• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1997ء میں جب امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کے تعلقات کے چرچے عام تھے اور امریکہ عالمی میڈیا کی توجہ منقسم کرنے کے لئے خرطوم پر میزائل داغ چکا تھا تو ایک امریکی پروڈیوسر Barry Levinson نے فلم بنائی Wag the dog ۔”واگ دا ڈاگ“ دراصل انگریزی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے ایک اہم ترین معاملے سے بھٹکانے کیلئے روئے سخن کسی اور غیر اہم معاملے کی طرف موڑ دینا۔اس فلم کی مرکزی کہانی یہ ہے کہ دوسری بار صدارتی انتخابات لڑنے والا اس وقت ایک لڑکی کے ساتھ موج مستی کرتے پکڑا جاتا ہے جب انتخابی مہم کا سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے اور الیکشن میں محض دو ہفتے باقی رہتے ہیں۔اس مشکل وقت میں ایک امریکی ڈاکٹر مدد کو آتا ہے اور ہالی وڈ پروڈیوسر کو ساتھ ملا کر البانیہ کیخلاف فرضی جنگ کا اسکرپٹ تیار کرتا ہے تاکہ لوگ اس سیکس اسیکنڈل کو فراموش کرکے جنگی جنون کا شکار ہو جائیں۔منصوبے کے مطابق ایک البانوی یتیم بچے کو مظلوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور انسانیت کے نام پر امریکہ سے مداخلت کی اپیل کی جاتی ہے۔یہ پراپیگنڈہ کام کر جاتا ہے اور متذکرہ بالا امیدوار دوبارہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔اگر آپ کچھ وقت کے لئے نوحوں اور مرثیوں کی کیفیت سے نکل آئیں اور عارضی طور پر شام غریباں کا سلسلہ موقوف کر کے شام کی گنجلک اور تہہ در تہہ صورتحال سمجھنا چاہیں تو ”واگ دا ڈاگ“ نامی یہ فلم ضرور دیکھیں۔یہ میرا نہیں برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کا صائب مشورہ ہے جس کی حق گوئی و بیباکی کا ایک زمانہ معترف ہے۔ان کا خیال ہے کہ ”واگ دا ڈاگ“ کا سیکوئیل ٹو شام میں شوٹ ہو رہا ہے۔فلم کا پلاٹ وہی ہے محض کردار نئے ہیں۔یقین نہیں آتا تو عالمی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ۔برطانوی اخبار ڈیلی مرر کی شہ سرخی دیکھ کر تو میں کنفیوژ ہو گیا کہ اس مضحکہ خیز انداز پر ہنسوں یا روؤں؟Now they are gassing our childern اف خدایا، منافقت کا اس قدر عدیم النظیر مظاہرہ… ”ہمارے بچے“ اس سادگی پہ کون نا مر جائے اے خدا۔ یادش بخیر، وہ کس کے بچے تھے جنہیں آپ کی حکومت نے 1920 ء میں دردناک موت دے کر کیمیائی حملوں کی روایت ڈالی؟ عراقی کردوں کے بچے جنہیں برطانوی فوج نے مرگ آور گیسوں سے مار ڈالا۔اگر آپ کی انسانیت بیدار ہو ہی گئی ہے تو کیوں نہ لیبیا کے ان ”اجڈ“ اور ”گنوار“ قبائل کا تذکرہ بھی ہو جائے جو مسولینی کے کیمیائی حملے کا نشانہ بنے۔لگے ہاتھوں ویتنامیوں کو بھی یاد کر لیں جن پر امریکیوں نے زہریلی گیسیں یوں پھینکیں جیسے آج کل ہمارے ہاں ڈینگی مچھر مارنے کے لئے اسپرے ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں فاسفورس میں جل مرنے والے فلسطینیوں کو بھی یاد کر لیا جائے۔آپ کی ”رحمدلی“اور ”انسانیت“ کی مثالیں تو ان گنت ہیں مگر انہیں چند ”کلیوں“ پر قناعت کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 14 اگست کو جمہوریت کے حق میں آواز اٹھانے والے نہتے مظاہرین کو ایک فوجی ڈکٹیٹر کے حکم پر ٹینکوں تلے روند دیا گیا۔ہزاروں افراد کو تڑپتے ،بلکتے،سسکتے اور دم توڑتے پوری دنیا نے دیکھا مگر جب وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے اس درندگی کی مذمت کرنے کو کہا گیا تو جواب ملا،یہ مصر کا اندرونی معاملہ ہے ہم مداخلت نہیں کر سکتے تاہم فریقین (جن میں سے ایک فریق غیر مسلح اور نہتا ہے) تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ 21 اگست کو شام کے ضلع جبر غوطہ میں ایک پراسرار کیمیائی حملہ ہوتا ہے جس میں بچوں سمیت سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔یہاں عالمی امن کے ٹھیکیدار فریقین (جو حالت جنگ میں ہیں بلکہ فریق ثانی کو غیر ملکی تائید و حمایت بھی حاصل ہے) کو بردباری کا درس نہیں دیتے بلکہ غیرجانبداری کی پالیسی ترک کر کے فی الفور بحری بیڑہ روانہ کر دیتے ہیں اور بشارالاسد کیخلاف مہم جوئی کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں۔