• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیجنگ کی سب سے مشہور جگہ ”تیا نامن اسکوائر “ہے ، جیسے پیرس کا شانزے لیزے ، جیسے نیویارک کا ٹائم اسکوائر ، جیسے اپنا مینار پاکستان۔ یکم اکتوبر 1949کو عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان ماوٴ زے تنگ نے اسی تاریخی جگہ کیا تھا۔ اس کے ایک کنارے پر قدیم چین کے شہنشاہوں کے محلات واقع ہیں جنہیں Forbidden City (شہر ممنوعہ )کہا جاتا ہے ، اس نام کی وجہ سے مجھ ایسے بے شمار سیاح دھوکا کھا جاتے ہیں حالانکہ یہ کوئی شہر ہے اور نہ یہاں کچھ ممنوع، پرانے وقتوں میں چین کے بادشاہوں کو اجازت ہوا کرتی تھی کہ وہ تین ہزار بیویاں رکھ سکتے ہیں، شائد اسی لئے یہ وسیع و عریض محلات تعمیر کیے گئے تھے جہاں کسی غیر متعلق شخص کو داخلے کی اجازت نہیں تھی جس وجہ سے اسے شہر ممنوعہ کہا جانے لگا۔اس فقیر کی رائے میں اس جگہ کو دنیا کا بد ترین ٹورسٹ سپاٹ کا لقب دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، وجوہات اس کی بے شمار ہیں جن کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ، اگر آپ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو بیجنگ کا ٹکٹ کٹائیں اور خود آ کر اپنی تسلی کرلیں۔ تیانا من اسکوائر کے دوسرے کنارے پرالبتہ ایک خاصے کی چیز ہے اور وہ ہے چیئر مین ماوٴ کی ”ممی“!
ماوٴ کی باڈی کو یہاں حنوط کر کے رکھا گیا ہے ، پہلی نظر میں یوں لگتا ہے جیسے ماوٴ سو رہا ہو۔اس ممی کا قصہ نہایت دلچسپ ہے۔ ماوٴ کی موت یکدم واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ چار پانچ ماہ تک ہسپتال میں موت سے جنگ لڑتا رہا تھا البتہ عوام سے یہ بات چھپائی گئی تھی کہ ان کا محبوب لیڈر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس دوران جب سرکاری اخبارات ماوٴ کی تصا ویرغیر ملکی عمائدین کے ساتھ چھاپتے تو لوگوں کو اندازہ ہو پاتا کہ ان کے ”دیوتا“ کی صحت بگڑ رہی ہے تاہم ماوٴ کی موت سے صرف ایک دن پہلے تک عوام کی اندھی محبت کا یہ عالم تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں یک زبان ہو کر گاتے رہے ”چیئر مین ماوٴ کے لئے دس ہزار سال!“تاہم ماوٴ کے ڈاکٹروں کو اندازہ تھا کہ چیئرین کی حالت ٹھیک نہیں۔ 9 ستمبر1976کی رات کو ماوٴ نے اپنی سیکریٹری زانگ یوفینگ( جو کسی زمانے میں ماوٴ کی خصوصی ٹرین میں فقط مہماندار ہوا کرتی تھی اور اب اس قدر طاقتور ہو چکی تھی کہ پارٹی کا بڑے سے بڑا عہدے دار بشمول ماوٴ کی چوتھی بیوی جیانگ چنگ کے ، اس کی اجازت کے بغیر ماوٴ سے نہیں مل سکتا تھا)کو کہا کہ اس کے ذاتی معالج ڈاکٹر لی کو بلایا جائے۔ ڈاکٹر کے پہنچنے پر سیکریٹری نے پوچھا ”چیئرمین جاننا چاہتے ہیں کیازندگی کی کچھ امید ہے؟“ ڈاکٹر نے ماوٴ کی نبض تھامی ، بے حد کمزور تھی ، تلاش کرنا قریباً نا ممکن ہو چلا تھاتاہم ڈاکٹر نے کہا ”سب ٹھیک ہے چیئرمین ، ہم آپ کی مدد کریں گے۔“ ایک لمحے کے لئے ماوٴ کی آنکھوں میں اطمینان کی جھلک نظر آئی ، اس نے گہرا سانس لیا لیکن پھر آنکھیں بند ہو گئیں اور ماوٴ کا ہاتھ زندگی سے بے جان ہو کر ڈاکٹر کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ڈاکٹر نے وقت نوٹ کیا ، رات کے بارہ بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔ کروڑوں لوگوں کا ”مسیحا“ با لآخرجان کی بازی ہار گیا تھا۔ماوٴ کی آخری رسومات تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہیں ، اس کے بعد17 ستمبر کو نصف شب کی تاریکی میں ماوٴ کی باڈی کو گریٹ ہال آف دی پیپل میں سے نکال کر ایک منی بس میں ڈالا گیا اوربے حد خفیہ طریقے سے ایک ہسپتال کے آپریشن تھیٹر منتقل کر دیا گیاجہاں بعد ازاں ماوٴ کو ”محفوظ“ کرنے کا عمل شروع کیاگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چند روز بعد اسی جگہ ہو بہو ماوٴ کی شکل کا مومی مجسمہ بھی لایا گیا، 1977میں جب تیا نا من سکوائر کے میموریل ہال کی تعمیر مکمل ہوئی جہاں ماوٴ کی باڈی کو عوامی دیدار کے لیے رکھا جانا تھا ، تب ”دونوں ماوٴز“ کو وہاں منتقل کر دیا ، اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جس ماوٴ کو ڈسپلے پر رکھا گیا ہے وہ اصلی ماوٴ ہے یا اس کی نقل!
