• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پچھلے کالم میں ’’دریائے سندھ پر سندھ اور پنجاب کے آبی تنازع‘‘ کے ایشو پر میں نے پاکستان اور ہندوستان کے آزاد ملک بننے سے پہلے سندھ کے انگریز گورنر کے سیکریٹری ایس ایچ رضا کی طرف سے غیر منقسم ہندوستان کے انگریز گورنر جنرل کو مارچ 1947ء میں لکھے گئے ایک تفصیلی خط جس میں سندھ ۔ پنجاب آبی تنازع کاتفصیل سے ذکر کیا تھا۔ اس کالم میں اس خط کے باقی حصے من و عن پیش کررہا ہوں:

خط میں کہا گیا تھا کہ اس بات کے پیشِ نظر کہ اس وقت تک جو رویے ظاہر کئے گئے تھے ان کی حدیں وسیع ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں لہٰذا آخر کار یہ طے کیا گیا کہ اس ایشو کو حل کرنے کیلئے شملہ میں کانفرنس منعقد کی جائے۔ اس سارے عرصے کے دوران سندھ کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ اس ایشو سے منسلک مالی معاملات کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جبکہ پنجاب کا موقف تھا کہ وہ ان ایشوز پر بحث کرنے کے لئے تب تک تیار نہیں ہوگا جب تک سندھ پانی کی مقدار کے تعین میں ترمیم پر اتفاق نہیں کرلیتا۔ اس سلسلے میں ہونے والے بحث و مباحثے کے ریکارڈ کی کاپیاں اس خط کیساتھ منسلک ہیں۔ (Annexure XI to XIV) اس سلسلے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ان کو Aides Memories تصور کیا جائے گا۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کوئی بھی اس کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہوگا،ان کاغذات کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایشوز جن پر بحث کرنے کیلئے یہ کانفرنس بلائی گئی تھی اس میں ان ایشوز کو حل کرنے کیلئے سندھ نے جو بھی کوششیں کیں وہ سب بے سود ثابت ہوئیں۔ اسی طرح ان تجاویز پر ایک دن بحث ہوئی تو پنجاب نے ان ساری تجاویز بشمول طریقہ کار کے انتہائی معمولی نکات پر حتیٰ کہ اصول پر بھی کوئی رائے نہ دی۔ اس طرح جب کانفرنس کوئی بھی فیصلہ نہ کرسکی تو پنجاب نے وعدہ کیا کہ وہ اس ایشو پر ایک اور لیٹر ارسال کرے گا جب کہ یہ لیٹر آنے میں بھی چار ماہ لگ گئے۔ اس لیٹر (Annexure XV) کے ذریعے بھی وہی دلائل دیئے گئے جو پہلے بھی دیئے گئےتھے۔ یہ دلائل سب کے سب سندھ کو قبول نہیں تھے لہٰذا اس لیٹر کے جواب میں سندھ نے (Annexure XVI) کے ذریعے پنجاب کو بتایا کہ ان کا لیٹر مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے، ان تبدیلیوں کو قبول نہیں کیا جائے گا جو دلائل پنجاب نے دیئے وہ (Annexure-XVII) میں دیئے ہوئے ہیں اور اس لیٹر میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جب تک کونسل میں ہزمیجسٹی کے احکامات وصول نہیں ہونگے تب تک اسٹیٹس کو برقرار رہیگا۔ اس صورتحال کے مدنظر سندھ کو صاف نظر آرہا ہے کہ یہ انتہائی غیر مساوی سلوک ہوگا کہ اوپر والے صوبے کو اجازت دی جائے کہ وہ متعصبانہ رویہ اختیار کرکے کام شروع کردے جسکے نتیجے میں دستیاب پانی کی تقسیم شروع کردے اور بعد میں کہے کہ وہ پانی کو روک نہیں سکتے کیونکہ وہ پہلے ہی آنا شروع ہوگیا ہے۔جواب میں پنجاب نے (Annexure XVIII) کے ذریعے موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ کونسل میں ہزمیجسٹی کو بھیجا جائے۔ رائو کمیشن کی تجویز کے مطابق اگر صوبے قدرتی طریقہ کار اختیار کرکے ایک معاہدے پر پہنچنے کی کوشش نہ کرتے تو یہ معاملہ طے ہوجاتا، اس بات کی توقع تھی مگر اس بات کی توقع نہیں تھی کہ اسی وقت پنجاب بھکرا ڈیم تعمیر کرنے کا کام روکنے سے انکار کرکے سندھ کو دھمکی بھی دے گا کہ اس نے اگراپنا کام جاری رکھا تو اسکے نتائج اس کو بھگتنا پڑیں گے جہاں تک پہلے ایشو کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ بشمول بھکرا ڈیم یہ جو کام کئے جارہے تھے ان کیخلاف سندھ نے شکایت کردی تھی۔ علاوہ ازیں سندھ نے کامیابی سے رائو کمیشن پر زور دیا کہ وہ کونسل میں ہزمیجسٹی کو سفارش کریں کہ وہ پنجاب کو کہیں کہ یہ جو آپریشن کررہے ہیں ان کو روک دیں۔ درحقیقت یہ سفارش کی گئی مگر یہ سفارش تین سال کیلئے تھی یہ مدت اکتوبر 1945ء کو ختم ہوگئی،یہ مدت اتنے عرصے کے لئے اس وجہ سے مقرر کی گئی کہ کمیشن کا خیال تھا ، یہ تنازعہ اس عرصہ کے دوران ختم ہوجائے گا مگر ایسا نہیں ہوا جبکہ اس میں سندھ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ سندھ کو اس بات پر زور دینا چاہئے کہ پنجاب کو روک دیا جائے اور اس میں مزید دیر نہ کی جائے کہ کہیں اس دوران آخری احکامات جاری نہ کر دیے جائیں جہاں تک سندھ میں ہونے والے کاموں کا تعلق ہے تو وہ انتہائی سادہ ایشو ہے۔ پنجاب سمجھتا ہے کہ ان کاموں کے جاری رہنے سے جو بھی نتائج نکلیں پنجاب ان کاموں کے خلاف گورنر جنرل کو شکایت کریگا اس دھمکی کا مختصر جواب یہ ہے کہ جب گورنر جنرل کی طرف سے سندھ کو سرکاری طور پر مراسلہ آئیگا تو اس کا مکمل جواب دیا جائیگا اور اسکے جو بھی نتائج نکلیں گے، سندھ ان پر عمل کرنے کیلئے مکمل تیار ہوگا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین