزار کا حریص اسی داستان کا کچھ مزید حصہ بیان کرتا ہے لیکن پہلے ایک شعر سن لیجئے۔ 1927ء میں غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک نے ’زمیندار‘ سے الگ ہو کر ’روزنامہ انقلاب‘ نکالا تو مولانا ظفر علی خان نے لکھا
مہر و سالک کے انقلاب کو دیکھ
انقلابات ہیں زمانے کے
اب سے کوئی سو برس پہلے انقلاب کا ذکر کہیں سے شروع ہوتا، انقلاب فرانس پر آ کر تان ٹوٹتی تھی۔ انقلاب فرانس کو انسانی تاریخ میں اہم سنگ میل سمجھا جاتا تھا۔ 1917ء میں انقلاب روس نے عالمی تاریخ پر ایسے گہرے اثرات مرتب کئے کہ روس اور انقلاب کی اصطلاح لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے۔ اس کے ردعمل میں اہل امریکہ نے یکسر بھلا دیا کہ کوئی ڈیڑھ سو برس تک 1776ء میں امریکہ کے اعلان آزادی کو بھی انقلاب ِامریکہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ جن دنوں برطانیہ عظمیٰ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، انگریز حکومت کے ثنا خواں 1688ء میں برطانیہ کے ’آئینی انقلاب‘ کو صاحبانِ انگلستان کے مہذب ہونے کی قاطع دلیل کے طور پر پیش کیا کرتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ نے گویا سارا نقشہ ہی تلپٹ کر دیا۔ ایک طرف سرمایہ دار دنیا میں انقلاب کا لفظ قریب گالی بن کر رہ گیا، دوسری طرف ایشیاء اور افریقہ کے نوآزاد ممالک میں انقلاب کی ایسی مٹی پلید ہوئی کہ جس وردی پوش رنگروٹ نے حکومت کا تختہ الٹا، اس نے اپنی ٹٹ پونجیا بغاوت کو بقلم خود انقلاب قرار دے دیا۔
نوبت یہاں تک پہنچی کہ 1979ء میں ایران کے ملّاؤں نے بھی انقلاب ہی کے نام پر تہذیب کی بھد اڑائی۔ اگر ایک بادشاہ کو رخصت کرنا انقلاب کی دلیل ٹھہرا تو یہ انقلاب تو 14جولائی 1789ء کو آ چکا تھا جب فرانس کے افتادگان خاک نے باستیل کے قید خانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور پھر چھ روز بعد20 جولائی 1789ء کو فرانس کے عوامی نمائندگان نے ٹینس کورٹ میں اجلاس منعقد کر کے بادشاہ کے ’الوہی حق حکمرانی‘ سے انکار کر دیا تھا۔
امریکی کانگریس نے جارج سوم کے خلاف اس اصول کی بنیاد پر علم بغاوت بلند کیا تھا کہ ’نمائندہ حکومت کے بغیر محصولات ادا نہیں کئے جائیں گے‘۔ برطانوی انقلاب کی بنیاد یہ اصول تھا کہ حکومت اور فیصلہ سازی کے جملہ اختیارات منتخب نمائندوں کے پاس ہوں گے اور بادشاہ کی حیثیت محض دستوری حکمران کی ہو گی۔ 1648ء میں ایک بڑا انقلاب جنگ صد سالہ کے اختتام پر معاہدہ ویسٹ فیلیا کی صورت میں سامنے آیا تھا جس نے مرکزی یورپ میں جدید ریاستی نظام کی بنیاد رکھی یعنی ریاست کے امور میں مذہبی پیشواؤں کو دخل نہیں ہو گا۔ 1917ء میں انقلاب روس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی تھی کہ صرف ان شہریوں کو حکومت کا حق ہے جو اپنی جسمانی یا ذہنی محنت سے اشیاء کی قدر میں اضافہ کرتے ہوئے پیداواری عمل میں شریک ہوں۔
ذرائع پیداوار میں تبدیلی، انسانی علم میں اضافے اور فکر میں پھیلاؤ نیز ان تبدیلیوں کے نتیجے میں نئے رشتوں اور نئی قدروں کے ظہور کا سلسلہ تو انسانی تاریخ میں بہت پیچھے جاتا ہے۔ جب انسان نے بے معنی آوازوں کو منضبط کر کے انہیں معانی دیئے تھے یعنی زبان ایجاد کی تھی، جب خود رو نباتات کو ایک ضابطے میں لا کر زراعت کی بنیاد رکھی گئی تھی یا جب انسان نے پہیہ ایجاد کیا تھا اور آگ جلانا سیکھا تھا، تو ان میں سے ہر موڑ ایک عظیم انقلاب تھا۔ قدیم ادوار میں تبدیلی کی رفتار البتہ اس قدر سست تھی کہ ارتقائی عمل کو احاطہ فکر میں لا کر اس سے نتائج اخذ کرنا مشکل تھا۔ پندرہویں صدی میں نشاة ثانیہ کے بعد جدید معنوں میں انقلاب کا تصور ممکن ہو سکا۔ قدیم علوم کی بازیافت سے نئے خیالات کا دروازہ کھلا، ان خیالات سے علمی تحقیق اور غور و فکر کا وہ نظام مرتب ہوا جسے سائنسی طرزِ فکر کہتے ہیں۔ سائنسی منہاج سے دریافت اور ایجاد کے دریچے سامنے آئے۔ دریافت اور ایجاد نے ذرائع پیداوار میں تبدیلی کے عمل کو ایک منہ زور دھارے کی شکل دی۔ چنانچہ قدیم معاشی و سیاسی ڈھانچوں اور اخلاقی معیارات میں تبدیلی کی ضرورت پیدا ہوئی۔
