• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی فوج پہلے ہی بہت مصروف ہے، اسے داخلی اور خار جی سطح پر جنگ لڑنا پڑ رہی ہے کہ ایسے میں ایم کیو ایم نے اچانک یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ ”کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے“۔ میں نے اس پر بہت سوچا کہ سیاست دان تو اپنا ایک حلقہ نہیں چھوڑتے ایم کیو ایم نے یہ مطالبہ کیوں کیا ہے، ایم کیو ایم کے تو بہت سے قومی اور صوبائی حلقے کراچی میں ہیں بلکہ پورا کراچی ہی ایم کیو ایم کا ہے۔ ایم کیو ایم ایک لبرل سیاسی جماعت ہے، ایم کیو ایم ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے عملی طور پر متوسط اور غریب طبقے کو اسمبلیوں تک پہنچایا۔ ایم کیو ایم پر دھاندلی، جبر اور پتہ نہیں کون کون سے الزامات لگتے رہے مگر حالیہ ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم نے وہ سارے داغ دھو دیئے۔ اس نے نہ صرف کراچی بلکہ میر پورخاص سے بھی کامیابی حاصل کی۔ اس تازہ ترین کامیابی کے فوراً بعد ایم کیو ایم نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیوں کیا ہے حالانکہ ایم کیو ایم تو شہروں کو فوج کے حوالے کرنے کے خلاف تھی، شہر تو 90 کی دہائی میں بھی فوج کے حوالے ہوا تھا مگر اس وقت ایم کیو ایم نے مخالفت کی تھی تو پھر آج ایم کیو ایم کیوں یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ میرے خیال میں اس کے کئی ایک عوامل ہیں مثلاً کراچی میں بہت سے بھتہ مافیا بن چکے ہیں جن کی طاقت، سیاسی جماعتوں کی طاقت سے زیادہ ہے۔ کراچی شہر میں مختلف شعبوں میں مافیا کا راج ہے جہاں کسی کی مداخلت گوارہ نہیں ہوتی۔ مافیاؤں میں لپٹا ہوا کراچی بے امن اور بے ترتیب ہوچکا ہے، یہاں قتل و غارت گری جاری رہتی ہے، لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے، گھروں کو لوٹنے والوں کو خبر نہیں ہوتی کہ رات گھر میں ہے یا قبر میں؟ بس یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر ایم کیو ایم نے اپنی سیاست، اپنے حلقے قربان کرنے کا ارادہ کیا، کیونکہ اب ایم کیو ایم کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتی ہے۔ امن قائم کرنے کیلئے فوج ضروری ہے، فوج کے بغیر کراچی میں امن قائم بھی نہیں ہو سکتا۔ اس بلاوے کو آئینی فریم بھی حاصل ہے اس کی وضاحتیں ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی ہے۔ خورشید شاہ نے اسے جمہوریت کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ہے۔ سب سے زبردست بیان کراچی کے ”جان جگر“ عابد شیر علی نے داغا ہے کہ ”شہر قائد میں فوج نہیں بلائیں گے“۔ مجھے اس پر ہنسی بھی آ رہی ہے کہ شہر قائد میں کونسی کوئی غیر ملکی فوج نے آنا ہے اور پھر اسی شہر قائد میں فوج، مزار قائد پر اپنے فرائض سرانجام دیتی ہے۔
سیاست دانوں کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے پتہ نہیں اس میں کون سے راز پنہاں ہوتے ہیں مثلاً دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے ہمارے ہزاروں جوان اور شہری شہید ہوچکے ہیں مگر کسی ایک دہشت گرد کو بھی سزا نہیں مل سکی الٹا حکومت گھٹنے ٹیک کر طالبان سے مذاکرات کے چکر میں پڑی ہوئی ہے۔ بھلا دہشت گردوں سے مذاکرات کیسے؟ کس بنیاد پر؟ کیا دہشت گردوں کی حیثیت تسلیم کرلی گئی ہے اور کیا حکو مت ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرے گی۔ اگر دہشت گردوں کے سامنے جھکنا ہی تھا تو پھر اتنے افسر، جوان اور شہری قربان کیوں کئے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ آپ کے آئین اور نظام کو نہیں مانتے، جنہوں نے مادر وطن کو لہو لہو کیا، جو ترقی کرتے ہوئے پاکستان کے مخالف ہیں، جو عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں، جو من پسند اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں ایسے لوگوں سے مذاکرات…؟ شاید نئی حکومت یہ سب کچھ امن کیلئے کرنا چاہتی ہے امن اچھی بات ہے مگر دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دینا تو اچھی بات نہیں۔ امن اچھی بات ہے مگر حکو مت کی رٹ تسلیم کی جائے تو…!
