• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد سیاسی افواہوں، امکانات اور خدشات کی دُھند میں

اسلام آباد(فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) اسلام آباد کی سرد فضا میں ان دنوں ملک کی سیاسی صورتحال کا ہر منظر ’’ابہام کی دھند‘‘میں اس طرح دھندلایا ہوا ہے کہ قریب کا منظر بھی شفاف نظر نہیں آتا۔

اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے ہونے والی ہر پیشرفت پر سازش کا گمان کرنے والے دعویدار کہتے ہیں یہ سب حقائق چھپانے اور اصل واقعات و مسائل سے توجہ ہٹانے کی سرگرمیاں ہیں۔

 اگر ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ، پارلیمانی نظام کو رخصت کر کے صدارتی نظام لانے کیلئے ماحول سازگار بنانے اور ’’حالات کے اندھے کنوئیں میں ردعمل اور امکانات کا پتھر پھینک کر پانی کا اندازہ لگانے والے‘‘حکومتی حلقے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حوالے سے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو مشاورت کی دعوت دیتے ہیں تو اپوزیشن اسے حکومت کی ایک چال قرار دیتی ہے۔

اگر خود وزیراطلاعات بھی اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ یا صدارتی طرز حکومت کے بارے میں قیاس آرائیاں کچھ ’’یو ٹیوبرز اور وی لاگرز‘‘ کی ذہنی اختراع ہیں جن سے ملک میں ’’فیک خبروں‘‘ کا کلچر فروغ پا رہا ہے تو اپوزیشن جماعتوں کو ان افواہوں کے پس منظر میں پھر بھی حکومتی جماعت کی جانب سے حقیقی مسائل سے پردہ پوشی اور ہر محاذ پر ناکامی نظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مشترکہ اپوزیشن کے اراکان نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں آج ایک قراردادجمع کرائی ہے جس میں 1973کے متفقہ آئین کے مطابق ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام کو برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

قرارداد پر قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کم و بیش تمام اراکین کے دستخط ہیں لیکن یہ کوشش شاید ’’سعی لاحاصل‘‘ثابت ہو کیونکہ امکانی طور پر جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ختم ہو جائے گا اور حکومت کے نزدیک اس قرارداد کی شاید اتنی اہمیت نہ ہو کہ وہ پہلے سے موجود ایجنڈے پر ہونے والی کارروائی روک کر اس قرارداد پر بحث کریں۔

سیاسی دھند کے مناظر میں ایک منظر حکومت جماعت کے رکن اسمبلی ریاض فتیانہ بھی بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اپوزیشن کی جماعتوں میں اس بات پر شدید اختلاف رائے ہے کہ اگر موجودہ حکومت ختم ہوجاتی ہے تو نگران حکومت میں وزیراعظم کس جماعت کا ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شہباز شریف، پیپلزپارٹی کی جانب سے خورشید شاہ جبکہ جمعیت علمائے اسلام سے اسعدالرحمان نام لیا جارہا ہے، تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فضل الرحمان کی یہاں پر بھی یہ شرط ہے کہ پہلے دورانیے میں ان کے صاحبزادے اسعدالرحمان کو نگران وزیراعظم بنایا جائے (دروغ برگردن راوی)۔

اہم خبریں سے مزید