اگر آپ آج سے تیس چالیس برس پہلے کے چین میں رہ رہے ہوتے تو ہر چینی کی طرح آپ کا بھی تکیہ کلام ہوتا ”کیا آپ نے کھانا کھا لیا ہے ؟“بالکل ایسے جیسے ہمارے ہاں یار لوگ پوچھتے ہیں ”ہور کی حال اے؟“وجہ اس کی بے حددرد ناک ہے۔ چین کی ہزاروں سال کی تاریخ میں سینکڑوں مواقع ایسے آئے جب لوگ قحط کے ہاتھوں مر گئے ، اس کا چینیوں پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ جب بھی وہ ایک دوسرے سے ملتے تو پوچھتے کہ کیا اس نے کھانا کھا لیا ہے ، مقصد دوسرے کی محض دلجوئی ہوتا کیونکہ اگر کوئی بتا بھی دیتا کہ وہ بھوکا ہے تو پوچھنے والا بیچارہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ آخری مرتبہ خوفناک ترین قحط ماوٴ زے تنگ کے دور میں پڑا جب چیئر مین ماوٴ نے 1958 میں ”گریٹ لیپ فارورڈ“ نامی پروگرام کی بنیاد رکھی۔اس پروگرام کے تحت ماوٴ نے نعرہ لگایا کہ ہم اگلے پندرہ برس میں صنعتی ترقی میں برطانیہ سے آگے نکل جائیں گے۔ کیسے ؟ ماوٴ نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ چین میں بیک وقت زرعی اور صنعتی شعبے میں تیز رفتار ترقی کے ذریعے حیرت انگیز انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ سستی لیبر مہیا کی جائے اور کسی بھی قسم کی مشینری درآمد کرنے سے گریز کیا جائے۔مور اوور کے طور پر ہر قسم کی ذاتی زمین جائیداد پر پابندی لگا دی گئی، کسان زمینوں پر جو کچھ اگاتے اسے حکومت کے گوداموں میں جمع کروا دیتے اور پھر اس پروگرام کے تحت بنائے گئے پیپلز کمیون میں کھانے کے لئے پہنچ جاتے جہاں ہر کسی کو پیٹ بھر کے کھانا مل جاتا۔
شروع شروع میں کھانے کی کوئی کمی نہیں ہوئی تاہم جلد ہی اس پروگرام کی وجہ سے چین بدترین قحط کا شکار ہوگیا،جن کسانوں کی روٹی پہلے ہی مشکل سے پوری ہوتی تھی ان کے گھر کی آخری شے بھی سرکار نے قبضے میں لے کر نام نہاد Back yard Steel Furnacesمیں جھونک دی گئی جس کا مقصد ”سستے “ طریقے سے اسٹیل کی اشیاء تیار کر کے درآمد کرنا تھا، ماوٴ کا خیال تھا کہ مغرب والے پاگل ہیں جو خواہ مخواہ بڑی بڑی اسٹیل فیکٹریاں لگاتے ہیں۔ نتیجہ اس پالیسی کا یہ نکلا کہ لوگوں کے گھروں سے چمچے تک قبضے میں لے کر ان بھٹیوں میں جھونک دئیے گئے تاکہ اسٹیل سے اسٹیل پیدا کیا جا سکے ، جس کا کرنا کیا تھا ، یہ کسی کو نہیں پتہ تھا۔ اس سارے پروگرام کے دوران کسی پارٹی عہدیدار کی ہمت نہیں ہوئی کہ ماوٴ کو حقیقت بتا سکے ، الٹا جب ماوٴ اس پروگرام کی افادیت جانچنے کے لئے چین کے مختلف علاقوں کے دوروں پر نکلا تو اسے نہ صرف زرعی پیداوار کے غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے بلکہ ان تمام علاقوں میں جہاں جہاں سے ماوٴ کا گذر ہوتا عورتوں اور مردوں کو ماوٴ کی گذر گاہ کے قریب رنگ برنگے کپڑے پہنا کر جھومتے گاتے کاشتکاری میں مشغول دکھایا جاتا ، ماوٴ کے وہم و گما ن میں بھی نہ آیا کہ اس کے لوگوں پر کیا قیامت گذر رہی ہے ! ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ تین کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے، لوگوں نے سرکار کے بنائے ہوئے خوراک کے گوداموں کے باہر بھی اپنی جانیں گنوائیں ، مگر انہیں وہاں سے خوراک نہ ملی۔
آج کا چین اب ایک بالکل مختلف ملک ہے ، گو اب بھی یہاں غربت ہے اور بعض علاقوں میں لوگ با قاعدہ غاروں میں رہنے پر مجبور ہیں ، مگر عوامی جمہوریہ چین نے کم از کم ماضی سے سبق ضرور سیکھا ہے اور یہ سبق سکھانے میں ان کے عظیم رہنما ڈینگ زیاوٴ پنگ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، اس کا ذکر پھر سہی!
تازہ ترین