• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں مسلح عسکریت پسندوں سے مذاکرات کو حکومت کی ترجیح قرار دیا ہے۔ خطے میں اپنے استعماری مقاصد کے حصول کیلئے امریکہ نے7/اکتوبر2001ء کو اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس ریاستی دہشت گردی کا دائرہ بعد میں پاکستان تک پھیلا دیا گیا تھا۔ امریکی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کی جنگ پاکستان کے اندر لڑ رہا ہے۔ اس سے قبل حکومت پاکستان اور امریکی سوچ کی نمائندگی کرنے والوں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ جنگ اب ہماری بھی ہے۔ گزشتہ تقریباً بارہ برسوں میں اس جنگ سے پاکستان کی معیشت کو تقریباً 101 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، تقریباً پچاس ہزار قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ امریکہ نے پاکستان پر373 ڈرون حملے کیے ہیں، امریکی افواج ایک سے زائد مرتبہ پاکستان کی سرزمین میں داخل ہو چکی ہیں۔ امریکہ نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2مئی 2011 ء کو ایبٹ آباد میں فوجی آپریشن کیا جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سب سے بڑا سانحہ قرار پایا۔ (وزیراعظم کی حیثیت سے یوسف رضا گیلانی نے پاکستان پر اس امریکی حملے کو فتح عظیم قرار دیا جبکہ صدر زرداری نے اس پر امریکی اخبار میں بخوشی ایک مضمون لکھا) امریکہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ کہتا رہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر امریکی افواج پاکستان کے اندر داخل ہو سکتی ہیں۔ ان برسوں میں بھارت نے متعدد مرتبہ پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں کی ہیں جبکہ ”کشمیر کاز“ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر، فضائیہ کے کامرہ ایئربیس اور بحریہ کے مہران نیول بیس پر حملے ہو چکے ہیں۔
یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑتے چلے جانے سے پاکستان کی معیشت کو 101 ارب ڈالر کا جو زبردست نقصان ہوا ہے اس میں سے 74 ارب ڈالر گزشتہ 64 ماہ میں اور مشرف کے دور کے 78 ماہ میں 27 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ان نقصانات کے حجم کو قوم سے چھپاتی رہی تھی لیکن حیران کن طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر میں ان نقصانات کا حجم بتانے سے گریز کیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپنی نشری تقریر میں بھی ان نقصانات کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا مبادا امریکہ کے ماتھے پر شکن نہ پڑ جائے۔ وزیراعظم نے بہرحال یہ کہا کہ حکومتی شعبے کے کچھ اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے 5 برسوں میں قومی خزانے کو 2500 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ امریکہ نے اتحادی امدادی فنڈ کی مد میں پاکستان کو کتنی رقوم کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ اگر یہ رقوم مل جاتیں اور موجودہ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے اقدامات اٹھاتی تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ بدقسمتی سے امریکی ایجنڈے کے تحت آئی ایم ایف سے نیا قرضہ ہی حکومت کی ترجیح رہی ہے۔ یہی نہیں حکومت نے آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم کے حجم کو 6.6 ارب ڈالر تک بڑھوانے کے لئے امریکہ اور یورپی ممالک سے مدد حاصل کی۔ اس کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے عوض حکومت پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کا امریکی مطالبہ زیادہ جوش و جذبے سے منظور کرے گی۔ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے عملاً دستبردار ہو جائے گی کجا اس کے کہ منصوبے کو چین تک وسعت دی جائے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا مسئلہ گزشتہ7 برسوں سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ عالمی بینک نے اس منصوبے کیلئے قرضے کی فراہمی کو بھارت کی جانب سے ”کوئی اعتراض نہیں“ کے سرٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا ہے جس کے لئے بھارت فی الحال تیار نہیں ہے۔
وزیراعظم نے اپنے پہلے نشری خطاب میں کہا ہے کہ حکومت نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ خواہ یہ مذاکرات اور مفاہمت سے ہو یا طاقت کے بھرپور استعمال سے۔ قوم بہرحال یہ توقع کر رہی تھی کہ گزشتہ 12 برسوں سے طاقت کے استعمال سے ہونے والی ناکامیوں اور تباہ کاریوں کے بعد وزیراعظم کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ بس بہت ہو گیا۔ 12 سال دہشت گردی کے خلاف لڑ کر دیکھ لیا اب ہم صرف مذاکرات اور مشاورت سے یہ مسئلہ حل کریں گے۔ وزیراعظم کے خطاب کے الفاظ جن میں طاقت کے بھرپور استعمال کے آپشن کا ذکر موجود ہے دراصل امریکی ایجنڈے کے مطابق ہے۔ امریکہ کا دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کے مطالبے اور موجودہ حکومت کے دور میں بھی امریکہ پر انحصار برقرار رکھنے کی پالیسی سے اس خدشے کو تقویت مل رہی ہے کہ پاکستانی طالبان سے مذاکرات خدانخواستہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور طاقت کے استعمال کا جواز مہیا کر لیا جائے گا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے 24/اگست 2013ء کو کہا کہ ماضی میں حکمرانوں کی بدنیتی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے۔ اس حقیقت کو بھی بہرحال تسلیم کرنا ہو گا کہ ماضی میں کم از کم دو مرتبہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ طالبان کے امن معاہدے اور مذاکرات کو ناکام بنایا ہے اور اب بھی ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہم انہی کالموں میں کہتے رہے ہیں کہ امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑنے اور پاکستان کی سا لمیت ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ امریکہ نے یکم مئی 2009ء کو کہا تھا کہ دو ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت برقرار رہتی ہے یا نہیں اور پاکستان نے امریکہ کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے 6/مئی 2009ء کو واشنگٹن میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ضمن میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے جس کا اصل مقصد بھارت کو زمینی راستے سے افغانستان تک رسائی دینا تھا۔ یہی نہیں امریکی دباؤ پر پاکستان نے 7/مئی 2009ء کو سوات میں فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے 22/اگست 2013ء کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ مسلم لیگ (ن) نے سوات آپریشن کی حمایت کی تھی۔ حکومت اگلے تین برسوں میں عالمی مالیاتی اداروں سے 12 ارب ڈالر کے قرضے لینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ بار بار کہتے رہے ہیں کہ اس کے باوجود ملک پر بیرونی قرضوں کا حجم نہیں بڑھے گا۔ یہ واضح رہے کہ بیرونی قرضے اتارنے کیلئے حکومت قیمتی قومی اثاثے نج کاری کے نام پر فروخت کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ قرضے اتارنے کیلئے قومی اثاثوں سے ہاتھ دھونا تباہی کا نسخہ ہے اور نوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کے مترادف ہے۔
تازہ ترین