میرے خیال میں جو نسخہ الطاف حسین نے کراچی کیلئے چنا ہے کالعدم طالبان کے ساتھ بھی یہی کرنا پڑے گا بالآخر آپریشن ہی کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر طالبان طاقت کے زور پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جب سے دنیا بنی ہے زور اور زر کی حکومت ہے کبھی زر والا زور خرید لیتا ہے اور کبھی زور والا زر چھین لیتا ہے۔ بس اکابرین کے ذہن میں یہ ضرور رہنا چاہئے کہ جو بھی ہو پاکستان کے آئین کی پاسداری میں ہو، پاکستان ہم سب کیلئے فخر ہے، پاکستان کئی قیمتی جانیں دے کر بنا تھا پاکستان ہی سے ہمارا سب کچھ وابستہ ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کو دشمنوں کی کمی نہیں ہے کچھ دشمن اندر بیٹھے ہوئے ہیں کچھ باہر ہیں، دونوں کا قلع قمع ضروری ہے آپ کو یہ جان کر دلی دکھ ہوگا کہ ہماری محبتوں کا جواب گولی کی صورت میں دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت کے آتے ہی وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کے ساتھ امن کو ضروری قرار دیا اور بار بار دوستی کے سندیسے بھیجے مگر جواباً بھارت کی جانب سے محبت کے بجائے الٹا نفرت کا جواب آیا مثلاً آپ موجودہ پاک بھارت سرحدی کشیدگی کو دیکھ لیں کہ روزانہ بھارتی افواج کی طرف سے گولہ باری کی جاتی ہے۔ پاکستانی فوج صرف اپنا دفاع کر رہی ہے ہمارے کئی جوان اور افسران بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں مگر اس تمام صورتحال میں پاکستانی جنرل اور سیاست دان انتہائی تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ بھارتی جنرل اپنی نالائقیاں چھپانے کیلئے پاکستان اور پاکستانی فوج پر نت نئے الزامات لگاتے ہیں اگر بھارت کے اندر بھارتی فوج کے سپاہیوں کی کسی غیر مہذب حرکت کے باعث مقامی آبادی انہیں قتل کردے تو بھارتی جنرل اور سیاسی رہنما الزام فوراً پاکستان پر لگاتے ہیں انہیں الزام تراشی کی یہ عادت شاید اس لئے پڑ گئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پاکستان پر الزام لگا کر پاک ہو جاتے ہیں، ہماری جان چھوٹ جاتی ہے یہی رویہ بھارتی میڈیا کا بھی ہے۔ آپ کو ممبئی حملے تو یاد ہوں گے اور یہ بھی یاد ہوگا کہ بھارتی پارلیمینٹ پر حملہ ہوا تھا اور بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ بھارتی میڈیا نے سارے الزامات آئی ایس آئی پر لگادیئے تھے بھارت کی سیاسی و عسکری اور میڈیا قیادت کو شرم آنی چاہئے کہ اب بھارتی افسران خود اعتراف جرم کر رہے ہیں اب تو انہیں چاہئے کہ وہ پاکستان کو برا بھلا نہ کہیں مگر شاید ان کا اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ حال ہی میں جب پانچ سے زائد بھارتی فوجیوں کو بھارتی عوام نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کیا تو بھارتی فوج کے افسران اور سیاسی رہنماؤں نے پاکستان اور پاکستانی فوج پر الزام لگا دیا۔ اس سلسلے میں بھارتی فوج، افسران بہت حد تک ذمہ دار ہیں کہ وہ اپنی سیاسی قیادت کو پاکستان کے خلاف ابھارتے ہیں دراصل بھارتی فوج کی خواہش ہے کہ وہ میاں نوازشریف کے امن ایجنڈے کو آگے نہ بڑھنے دے، بھارتی فوج نوازشریف کی امن کی خواہش کو خراب کرنا چاہتی ہے۔ بھارتی سیاست دان بھی اپنی فوج کے اعلیٰ افسران کے ہاتھوں مجبور ہو کر پاکستان دشمنی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارتی سیاست دان یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے پاکستان اور پاکستانی فوج کی مخالفت کی تو عوام انہیں بہت ووٹ دیں گے۔ بھارتی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو سوچنا چاہئے کہ آخر انہیں ”امن عمل“ ضائع کرکے کیا مل رہا ہے وہ کیوں جنوبی ایشیاء میں امن اور ترقی کا خواب پورا نہیں ہونے دیتے۔ رہی پاکستانی فوج تو اس کے تحمل اور برداشت پر محسن نقوی کا شعر یاد آگیا ہے کہ
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
تازہ ترین