• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی ناکامی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں خصوصاً کراچی میں قتل و غارت کی طرف اس کی بالکل توجہ ہی نہیں اور نہ ہی اسے ختم کرنے کے لئے اس نے کبھی اپنی نیت ظاہر کی ہے۔ اس نے اپنے گزشتہ پانچ سالہ دور میں کوئی کوشش نہیں کی کہ کراچی کے حالات کو ٹھیک کیا جائے اور نہ ہی پچھلے تین ماہ میں جب سے اس نے اپنی نئی حکومت کے5سالہ دور کاآغاز کیا ہے کسی مصمم ارادے کا اظہار کیا ہے کہ وہ اب ہمت کر ے گی کہ لوگوں کی زندگیوں کو عذاب سے نکالے ۔ کراچی کے باسی عجیب بے بسی کا شکار ہیں ۔ وہ ٹیکس تو دے رہے ہیں اور حکومتی زعماء بے دریغ شان و شوکت کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر اپنی بنیادی ذمہ داریاں جن میں سب سے اہم شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ہے ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں ۔ مجرمانہ بے حسی انتہا پر ہے۔ کراچی کے شہری کس کرب میں مبتلا ہیں صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں مگر دوسرے پاکستانیوں کو بھی اس کی وجہ سے شدید جھٹکے لگ رہے ہیں۔ 2008کے بعد مختلف قسم کے مافیاز کی موج لگی ہوئی ہے ۔وہ اس عرصہ میں اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ پہلے کبھی نہ تھے۔بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان ایک بہت منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے۔ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں کا ملنا ایسے جرائم بن چکے ہیں جنہوں نے کراچی کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ کچھی کمیونٹی کے بہت ساری افراد کو لیاری ٹاؤن سے جانیں بچا کر ہجرت کرنا پڑی۔
ایسے حالات میں الطاف حسین نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیاہے تاہم بہت سی سیاسی جماعتوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی ہے اور اسے جمہوریت کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے۔ فوج کو اربن ایریا میں ملوث کرنا بالکل دانشمندی نہیں ہے تاہم اگر پولیس اور رینجرز آپریشن کریں اور فوج کی بیک اپ انہیں میسر ہو تو پھر شائد یہ کارآمد ہو سکتی ہے۔ اس طرح کے آپریشن میں لیڈنگ رول پولیس اور رینجرز کو ہی اداکرنا چاہئے ۔ یہ تو ہو گی انتظامی بات مگر جمہوری دور میں فوج کو اس طرح کی ڈیوٹی دینا انتہائی نامناسب ہے اس سے صاف ظاہر ہوگا کہ سندھ حکومت اس قابل نہیں کہ اسے قائم رکھا جاسکے لہٰذا اسے گھر بھیج دیناچاہئے ۔ بلاشبہ سندھ حکومت کراچی کی حد تک بالکل ناکارہ اور نکمی ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ حالات کو ٹھیک کرنے کی اس کی نیت ہی نہیں ہے۔ اگر گزشتہ پانچ سال میں اس نے کچھ بھرپور کوششیں کی ہوتیں تو یقیناً کراچی شہر میں کافی بہتری آچکی ہو تی۔ جب تک حکومت مافیاز کو طاقت سے نہیں کچلے گی حالات بالکل ٹھیک ہونے کی طرف گامزن نہیں ہوں گے۔ گزشتہ 5سال کو سامنے رکھتے ہوئے سندھ حکومت سے قطعاً یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کراچی میں بہتری لانے کا ارادہ رکھتی ہے یا اس کی کوئی وژن ہے یا اس میں ہمت ہے۔ تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔
