• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی بھی گڑھا بظاہر محدود لگتا ہے لیکن اس کی گہرائی اور تاریکی کی شدت لامحدود ہو سکتی ہے جس میں گرنے والا جتنا گہرائی میں جائے گا اتنا ہی اس کا باہر نکلنا مشکل ہوگا۔ اقتدار کے مزے لوٹنے اور اپنے اپنے ادوار میں لوٹ مار،دھوکہ دہی، جعل سازی اور دغابازی کے ذریعے اپنی تجوریاں بھرنے والے اب ایسی ہی کسی کھائی میں چھپے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔اس طبقے کی رائے ونڈ کے شریف اور بمبینو کے زرداری سے بہتر کوئی نمائندگی نہیں کر سکتا۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ سنگین جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود ایسے افراد اب بھی لوٹ مار کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہیں جو اُس حقیقی چیلنج کی عکاسی کرتا ہے جس کا پاکستان کو سامنا ہے۔ ملک کے تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کے طریقہ کار سے بالاتر جس طرح ایسے افراد کے خلاف دائر مقدمات کو غلط انداز میں نمٹایا جاتا ہے یا ان میں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں، وہ انصاف کی روح کے ساتھ سراسر زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ جرم بھی واضح ہوتا ہے۔ ٹھوس شواہد اور گواہ بھی موجود ہوتے ہیں لیکن پھر بھی انصاف نہیں مل سکتا۔ یہ بے دست و پا نظام راتوں رات تشکیل نہیں پایا بلکہ منصوبہ سازوں نے اسے ہر دور میں تحفظ دیا جس کا بنیادی مقصد کرپٹ طبقے کو جوابدہ بنانے کے امکانات کو ختم کرناتھا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ’’سودے بازی ‘‘ کرنے کی سیاہ تاریخ موجود ہے جہاں ریاست کو بری طرح نقصان پہنچانے اور عوام کی قسمت سے کھیلنے والوں کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے افراد اپنی تجوریوں کو مزید بھرنے کیلئے دوبارہ اقتدار میں بھی آ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے عوام کی تکالیف کا ازالہ کرنے کیلئے ہمارے بوسیدہ نظام میں کوئی سکت نہیں بچی۔ جبکہ غریب اور لاچار افراد کے لیے دستیاب مواقعوں کے خاتمے اور ان کی زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں کبھی کسی ادارے کو احساس نہیں ہوا اور نہ ہی اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اس لعنت کو طول دینے سے ریاست کی تقدیر بگڑ سکتی ہے۔

جہاں وائٹ کالر کرائم کے مرتکب مجرموں کو پکڑنے کے لیے جدید ترین مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں نور مقدم کے گھناؤنے قتل جیسے مقدمے میں تاخیری حربوں کا استعمال بھی انصاف سے انکار کے زمرے میں آتا ہے۔ جن مقدمات کا فیصلہ دنوں میں ہو جانا چاہئے، وہاں ماہ و سال لگ جاتے ہیں۔ شاہ رخ جتوئی جیسے مقدمے میں بھی انصاف کا واضح خلا نظر آتا ہے، ایسے شخص کو دیگر قیدیوں کی طرح جیل کی کوٹھڑی میں رکھنے کی بجائے اسپتال میں سہولیات سے مزین پرتعیش ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ جب معاملہ منظرعام پر آتا ہے تو انتظامیہ بھی خاموش رہتی ہے اور انصاف کے رکھوالے بھی کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ ان دگرگوں حالات سے صاف ظاہر ہے کہ نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے والے مافیا اور ریاستی اداروں نے ملک میں جرائم کو پروان چڑھانے کے لیے گویا مُک مُکا کر رکھا ہے تاکہ مجرموں کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ ان کی باعزت واپسی کیلئے بھی راہیں ہموار کی جائیں۔ نتیجتاً ریاستی نظام مکمل طورپر ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے افراد کا کیا ہوگا جو دہائیوں سے ریاستی نظام سے کھلواڑ کر رہے ہیں؟ایسے افراد اور اداروں کے درمیان ناجائز کاموں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے گہرے رشتے استوار ہو چکے ہیں جس میں معمولی سی تبدیلی لانا بھی محض خام خیالی ہوگی۔ انہیں اپنے مفادات سے زیادہ کچھ عزیز نہیں، ان میں صحیح اور غلط کی تفریق ختم ہو چکی ہے، وہ اپنے جرائم کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ وہ اپنے مال و دولت کے نشے میں اندھے ہو چکے ہیں، انہیں اپنا فریب اور جعل سازی نظر نہیں آتی، وہ سچ کا سامنا کرنے کی بجائے سودے بازی کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ شرم اور پشیمانی کا احساس کھو چکے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں ہوس رچ بس چکی ہے جس کے پیچھے وہ اپنے بدنما چہروں کو چھپائے پھرتے ہیں۔

ریاستی نظام کرپٹ اداروں اور مافیاز کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بظاہر اب چھوٹے موٹے اقدامات سے یہ معاملہ ٹھیک ہونے والا نہیں کیونکہ جن لوگوں کو اس نظام کو درست سمت میں گامزن کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، انہوں نے ہی حالات کو اِس نہج تک پہنچایا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کبھی مسیحا نہیں ہو سکتے، ایسے لوگوں کو مذموم سازشوں کی اصلاح کیلئے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کا موجودہ نظام مکمل طورپر مفلوج دکھائی دیتا ہے جو ہر روایتی علاج کی پہنچ سے دور ہے۔ اس کا واحد حل سخت فیصلے کرنے میں مضمر ہے۔

ملک اس وقت جس بدحالی کا شکار ہے اس کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کیلئے ہمیں ظاہریت کو ختم کرنا ہوگا۔ پہلا مرحلہ تشخیص اور دوسرا اُس کے حل کا ہے۔ ہمیں اس امر پر بھی توجہ دینا ہوگی کہ آیا اس نامناسب ماحول میں کچھ تبدیلی لائی جا سکتی ہے جو یقیناً کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ ہمیں اس بات کا بغور جائزہ لینا ہوگا کہ آیا موجودہ نظام کے اندر رہ کر ریاستی امور کو جاری رکھنا ممکن ہے یا کسی ایسے متبادل نظام کی ضرورت ہے جس کے ذریعے موثر اور پائیدار طرز حکمرانی کا آغاز کیا جا سکے۔ پاکستان کو کشمکش کے گڑھے سے باہر نکالنے کیلئے سخت اور غیرمقبول فیصلے کرنے میں ذرہ بھر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔

سست روی کا شکار غیرمنصفانہ اور پیچیدگیوں سے بھرپور نظام ملک اور عوام پر ایک بوجھ بن چکا ہے۔ اس سے چھٹکارہ حاصل کئے بغیر مستقبل کی سمت سفر جاری رکھنا ممکن نظر نہیں آتا۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین