• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
وزیر اعظم کا امتحان اومی کرون سے آنے والی کورونا کی پانچویں لہر کی پیک تو گزرتی نظر آرہی ہے لیکن برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے اوپر جو الزامات کی لہر طاری ہے اس کی پیک تب ہی آئے گی جب ہونے والی تحقیقات سے یہ ثابت ہوگا کہ برطانیہ کے وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کے دوران جو پابندیاں خودنافذ کی تھیں، ان کی خلاف ورزی نہیں کی۔ان کا یہی کہنا ہے کہ کوئی خلاف ورزی نہیں کی، البتہ انسان ہونے کے ناتے یہ غلطی کر بیٹھے کہ ہونے والی پارٹیوں میں شریک ارکان پارلیمنٹ کو روکا نہیں ۔اب اس غلطی کی سزا میں حزب اختلاف یعنی اپوزیشن جماعت تو ان کے سرہوگئی ہے کہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں ۔اپوزیشن کایہ مطالبہ تو خیر اسی طرح لیا جاسکتا ہے کہ جہاں موقع ملے حکومت کو نکالنے کی کوشش کرو اور خود حکومت میں جگہ بنا لو لیکن برطانوی عوام تو اس طرح نہیں سوچیں گے، کیونکہ یہ سیاست تو سیاست دانوں کا کھیل ہے، عام عوام تو چاہے ترقی یافتہ ملک کی ہو یا ترقی پذیر ملک کی وہ اچھی روزی روٹی، اچھا گھر اور خاندان کے افراد کی فلاح کے لئے ہی سوچتی ہے ،۔ملک کا سربراہ کسی بھی جماعت سے ہو وہ ملک اور اس کی قوم کے لئے کیا کرتا ہے، عوام تو بس اس کے کاموں سے ہی مطلب رکھتی ہے اور جہاں تک برطانیہ کی بات ہے اربوں پاؤنڈ معیشت والی مملکت تو ویسے بھی ایک وزیر اعظم پر نہیں بلکہ سالوں سے بنائے گئے جمہوریت کے نظام پر چل رہی ہے، جہاں ملک کا سربراہ وراثتی چکر کی مدد سے نہیں صر ف اور صرف عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر ایک وفا دار سربراہ کا مکمل کردار ادا کرتا ہے، جو ملکی خزانے کو اپنی ملکیت نہیں بلکہ عوام کی امانت سمجھ کر اپنے فرائض کو ایمانداری سے نبھاتا ہے ۔ اتنے قاعدے قانون والی برطانیہ میں ایسی حرکت ملکی سربراہ کرے کہ عالمی وبا کا زور ہو، لوگ گھروں میں محصور اور وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہو، ایسے میں ملک کے دارالحکومت کے اہم حصے میں کام کے نام پر پارٹیاں کی جائیں، جن میں وزیراعظم شریک تو نہ ہو لیکن اپنی ناک کے نیچے ہونے والی ان سرگرمیوں سے بے خبر بھی نہ ہو، بات تو حیرانگی کی ہے ۔یہاں تو مثالیں بنی ہیں کہ سربراہوں نے ذراسی غلطی کی تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے رخصت لے لی جاتی ہے ۔لیکن چونکہ ابھی مسٹر جانسن پر الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں، اس لئے وہ ابھی بھی اپنے عہدے پر برقرار ہیں، پھر شاید وہ اتنے جذباتی انسان بھی نہیں ہیں کہ فوراً ہی فیصلہ کرکے عالمی وبا کے دور میں کہ جب ملک کو وبا سے نمٹنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے ، ایسے میں عہدہ چھوڑ کرملک کو نئے انتخابات کی لپیٹ میں جانے دیں۔البتہ یہ بات تو یقینی ہے کہ اگر الزامات ثابت ہوگئے تب وزیر اعظم بورس جانسن جانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گے، کیونکہ یہی ان بڑی مملکتوں کا انداز رہا ہے اور اسی کی امید برطانوی عوام اب بھی کر رہے ہیں کہ غلطی پر سزا بھگتو ۔
یورپ سے سے مزید