سیاست، قانون اور معاشرت میں ظہور پذیر ہونے والی ان تبدیلیوں نے دو طرح کے سیاسی خیالات کو جنم دیا۔ جس طبقے کے مفادات موجودہ سیاسی بندوبست اور ذرائع پیداوار سے جڑے ہوئے تھے، وہ پرانے طور طریقے برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ دوسرا طبقہ سیاسی اداروں، معاشی ڈھانچوں اور سماجی اقدار میں تبدیلی کا خواہاں تھا۔ جون 1848ء میں فرانس کے انقلابی ابھار کے دوران اوّل الذکر طبقہ قومی اسمبلی میں اسپیکر کے داہنے ہاتھ بیٹھا اور اسے دایاں بازو کہا گیا ۔ تبدیلی چاہنے والے اسپیکر کے بائیں ہاتھ کی نشستوں پر بیٹھے اور انہیں بائیں بازو کا خطاب ملا۔ سو بائیں بازو کی بنیادی خصوصیت یہ قرار پائی کہ ایسا گروہ جو اقتدار میں نہیں، معاشی اور سماجی اثرو نفوذ سے محروم ہے۔ مقتدر طبقات کی مخالفت کرتا ہے۔ اس گروہ نے اپنے سماج کا مطالعہ کر کے بنیادی تضاد کی نشاندہی کر رکھی ہے نیز یہ کہ اس گروہ نے ہم عصر تضاد کو دور کرنے کے لئے ایک سیاسی لائحہ عمل طے کر رکھا ہے اور سیاسی طاقت مجتمع کر کے اسے عملی جامہ پہنانے کا عزم رکھتا ہے۔ گویا بایاں بازو ماضی کا اسیر رہنے کے بجائے مستقبل کی طرف قدم بڑھانے کا رحجان رکھتا ہے۔
تہذیب، تمدن اور ثقافت کی طرح دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات بھی تاریخی ارتقاء میں کئی تبدیلیوں سے گزری ہیں۔ روسی تجربے کے تناظر میں خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ سوویت یونین میں شولوخوف اور پاسٹر ناک میں سے کون بائیں بازو سے تھا اور کون دائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ بھی دیکھ لیجئے کہ جوزف اسٹالن اور ایم این رائے میں سے کون بائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا۔
خون ریز انقلابات کا عہد نشاة ثانیہ سے شروع ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے ساتھ ختم ہو گیا کیونکہ انسانی معاشرے نے جمہوریت کی صورت میں ایسا اجتماعی طریقہ کار دریافت کر لیاجس میں نظام کو تہہ و بالا کئے بغیر بھی تبدیلی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انقلابات کا عہد انسانی تاریخ میں حریت فکر اور اجتماعی ارتقاء کے تناظر میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے لیکن انقلابات کے تجربات سے اخذ کردہ نتائج کے باعث اب عمومی رجحان یہ ہے کہ انقلاب پر ارتقاء اور ’اکہری تبدیلی‘ پر ”متنوع مفادات کے مابین مکالمے“ کو ترجیح دی جائے۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ انقلابات کے جلو میں تشدد اور جنگ بھی نمودار ہوتے ہیں۔ انقلاب کا اہم ترین منفی پہلو ’نظرئیے کا غلبہ‘ ہے۔ زندگی نظرئیے سے کہیں زیادہ متنوع اور بڑی ہے۔ نظریہ نہ صرف اجتماعی مظاہر کی اکہری اور نامکمل تصویر پیش کرتا ہے بلکہ فکر، فنون، اقدار اور پیداوار میں جمود کا باعث بھی بنتا ہے۔ انقلاب میں عموماً اقتدار پر قبضہ کرنے والا گروہ دیگر طبقات اور گروہوں کو مستقل طور پر اقتدار سے محروم کر دیتا ہے۔ انقلابی نظام میں انجذاب نہ ہونے کے باعث عدم استحکام کا خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے جسے دبانے کے لئے تشدد کی راہ اپنائی جاتی ہے۔ مفروضہ دشمنوں کی سازشیں دریافت کی جاتی ہیں۔ الٹی سیدھی مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ تکثیریت اور مفاہمت سے خالی حکومتیں ناگزیر طور پر عالمی تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ انقلابی نظام کے تحت رہنے والے نہ صرف دوسری اقوام سے سیاسی اور تجارتی تعلقات مخدوش ہونے کے باعث پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ نظریاتی جبر کے باعث داخلی طور پر بھی ارتقاء کا راستہ رک جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر انقلاب اپنے ہی بچے کھا جاتا ہے۔ اس میں یہ اضافہ بھی کرنا چاہئے کہ ہر انقلاب میں بدیہی طور پر آئندہ انقلاب کے بیج موجود ہوتے ہیں۔ دیکھئے منیر نیازی کہاں یاد آئے
منیر مجھ کو اک اور دریا کا سامنا تھا
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
تازہ ترین