• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

24جون 1996کا واقعہ ہے، راولپنڈی کے گلی کوچوں میں ’’قاضی حسین احمد کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ اچانک قاضی حسین احمد لیاقت باغ کے قریب آریہ محلہ سے نمودار ہوئے تو پولیس فورس اُن کو گرفتار کرنے کے لیے حرکت میں آگئی لیکن مری روڈ پر موجود ہزاروں پُرجوش کارکنوں نے ان کو اپنے حصار میں لے لیا۔ پولیس کے ساتھ کھینچا تانی میں قاضی حسین احمد کے سر سے ٹوپی گر گئی، پہلی بار کسی نے قاضی حسین احمد کو ٹوپی کے بغیر دیکھا، کیمرے کی آنکھ نے یہ منظر محفوظ کر لیا، بہرحال اُس وقت جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں کے سامنے پولیس بےبس نظر آئی اور وہ قاضی حسین احمد کو پولیس سے چھین کر لے گئے۔ قاضی حسین احمد تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں تو مہاتما گاندھی کا برت اور دھرنا مشہور تھا لیکن اس روز قاضی حسین احمد نے اسلام آباد میں بےنظیر حکومت کی کرپشن کے خلاف پہلا دھرنا دیا تو ہر کوئی سوال کررہاتھا ’’یہ دھرنا کیا ہوتا ہے؟‘‘ جس کے نتیجے میں بےنظیر کی حکومت ختم ہو گئی۔

پاکستان کی سیاست میں دھرنے کو متعارف کرانے والے قاضی حسین احمدؒ ہیں، اس کے بعد ملکی سیاست میں ’’دھرنے‘‘ کا عمل دخل اِس حد تک بڑھ گیا کہ آج ہر سیاسی جماعت حکومت گرانے اور مطالبات منوانے کے لیے دھرنے کی سیاست کر رہی ہے۔ عمران خان نے 126روز ریڈ زون میں دھرنا دیا، وہ شام کے وقت بن ٹھن کر ریڈ زون آتے اور تقریر کرکے واپس چلے جاتے، بالآخر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بنی گالا چلے گئے۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ راولپنڈی سے اسلام آباد تک پہلا ’’مارچ ‘‘ بھی قاضی حسین احمد نے کیا۔ آج ’’دھرنا مخالف‘‘ عناصر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ قاضی حسین احمد مضبوط اعصاب کے مالک سیاست دان تھے، انہوں نے جرأت کے ساتھ فوجی حکمرانوں کے اقدامات کو چیلنج کیا اور جو بات وہ کہنا چاہتے، لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیتے۔ جماعت اسلامی ایک صلح جو تحریکی جماعت تصور کی جاتی تھی لیکن جب قاضی حسین احمد نے امارت سنبھالی تو انہوں نے جماعت اسلامی کا ’’معاشرتی اور سیاسی کلچر‘‘ تبدیل کر دیا اور جارحانہ سیاست کو متعارف کرایا۔ مظلوم کی فریاد پر مدد کے لیے ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ کے نعرے کو متعارف کرایا۔ ان کے اِس نعرے سے جماعت اسلامی کے کچھ سینئر رہنمائوں نے تحفظات کا اظہار کیا اور انہوں نے تحریک اسلامی کے نام سے الگ تو جماعت بنالی لیکن وہ عوام میں جماعت اسلامی کے مقابلے میں قبولیت نہیں پا سکی۔

قاضی حسین احمد ایک منکسر المزاج لیڈر تھے، ان کے خوبصورت چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہی نظر آتی تھی لیکن جب وہ جلال میں ہوتے تو کوئی ان کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے جولائی2007میں لندن میں نواز شریف کی میزبانی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اے پی ڈی ایم قائم کی گئی جس میں نواز شریف اور عمران خان بھی شامل تھے، اس اتحاد نے جنرل پرویز مشرف کے زیر انتظام ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا تو کچھ دنوں بعد مسلم لیگ (ن) کو احساس ہو کہ اس کا یہ فیصلہ درست نہیں لہٰذا وہ انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی لیکن قاضی حسین احمد اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ جماعت اسلامی کے کچھ رہنمائوں (جو ہر انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند رہتے ہیں) نے کہا کہ ’’ہم تو قاضی حسین احمد سے عام انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے اگر آپ بات کریں تو ممکن ہے وہ آپ کی بات سن لیں‘‘، میں نے جرأت کرکے قاضی حسین احمد کو جماعت اسلامی کے انتخابی رہنمائوں کی خواہش تو پہنچا دی لیکن قاضی حسین احمد نے بڑے تحمل سے میری بات سننے کے بعد اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ ’اے پی ڈی ایم نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے، اب اس پر نظر ثانی کی گنجائش نہیں‘‘ پھر انہوں نے بزرگانہ شفقت کے ساتھ تاکید کی کہ ’’آپ نے آج اس موضوع پر بات تو کر لی ہے، آئندہ مجھے ایسا مشورہ نہ دینا‘‘۔ بعد ازاں 2008کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حوالے سے انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’ہمیں الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔ جماعت اسلامی میں نظم و ضبط کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے اگرچہ امیر جماعت اسلامی اراکین کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، امیر جماعت اسلامی کے پاس بےپناہ اختیارات ہونے کے باوجود اس عہدے کے احتساب کا نظام موجود ہوتا ہے، شاید قاضی حسین احمد واحد امیر جماعت اسلامی تھےجن کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خلاف جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے رکن راجہ محمد ظہیر مرحوم نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو جماعت اسلامی میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ قاضی حسین احمد کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر باقاعدہ بحث کے بعد راجہ صاحب نے تحریک واپس لے لی۔ جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے قاضی حسین احمد کے تحریک عدم اعتماد کی ایکسکلوزو خبر فائل کر دی۔ خبر شائع ہونے کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے شدید رد عمل آیا۔ مجھ سے پہلی بار قاضی حسین احمد نے ناراضی کا اظہار کیا اور خبر کا سورس بتانے کی شرط پر ناراضی ختم کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ ’’یہ خبر درست ہے، آپ خبر کا سورس بتادیں تاکہ ہم اس بات کی تحقیقات کر سکیں کہ جماعت اسلامی کے اِن کیمرہ اجلاس کی خبر کس نے باہر نکالی؟‘‘، میں خبر کا سورس بتانے سے گریزاں رہا، قاضی حسین احمد کچھ دن تک ناراض رہے پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ قاضی حسین احمد جہدِ مسلسل کا دوسرا نام تھا، وہ آرام سے گھر بیٹھنے والی شخصیت نہیں تھی۔ ’’ناکامی اور مایوسی‘‘ کے الفاظ ان کی کتابِ سیاست میں تھے ہی نہیں۔ دو بار دل کا بائی پاس ہونے کے باعث ان کو آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا تھا لیکن وہ ایک پل آرام کرنے کے لئے تیار نہیں تھے لہٰذا ان کے ڈاکٹروں نے ان کے خاندان کو کہہ دیا تھا کہ قاضی حسین احمد کے متحرک رہنے میں ہی ان کی زندگی ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین