• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ جانے کیوں بارہا مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں کسی جیتی جاگتی انسانی سوسائٹی میں نہیں بلکہ انسان نما بونوں کی سوسائٹی میں جی رہا ہوں۔ سکڑے ہوئے دماغ ہیں جنہیں ذہن یا شعور کہنا بھی شاید ایک الزام ہی قرار پائے۔ ایبٹ آباد کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی صائمہ پسند کی شادی کرتے ہوئے کراچی چلی جاتی ہے لیکن پھر بھی قتل کر دی جاتی ہے پھر اس گاؤں کا جرگہ ولیج کونسل کے کونسلر یا ناظم کی قیادت میں صائمہ کی سہیلی عنبرین کو اس جرم میں واجب القتل قرار دے دیتا ہے کہ اس نے پسند کی شادی میں اپنی سہیلی کی مدد کیوں کی تھی۔ جرگہ فیصلہ سناتا ہے کہ عنبرین کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تا کہ آئندہ کوئی لڑکی اپنی پسند کی شادی کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ اس فیصلے کی روشنی میں رات گئے خوف اور دہشت میں عنبرین کو اس کے گھر سے اٹھایا جاتا ہے اور اسی کے دوپٹے سے اسے پھانسی دی جاتی ہے پھر ثبوت مٹانے کیلئے گاڑی کی سیٹ پر ڈال کر آگ لگا دی جاتی ہے۔
کیا درندگی کا یہ کوئی ایک واقعہ ہے؟ اخباری صفحات ملاحظہ فرمالیں کوئی دن گزرتا ہے جب کوئی نہ کوئی بچی غیرت کی بھینٹ نہ چڑھا دی جاتی ہو اب تو سوسائٹی بحیثیت مجموعی ایسے سانحات سے بے حس ہو چکی ہے اور ایسے بہت سے دلخراش واقعات ہیں جو دور دراز کے دیہات میں روا رکھے جاتے ہیں لیکن بوجوہ اخبارات میں رپورٹ تک نہیں ہو پاتے۔ جدھر دیکھتا ہوں ادھر جبر کی حکمرانی مسلط دکھائی دیتی ہے ہر کوئی حسبِ توفیق دوسرے کیلئے خدا بنا بیٹھا ہے ان زمینی خداؤں سے ہماری جان کب چھوٹے گی؟ Tolerance یا برداشت جیسے انسانی اوصاف آخر ہماری سوسائٹی سے کیوں عنقا ہو گئے ہیں ۔
ہمارے سیاسی رویے بھی کچھ اس نوع کے ہیںکہ پارٹیشن کے بعد ہم نے کبھی کسی کو ٹکنے نہیں دیا ہے چھینا جھپٹی اور زور آوری ہمارا طرئہ امتیاز چلا آ رہا ہے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہم جو مہارت رکھتے ہیں شاید ہی کوئی قوم اس حوالے سے ہمارا مقابلہ کر سکے۔۔دس سال ہم نے ایک دوسرے کی ٹانگیں یوں کھینچیں کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو یہ بول اٹھے کہ اتنی تو میں لنگو ٹیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستانی اپنی حکومتیں بدلتے ہیں پھر اگلی پوری دہائی تک پاکستانی قوم کو جبر کے ڈنڈے پر جھولنا پڑا ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم ذہنی میچورٹی یا شعور نامی کسی بلا کو نہیں جانتے ہیں البتہ اس جبر کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔ جبر کا ڈنڈا پرانا اور کمزور ہوکر ٹوٹااور خدا خدا کر کے الیکشن ہوئے تو ہم نے ان کے نتائج کو قبول کرنے سے پوری ڈھٹائی کے ساتھ انکار کر دیا پھر دنیا میں ایک انوکھی قسم کی سویلین ڈکٹیٹر شپ اس قوم پر مسلط کر دی۔ یہ رخصت ہوئی تو ایک اور ڈکٹیٹرشپ سے ہمارا پالا پڑ گیا۔ہم نے اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم نے انسان بننا ہے نہ انسانوں کی طرح جینا اور جینے دینا ہے۔
