• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی شاہین کون ہیں؟ علی شاہین اس وقت ترکی کی پارلیمنٹ میں غازی انتیپ شہر سے برسر اقتدار آق پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ ہیں اور ترک گرانڈ نیشنل اسمبلی میں سب سے بڑے گروپ ’’ترکی۔پاکستان انٹر پارلیمنٹری فرینڈ شپ گروپ‘‘ (جس کے اراکین کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہے) کے چیئرمین ہونے کے علاوہ پارلیمنٹ کے ایڈمنسٹریٹر ہیں اور لاطینی امریکہ اور کریبین ریاستوں کی دولتِ مشترکہ کی پارلیمنٹوں  کے ترک مندوب کے چیئر مین بھی ہیں۔ علی شاہین اگرچہ ترک النسل ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے دراصل اپنی نوجوانی کے ایام کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزارے اور سات سال تک کراچی میں مقیم رہے، وہ روانی سے نہ صرف اردو بولتے ہیں بلکہ پاکستانی ثقافت کی عملی طور پر نمائندگی بھی کرتے ہیں۔

علی شاہین 1970 میں ترکی کے شہر غازی انتیپ کی تحصیل نذیپ کے شام سے ملحقہ گاوں ’’اِکزجے‘‘ میں پیدا ہوئے اور امام خطیب اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ اُن کے والد اُن کو مسجد کا امام بنانا چاہتے تھے لیکن ان کی قسمت میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا لکھا تھا اس لیے وہ امام بننے کا امتحان پاس کرنے کے باوجودکسی وجہ سے امام نہ بن سکے۔ انہوں نے اپنے ایک دوست کی خواہش پر غیر ارادی طور پر آخری وقت میں رفاہ پارٹی کے قائم کردہ اعلیٰ تعلیم اسکالر شپ فنڈ کے لیے رجوع کیا۔ جن ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی جانی تھی ان میں پاکستان، سعودی عرب، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات شامل تھے۔ علی شاہین نے ان ممالک میں سے پاکستان سے اپنی گہری محبت اور بچپن میں’’ جیوے پاکستان‘‘ نغمے سے متاثر ہونے، پاکستان کے ترکی کا سچا دوست ہونے پر اسےدوسرے ممالک پر ترجیح دی۔ اگرچہ علی شاہین اسکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن غربت کی وجہ سے ان کو شدید مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ اپنے سفر اور دیگر اخراجات پورا کرنے کے لیے ان کو پاکستان سے ترکی اپنے سفر کے دوران ہر بار چار چار بوریاں مسواک کبھی پیٹھ پر کبھی کاندھوں پر اور کبھی ویگنوں پر لادتے ہوئے کراچی سے، کوئٹہ، زاہدان، تہران، وان اور غازی انتپ تک لانے اور انہیں فروخت کرنا پڑتا تھا۔ 26 فروری 1997ء کوعلی شاہین پاکستان کی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعدمستقل طور پر واپس ترکی تشریف لے آئے اور ترکی کی قومی اسمبلی میں غازی انتیپ ہی سے رفاہ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ قہرامان امی اولو کے ایڈوائزر کے طور پر فرائض سرانجام دینا شروع کردیئے لیکن پاکستان سے حاصل کردہ ڈگری کے ترکی کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ کمیشن YOK کی جانب سے Equivalence نہ دیے جانے کے باعث پارلیمنٹ میں سرکاری طور پر ایڈوائزر نہ بن سکے جس پر جناب ’’قہرامان امی اولو‘‘نے اپنی جیب سےانہیں تنخواہ دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

قہرامان امی اولوہی نے بعد میں وزیراعظم ایردوان کو بطور امیدواران کا نام پیش کیا اور یوں علی شاہین 2011میں غازی انتیپ سےپہلی بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اوراب تیسری بار یہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ علی شاہین یورپی یونین امور کے نائب وزیرکے عہدے پر بھی فائز رہے، اس دوران ایک نوجوان پاکستانی سلیمان کے غیر قانونی طور پر ترکی کے یورپی علاقے’’ایدرنے‘‘ میں شدید برف باری کے دوران جاں بحق ہونے کی خبر پر فوری طور پر لاش کو پاکستان پہنچانے کے انتظامات کی خود نگرانی کی اورنوجوان کی ماں سے رابطہ قائم کیا،انہیں حوصلہ دیااور اپنی منہ بولی ماں قرار دیتے ہوئے کسی بھی مشکل میں ان سے رابطہ کرنےکی درخواست کی اور یوں اس خاتون سے علی شاہین کا آج بھی ایک ماں اور بیٹے کا رشتہ قائم ہے۔ علی شاہین پاکستان اور پاکستانی باشندوں کی خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی کوئی پاکستانی، ترکی میں مشکل میں گھرا ہوا نظر آئے تو علی شاہین فوری طور پراس کی مدد کرتے ہیں۔ سفیر پاکستان اور سفارت خانہ پاکستان کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو علی شاہین Co Ambassador کے طور پر ان مسائل کو سلجھانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ علی شاہین کو پاکستان کے عظیم دوست اور برادر ہونے اور ان کی جانب سے کی جانے والی خدمات کے طور پر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے 2019 ء میں ستارہ پاکستان سے نوازا۔

علی شاہین نے’’ترکی ۔پاکستان انٹر پارلیمنٹری فرینڈ شپ گروپ‘‘ کے چیئرمین کے طور پر گزشتہ دنوں ترکی قومی اسمبلی کے لان میں سفیر پاکستان کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام کیا۔ تقریب میں علی شاہین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے پاکستان میں قیام کے دوران جو محبت اور چاہت ملی ہے وہ ان کی زندگی کا اثاثہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ترکی میں اپنی زندگی پاکستان کی محبت ہی میں گزار رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں ترکی کا بھی مسئلہ ہے اور صدر ایردوان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں تمام ترکوں کی طرح پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے چلے آرہے ہیں۔اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

اس موقع پر سفیر پاکستان جناب محمد سائرس سجاد قاضی نے کہا کہ علی شاہین ترکی میں پاکستان کے ’’حقیقی سفیر‘‘ ہیں اور ان کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی جس طرح ترکی کھل کر حمایت کررہا ہے ہم صدر ایردوان، ترک حکام اور ترک باشندوں کے شکر گزار ہیں۔ ترکی اور پاکستان تمام بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے دنیا ترکی اور پاکستان کے تعلقات پر رشک کرتی ہے۔

آخر میں قارئین کو بتاتا چلوں، علی شاہین نے اپنی تیسری کتاب’’اہلِ جفا‘‘ جس میں انہوں نے کراچی میں گزارے ہوئے دنوں کا تذکرہ کیا ہے،اس سال شائع کرنے کا پلان بنا رکھا ہے۔

تازہ ترین