وہی میڈیا جو ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں معصوموں کا خون بہتا دیکھ کر چشم پوشی اختیار کرتا ہے ،دوسرے ڈکٹیٹر کے خلاف کیمیائی حملے کا الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی دہائی دینے لگتا ہے ، دیکھو وہ ہمارے بچوں کو زہریلی گیسوں سے مار رہے ہیں ۔منافقت کے اس بدترین مظاہرے پر ہیری ٹرومین کی یاد کیسے نہ آئے ،کسی نے نکاراگوا کے ڈکٹیٹر سموزا کے مظالم کی نشاندہی کی تو امریکی صدر نے برملا کہا،ہاں وہ ہو گا حرامی (باسٹرڈ) مگر وہ ہمارا حرامی ہے۔ٹرومین کے بعد کولن پاؤل کا چہرہ نظر آتا ہے جس نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی نمائندوں کے روبرو نہایت پر اعتماد انداز میں کہا تھا کہ صدام حسین کے پاس مہلک اور جان لیوا کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیار ہیں جن سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے یہ تو معلوم ہوا کہ امریکی سپاہ نے فلوجہ میں خطرناک اور زہریلی گیسیں استعمال کر کے سینکڑوں عراقی بچوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا مگر صدام حسین کے وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) آ ج تک نہیں مل پائے۔خدا جانے انہیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
میں شام کے صدر بشارالاسد ہی نہیں تمام عرب حکمرانوں کے ظالمانہ طرز حکومت کا ناقد ہوں مگر اس فلم کا ولن محض بشارالاسد نہیں اور بہت سے سنگ گراں حائل ہیں۔اسکرپٹ کے مطابق ہدف یہ ہے کہ مشرق وسطٰی کو غیر مستحکم کر کے اسرائیل کو استحکام بخشا جائے۔میں اپنے اس تاثر کی بنیاد پر چند حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور پھر فیصلہ قارئین کی بصیرت پر چھوڑتا ہوں۔ 29 جنوری 2013 ء کو برطانوی اخبار ڈیلی میل اور یاہو نیوز انڈیا نے ایک تہلکہ خیز خبر جاری کی جس کا عنوان تھا U.S backed plan to launch chemical weapon attack on Syria and blame it on Asad's regime چند گھنٹے بعد ہی یہ اسٹوری انٹرنیٹ سے لاپتہ ہو گئی مگر اس کا اسکرین شاٹ میرے پاس آج بھی موجود ہے اور یقیناً دیگر با خبر لوگوں نے بھی اس کا نو ٹس لیا ہو گا۔ رابرٹ مردوک کے ملکیتی ایک اخبار کا اداریہ خود چغلی کھا رہا تھا کہ اس طرح کا واقعہ ہوگا۔ ڈیلی ٹائمز نے لکھا”بشارالاسد کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گا اور امریکہ مداخلت پر مجبور ہو جائے گا“ خود اوبامہ نے بھی اس طرح کی صورتحال کو ” ریڈ لائین“ قرار دیا تھا۔جس طرح مغربی ممالک باغیوں کو جدید اسلحہ فراہم کر رہے ہیں،اس تناظر میں تو کیمیائی حملے کا امکان شامی فورسز کے بجائے مزاحمت کاروں کی جانب سے ہی ہو سکتا ہے اور پھر محض چند روز قبل ہی حکومتی فورسز نے باغیوں سے واگزار کرائے گئے علاقوں سے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ دریافت بھی کیا۔
صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے میرے ذہن میں چند سوالات ہیں۔فیس بک پر معصوم بچوں کو کیمیائی حملے کے بعد زہریلی گیسوں کے زیر اثر دم توڑتے آپ نے بھی دیکھا ہو گا۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ظالم و جابر ڈکٹیٹر نے یہ حملہ کرنے سے پہلے میڈیا کو جکڑنے کا بندوبست کیوں نہ کیا اور اس طرح کھلا کیوں چھوڑ دیا کہ وہ مظالم کی عکسبندی کر سکیں؟ جب بچے زہریلی گیسوں سے دم توڑ رہے تھے تو فوٹوگرافروں اور کیمرہ مینوں پر ان جان لیوا گیسوں کا اثر کیوں نہ ہوا؟ کیا انہیں خود شامی حکومت نے خصوصی ماسک فراہم کر رکھے تھے تاکہ وہ ظلم و جبر کی گواہی دینے کو زندہ رہ جائیں؟ جب یہ حملہ ہوا، اقوام متحدہ کے معائنہ کار دمشق میں موجود تھے اور کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال پر تحقیقات کر رہے تھے۔بشارالاسد چاہے سٹھیا ہی کیوں نہ گیا ہو مگر ایسے نازک وقت میں کیمیائی حملہ کرنے کی حماقت کیسے کر سکتا ہے؟جس علاقے میں یہ پراسرار حملہ ہوا اسے چند دن پہلے ہی حکومتی فورسز نے باغیوں سے چھڑایا ہے۔جب ایک علاقہ فتح ہو چکا تو ایسے میں کیمیائی حملے جیسے انتہائی اقدام اور وحشیانہ حملے کی کیا منطق ہو سکتی ہے؟ ما سوائے اس کے کہ ”واگ دا ڈاگ“ ٹو کی شوٹنگ ہو رہی ہو۔
تازہ ترین