• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ حکومت کی جانب سے بلدیاتی قانون میں کی جانیوالی حالیہ ترامیم کیخلاف ساری اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں ۔ ترامیم کے لئے سندھ اسمبلی سے منظور کردہ بل کو وہ کالا قانون قرار دے رہی ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے اختیارات سلب کر لئے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ ان ترامیم کے بعد سندھ کا بلدیاتی قانون دیگر صوبوں سے بہتر ہو گیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کا موقف درست ہے ؟

اصل حقیقت یہ ہے کہ سندھ سمیت پورے پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو جس قدر بااختیار ہونا چاہئے تھا ۔ اس قدر وہ بااختیار نہیں ہیں ۔ بااختیار بلدیاتی یا مقامی حکومتوںاور مساوی وسائل کی تقسیم کے بغیر جمہوری اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ۔ پاکستان میں اس معاملے پر اب اہم فیصلے کرنا پڑیں گے کیونکہ ہمارے شہروں کا شمار دنیا کے گندے ترین شہروں میں ہوتا ہے اور مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل گمبھیرسے گمبھیر تر ہو گئے ہیں ، جن کو حل کرنے کا کوئی موثر نظام نہیں ہے ۔ اس حوالے سے سندھ میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا احتجاج ایک حقیقی سیاسی ایشو کے لئے ہے ۔ احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں میں وفاق میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف ، اس کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ( ایم کیو ایم ) کے علاوہ جماعت اسلامی ، پاک سرزمین پارٹی ( پی ایس پی ) ، مہاجر قومی موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہیں ، جو کراچی میں سیاسی طور پر موثر ہیں ۔ سندھ اسمبلی کے سامنے جماعت اسلامی کے کئی روز سے جاری دھرنے سے کراچی کی سیاست میں زبردست ہلچل پیدا ہو ئی ہے ۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن شہر کی ایک قد آور شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ ایم کیو ایم ، پی ایس اپی اور مہاجر قومی موومنٹ نے بھی بڑے سیاسی شو کئے ہیں ۔ تحریک انصاف بھی اس حوالے سے بہت متحرک نظر آئی ۔ اس طرح ایک اہم سیاسی ایشو پر ایک مکمل سیاسی تحریک بن گئی ہے ۔ تحریک کامیاب ہو یا ناکام انہوں نے بیج ڈال دیئے ہیں جس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔مذکورہ بالا تمام سیاسی جماعتیں دنیا کے تمام بڑے شہروں کی طرح کراچی کےلئے بااختیار شہری حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ وہ یہ مطالبہ بھی کر رہی ہیں کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( کے ڈی اے ) ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( ایم ڈی اے ) اور لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( ایل ڈی اے ) سمیت دیگر ادارے شہری حکومت کے حوالے کئے جائیں ۔ صحت اور تعلیم کے اداروں اور ٹرانسپورٹ کا کنٹرول بھی شہری حکومت کو دیا جائے تاکہ کراچی کو ایک جدید شہر کی طرح چلایا جا سکے ۔ پولیس کو بھی شہری حکومت کے ماتحت کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں پورے ملک کیلئے ایسے بلدیاتی نظام کا مطالبہ نہیں کر ر ہیں۔ اگرپورے ملک میں نہیں تو ان کو کراچی کو ماڈل بنانا چاہئے کراچی 3کروڑ اور ہر زبان بولنے والوں کا شہر ہے ۔ وہ صرف کراچی کے لئے مخصوص بلدیاتی نظام چاہتی ہیں ۔ مخصوص بلدیاتی نظام کا یہ مطالبہ بھی پورے کراچی کا نہیں مگر 85فیصد لوگوں کاہے ۔ اسلئے احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے بینرز پر ایسے نعرے لکھے گئے ہیں ، جن سے لسانی منافرت پیدا ہو سکتی ہے ۔ ان نعروں میں ’’ شہری سندھ پر دیہی سندھ کا قبضہ نامنظور ‘‘ جیسے نعرے بھی شامل ہیں ۔ ابھی مطالبہ ماننا بہتر ہے ورنہ یہ کوئی نیا ہنگامہ کھڑا کر سکتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ سیاسی جماعتوں کو صرف کراچی کے لئے نہیں ، پورے سندھ کےلئے بااختیار مقامی حکومتوں کی تشکیل کا مطالبہ کرنا چاہئے اور اس حوالے سے پورے ملک میں تحریک چلانی چاہئے لیکن اگر وہ تین کروڑ سے زیادہ آبادی والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے لئے مخصوص بلدیاتی نظام کی بات کر رہی ہیں تو اس میں کوئی غلط بات بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ موثر بلدیاتی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے کراچی ناقابل انتظام شہر بن کر رہ گیا ہے اور اس کے بلدیاتی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ، جو خوفناک سیاسی اور سماجی انتشار اور انسانی المیوں کو جنم دے سکتے ہیں ۔ ویسے تو پورے ملک میں مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام ہونا چاہئے لیکن کراچی جیسے شہر کے لئےاس کی فوری ضرورت ہے بلدیاتی امور چونکہ صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں ، اس لئے سندھ حکومت کے بس میں ہے کہ وہ دیگر صوبوں پر سبقت حاصل کرے اور کراچی سمیت پورے صوبے کو بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام دے ،دیگر صوبے اس کی تقلید کرنے پر مجبور ہوں گے ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کا فوکس کراچی کی سیاست ہے کیونکہ کراچی میں اس ایشو پر زیادہ سیاسی حساسیت پائی جاتی ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اس وقت کا بنیادی ایشو ہے ۔ انہیں یقیناً پورے ملک میں اس ایشو پر سیاست کا دائرہ پھیلانا چاہئے اور دیگر صوبوں کی حکومتوں کو بھی دباو میں لانا چاہئے ۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے پر جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی مذاکرات کرے ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اسے کراچی کا حساس ترین سیاسی ایشو بنا دیا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ باقی پورے ملک میں بھی یہ حساس ترین سیاسی ایشو ہونا چاہئے ۔ یہ بات درست ہے کہ ترمیمی بل میں سندھ حکومت نے پراپرٹی ٹیکس بلدیاتی اداروں کو دیا ہے اور ان کی مالی خود مختاری میں کسی حد تک اضافہ کیا ہے ۔ مگر اس سے بھی آگے جانے کی ضرورت ہے ۔ کراچی جیسے بڑے شہر کو جدید ، صاف ستھرا اور قابل انتظام شہر بنانے کے لئے بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کی فوری اور اشد ضرورت ہے ۔ کراچی کی وجہ سے سندھ کے دیگر شہروں اور قصبوں کو بھی ایسا نظام میسر آسکتا ہے ۔ میں پورے صوبے میں یکساں بلدیاتی نظام کا حامی ہوں ۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس وژن پر عمل کرنا چاہئے ، جو انہوں نے ’’ نئے سماجی معاہدہ ‘‘ میں دیا تھا ۔

جو کہو سچ کہو جو لکھو حق لکھو،

جس ہاتھ سے تھامتے ہو قلم ،تم کو اس ہاتھ کی آبرو کی قسم

تازہ ترین