عام انتخابات ہارنے کے بعد صدر آصف علی زرداری میں سیاسی اعتماد کی کمی یقیناً ایک قدرتی بات ہے۔ وہ اس وقت کافی کمزور وکٹ پر ہیں لہٰذا ان سے کئی وہ باتیں بھی منوائی جاسکتی ہیں جن پر وہ پہلے رضا مند نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا یہ بہترین موقع ہے کہ وفاقی حکومت ان سے بات کرے تاکہ کراچی میں ایک پروفیشنل اور دلیر پولیس افسر کو شہر کا انچارج مقرر کر کے اسے مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ مافیاز کا خاتمہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف سے بھی بات کی جائے کہ وہ رینجرز کو ایسے پولیس افسر کے ساتھ مکمل تعاون کی ہدایت دیں۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام خفیہ اداروں کو حکم دے کہ وہ مافیازکے بارے میں کراچی پولیس کے نئے انچارج کو بھرپور معلومات فراہم کریں اورکریک ڈاؤن میں حصہ بھی لیں۔ یہ سارے اقدامات اس وقت ہی ممکن ہو سکیں گے جب اعلیٰ سطح پر اس کا فیصلہ کر لیا جائے گا ۔ اگراس طرح کیا جائے تو کراچی میں فوج بلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔بظاہرالطاف حسین کے مطالبے کا مقصد صرف اور صرف شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ہے جو فوج کو ملوث کئے بغیر ہی پورا ہو جائے گا۔ایم کیو ایم کے سپریم لیڈر کو چاہئے کہ وہ وزیراعظم نوازشریف اور آصف زرداری کو مجبور کریں کہ وہ کوئی ایماندار پولیس افسر کراچی میں تعینات کریں جس کو وہ بھی مکمل طور پر سپورٹ کریں۔ یقیناً ابھی تک وفاقی حکومت کراچی کے معاملات میں قطعی مداخلت نہیں کر رہی اور انہیں سندھ حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے مگر آخر کب تک یہ ظلم و ستم اور قتل و غارت کا بازار گرم رہے گااوروفاقی حکومت ایک خاموش تماشائی بنی رہے گی ۔یہ حالات اس طرح نہیں چل سکتے اور اس طرح کی بے حسی جو ہم نے گزشتہ 5سال میں دیکھی جاری نہیں رکھی جاسکتی۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ فوج پہلے ہی بہت سے اندرونی چیلنجوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ حال ہی میں پاک بھارت سرحد اور لائن آف کنٹرول پر بھی حالات خاصے کشیدہ ہوئے ہیں اس کے علاوہ فوج قبائلی علاقے میں پہلے ہی کافی مصروف ہے۔ لہٰذا فوج جو کام کر رہی ہے اسے وہی کرنے دیا جائے اور اسے کسی بھی گنجان شہری علاقے جیسے کراچی میں ملوث کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ تاہم اس کی خفیہ ایجنسیوں سے معلومات لینے کی حد تک مفید مدد لی جاسکتی ہے۔ آئینی طور پر وفاقی حکومت کسی بھی علاقے میں فوج تعینات کر سکتی ہے اورمتعلقہ صوبائی حکومت بھی اس کی مدد مانگ سکتی ہے صرف اس وقت جب حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔ سندھ حکومت تو کبھی مانے گی ہی نہیں کہ کراچی کے حالات اس کی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے بد سے بدتر ہو گئے ہیں اور مزید خراب ہو رہے ہیں لہٰذا وہ تو کبھی بھی نہ ہی وفاقی حکومت کی مدد مانگے گی اور نہ ہی فوج کی ۔ اگر وفاقی حکومت کسی بھی قسم کی سندھ میں مداخلت کرے گی تاکہ کراچی کے حالات کو ٹھیک کیا جائے تو اس کے لئے پیپلزپارٹی قطعاً تیار نہیں ہو گی اور اس کی بھر پور مخالفت کرے گی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ اس کی راجدھانی میں مداخلت ہے۔
نوٹ:رونا دھونا بند کریں اور حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کریں۔صرف پاکستان تحریک انصاف کو ہی ان الیکشنز پر عام انتخابات کی طرح ہی اعتراض ہے جو بے جا ہے۔جہاں اسے شکست ہوئی اسے کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے یہی سیاسی رویہ ہے ۔ تحریک انصاف کو اپنے سیاسی کلچر میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ہر بات پر کہ ہم پاکستان جام کر دیں گے  ہم ہڑتال کریں گے  ہم دھرنا دیں گے وغیرہ وغیرہ جیسی دھمکیاں دینا غیر سیاسی مائینڈ سیٹ کی عکاسی کرتی ہے۔ پی ٹی آئی والے تصحیح کر لیں کہ این اے 71 میانوالی میں ووٹر ٹرن آؤٹ 45.96فیصد تھا نہ کہ 80فیصد جیسے عمران خان نے کہا۔
تازہ ترین