• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی حالات پر اکثر ونسٹن چرچل کا قول یاد آجاتا ہے کہ’ اقتدار کی عظمت سے احتساب کی ہیبت جڑی ہوتی ہے‘ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو عبرت کے اَن مٹ ہزاروں نشان موجود ہیں ۔بے شمار تمثیلات اور انگنت مثالیں ماضی کے دریچوں سے جھانکتی نظر آتی ہیں۔ مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ رجالان سیاست کانوں میں انگلیاں ٹھونسیں اور آنکھوں پر خود پسندی کی پٹی باندھ کر خوش فہمی کے مرض لا دوا میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ بلند و بالا دعوے کرنے والے حکمران اس بات سے بالکل بے خبر اپنی حماقتوں پر بند باندھنے کے بجائے غلطی پر غلطی کئے جاتے ہیں۔وطن عزیز کی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی اور شفاف انتخابات مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے لئے نئے امتحان کا آغاز ہیں ۔تحریک انصاف جو اپنے قائد کی جیتی ہوئی گھروں کی نشستیں گنوا بیٹھی تو مسلم لیگ ن بھی اپنے وزیراعلیٰ کی راجن پور سے جیتی ہوئی نشست اور سابق گورنر پنجاب ذوالفقار کھوسہ کی آبائی نشست ہار بیٹھی۔جبکہ جمشید دستی جو بڑی مشکل سے سردار، وڈیروں کے گرداب سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے ایک مرتبہ پھر ان کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میانوالی کی نشست پر عمران خان سے دو غلطیاں ہوئیں ،پہلی غلطی تو یہ تھی کہ انہیں اپنی آبائی نشست نہیں چھوڑنی چاہئے تھی اور اپنے حلقے کی عوام کے خلوص کا جلوس نہیں نکالنا چاہئے تھا۔مگر شیخ رشید کے شکنجے میں خان صاحب ایسے آئے کے میانوالی کی نشست رکھنے کا فیصلہ ترک کردیا۔
جبکہ دوسری غلطی یہ تھی کہ پہلے عائلہ ملک پھر انہی کے سفارشی کو ٹکٹ دیا جانا حماقت تھی۔جس دن عائلہ ملک کو نااہل قرار دیا گیا اس دن میانوالی میں باقاعدہ جشن منایا گیا تھاکیونکہ میانوالی کی عوام ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ تحریک انصاف کو ووٹ نہ ڈال کر یہاں سے ہرایا جائے۔جب عائلہ سے ٹکٹ واپس لیا گیا تو عوام یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ اب پارٹی کے کسی معقول آدمی کو ٹکٹ دیا جائے گا مگر عمران نے قرعہ فعال پھر ایک سفارشی شخص کے نام نکالا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ گیارہ مئی کے عام انتخابات کے موقع پر ٹرن آوٴٹ کی صورت میں انقلاب کا جو سیلاب امڈ آیا تھا اس مرتبہ اس کا عشر عشیر بھی دیکھنے کو نہ ملا۔تحریک انصاف کے لئے دوسرا بڑا جھٹکا پشاور1کی نشست تھی۔ جس کے بارے میں انتخابات سے ایک روز قبل شاہی سید کی رائے تھی کہ اے این پی کے جیتنے کے آثار بہت کم ہیں مگر مارجن بہت معمولی ہو گا۔ یہاں پر بھی عمران خان کے آمرانہ فیصلے پر پارٹی رہنما خاموش رہے اور ٹکٹ ایک غیر مقبول ترین شخص کو دے دیا گیا،جس کا عوام نے خوب جواب دیا جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کو جن دو بڑے اپ سیٹس کا سامنا رہا اس میں بھی سراسر پارٹی قیادت کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں غلطی اور پارٹی کا اندرونی اختلاف تھا۔ڈیرہ غازی خان میں ذوالفقار کھوسہ کی چھوڑی ہوئی نشست پر ان کے بیٹے حسام کھوسہ کو پارٹی ٹکٹ نہیں دینا چاہتی تھی۔میاں شہباز شریف جوعام انتخابات میں ڈیرہ غازی خان شہر کی نشست کا ٹکٹ دوست کھوسہ کو دینے میں رکاوٹ بنے رہے اس مرتبہ بھی عام انتخابات میں ہارے ہوئے امیدوار حسام کھوسہ کے بجائے لغاری خاندان کو ٹکٹ دینا چاہتے تھے۔مگر ذوالفقار کھوسہ نے میاں نواز شریف سے درخواست کی کہ انہیں حکومت میں بے شک کوئی عہدہ مت دیں ،مگر علاقائی سیاست سے بے دخل مت کریں۔جس میں مسلم لیگ ن کے ڈیرہ غازی خان سے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے بھی ذوالفقار کھوسہ کا ساتھ دیا۔مگر شہباز شریف نے کھوسہ کو ٹکٹ تو دے دیا مگراس نشست کے انتخاب کو انتہائی غیر سنجیدہ لیا۔ایسے ہی جیسے انجم عقیل اور چوہدری نثار نے اشرف گجر کے انتخاب کو لیا ۔دوسری جانب لغاری خاندان جو ہمیشہ اس نشست پر اپنا امیدوار کھڑا کرتا ہے اس مرتبہ پارٹی پالیسی کی پاسداری میں اپنا امیدوار تو کھڑا نہ کرسکا مگر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے امیدوار احمد دریشک کی بھرپور حمایت کی۔ مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی سردار اویس لغاری اور جعفر لغاری باقاعدہ تحریک انصاف کے امیدوار کی انتخابی مہم چلاتے رہے اور اس سارے سیاسی میچ میں اویس لغاری اپنے دوست جہانگیر ترین کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ رپورٹ عمران خان کو بھی پہنچاتے رہے تاکہ تحریک انصاف کی طرف واپسی کا در بھی کھلا رہے جبکہ جعفر لغاری جن کی شرافت ودیانت پورے علاقے میں مشہور ہے اس مرتبہ میاں شہباز شریف سے سخت نالاں تھے۔ عام انتخابات میں میاں شہباز شریف نے راجن پور کم جام پور کی جس نشست سے حصہ لے کر کامیابی حاصل کی تھی ۔اس حلقے میں جعفر لغاری کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ ان کی قومی اسمبلی کی نشست کے نیچے یہی صوبائی سیٹ آتی ہے۔ شہباز شریف نے عام انتخابات میں اس حلقے میں کوئی مہم نہیں چلائی تھی بلکہ جعفر لغاری نے اپنے اثر و رسوخ کے بنا پر انہیں یہاں سے جتوایا تھا ۔جعفر لغاری سے پارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ ان کی بیوی مینا احسان لغاری جو افغانسان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کی بھتیجی ہیں انہیں اس مرتبہ مخصوص سیٹ پر قومی اسمبلی کی راہ دکھائی جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ضمنی انتخابات میں جعفر لغاری توقع لگائے بیٹھے تھے کہ پارٹی اس مرتبہ ان کی بیوی کو ٹکٹ دے گی مگر انہیں شدید دھچکا اس وقت لگا جب عبدالقادر ممدوٹ جو سابق وزیر صحت عفیفہ ممدوٹ کے بیٹے ہیں انہیں صرف اس لئے ٹکٹ دیا گیا کہ ان کی بہن جو سابق دور میں فنکشنل لیگ کی طرف سے مخصوص سیٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی تھیں انہیں اس مرتبہ مسلم لیگ ن کی جانب سے مخصوص سیٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب کرایا گیا تھا۔ ان کے شریف فیملی میں اثرورسوخ کی وجہ سے ان کے بھائی کو ٹکٹ سے نواز ا گیا۔حالانکہ اس حلقے میں ممدوٹ خاندان کا کوئی اثرورسوخ نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ جام پور سے 40کلومیٹر دور عبدالقادر ممدوٹ کا نایاب گھوڑوں کا فارم ہاوٴس بنا ہوا ہے جہاں وہ سالانہ بنیادوں پر دورہ کرتے ہیں۔میاں شہباز شریف شاید یہ سمجھے کہ انہیں اس حلقے سے 56 ہزار تاریخی ووٹ پڑے ہیں اور مسلم لیگ ن اب کسی کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گی تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔
مگر وہ شاید بھول گئے تھے کہ یہ ووٹ جعفر لغاری کی شرافت اور اثرورسوخ کی بنا پر انہیں ملے تھے۔جو اب ان کے ساتھ نہیں تھے۔جس کا راجن پور کے پرانے سیاسی کھلاڑی نصراللہ دریشک نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بیٹے سابق ضلع ناظم راجن پور علی رضا کو بڑے مارجن سے جتوا دیا۔جبکہ اس ضمنی انتخابات میں ایک دھچکہ ایسا تھا جو کسی سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ فرد واحد جمشید دستی کو لگا۔جس میں انہوں نے چار دہائیوں سے قابض کھر خاندان سے جو نشست جیتی تھی وہ واپس چلی گئی اور اس میں ان کے بھائی جاوید دستی نوہزار کے مارجن سے ہار گئے۔اصل وجہ یہ تھی اس حلقے سے عام انتخابات میں جمشید دستی کو ایک لاکھ ووٹ پڑے تھے اور وہ سارا ووٹ ایک عوامی آدمی سے محبت اور جاگیرداروں سے نفرت کا اظہار تھا۔اس الیکشن میں جب جمشید دستی نے کھر خاندان والی نشست چھوڑ کر مظفر گڑھ شہر والی نشست رکھنے کا فیصلہ کیا تو حلقے کی عوام نے ان سے درخواست کی کہ آپ یہ نشست مت چھوڑیں کیونکہ ہم میں اتنی سکت نہیں ہے کہ بار بار کھر خاندان کا دباوٴ برداشت کریں۔ کھر خاندان کے آگے زمینیں گروی رکھوائے ہوئے معمولی کسانوں کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں دوبارہ باہر نکل کر ایک مرتبہ پھر دستی کا ساتھ دیتے۔
ضمنی الیکشن کے حالیہ نتائج نے یہ تو واضح کردیا ہے کہ ابھی مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ وہ کھمبے کو بھی ٹکٹ دے تو وہ جیت جائے گا۔ عوام اب بھی شخصیات کے حصار میں قید ہیں۔ معروف یورپی دانشور جیمز رسل کا قول موقع کی مناسبت سے نقل کرکے بات سمیٹنا چاہوں گا کہ بے قوف اور مردے اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے ورنہ زندوں کی دنیا تو تغیر وتبدل سے بھرپور ہوتی ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات میں ہر سیاسی جماعت کے لئے ایک سبق ہے کہ عوامی شعور بیدار ہوا چاہتاہے۔اگر سیاسی اکابرین اب بھی آمرانہ طرز عمل اپناتے ہوئے روایتی سیاست کے قلعوں میں اسیر رہے تو اس ضمنی انتخابات جیسے نتائج بار بار دیکھنے کو ملیں گے اور عوام ہی اصل فاتح کا فیصلہ کریں گے۔
تازہ ترین