آج کیا ہو رہا ہے؟ آج بھی ہم ایک نا دیدہ جبر کے تحت ایک ایک دن پورا کر رہے ہیں۔ مارشل لائوں کو تو سب جانتے ہیں بیچ میں جو درمیانی جمہوری وقفے ہیں حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تو وہ بھی نام کے جمہوری ہیں با لفعل یہاں ڈکٹیٹر شپ ہی رہی ہے کبھی دیدہ اور کبھی نا دیدہ۔ آج سے ٹھیک دس برس قبل 15 مئی2006 کو ان گنت جبری دھکے کھانے کے بعد دو ہر دلعزیز جمہوری لیڈروں کو کسمپرسی حالات پر رونا آیا تو سوچا کہ آخر ہم کیوں جبر کی کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں؟ کیوں نہ جبر کے بالمقابل باہم ایکا کرتے ہوئے ایک دوسرے کو سپورٹ کریں؟؟ہماری نظر میں 15مئی کا دن وطنِ عزیز میں ’’یومِ جمہوریت‘‘ ہے اور اسے ہر سال ’’یومِ جمہوریت‘‘ کے طورپر منایا جانا چاہیے یہ سیاسی شعور کی بلوغت کا دن تھا مگر افسوس کہ اس تلخ حقیقت کی معرفت حاصل کرنے والی ایک شخصیت کو تو جلد دنیا ہی سے رخصت کر دیا گیا مزید افسوس یہ کہ اس کے بعد اس سیاسی و جمہوری قد کا ٹھ کی دوسری شخصیت اس کی اپنی پوری پارٹی کے اندر موجود نہ تھی۔ جہاں تک سیاسی شعور کی معرفت حاصل کرنے والی دوسری شخصیت کا تعلق ہے اگرچہ بظاہر وہ اس وقت بر سرِ اقتدار ہے لیکن جبر کی تمام قوتیں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑی ہیں کہ تجھے نہیں تو کم از کم تیری اس سیاسی بلوغت کو مار کر دم لیں گے۔
آج جب وہ اسمبلی کے فلور پر کھڑے یہ کہہ رہا تھا کہ پاناما لیکس ہوں یا آف شور کمپنیاںیہ تو بہانے ہیں اصل ٹارگٹ تو خود میں ہوں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر پاناما لیکس کا ایشو نہ ہوتا تو کیا پھر کوئی اور الزام اس کا اسی طرح پیچھا نہ کر رہا ہوتا؟۔ دھرنے کے وقت کیا ایشو تھا؟ اس وقت تو پانامالیکس نہیں تھیں؟ تو پھر کیوں ایسی خوفناک فضا پیدا کرد ی گئی تھی کہ صبح گیا یا شام گیا۔ یہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ تمام تر دھرنوں اور میڈیا پروپیگنڈہ طوفانوں کے باوجود عوام میں ہلچل ہوئی نہ پورے ملک میں کہیں بھی عوام اس کے خلاف اٹھے ۔بالفرض اگر ہم مان لیتے ہیں کہ یہ شخص بھی اتنا ہی کرپٹ ہے جتنے اس کے مخالفین ہیں اور اتنا ہی پارسا ہے جتنے اس کے کرم فرما ہیں تو اس سے فرق کیا پڑے گا حالانکہ اگر دیانتداری سے پرکھا جائے تو اس میں پھر بھی اپنے نا قدین سے کہیں بہتر دیانت نکلتی ہو گی۔ اس کو تو مواقع ملے اور بھرپورملے مگر اس حمام میں تو وہ بھی ننگے ہیں بلکہ مہا ننگے ہیں جنہیں ہنوز اس نوع کے مواقع بھی میسر نہیں آئے ۔یہ کیا بیان ہے کہ آف شور کمپنیاں میں نے بھی بنائی ہیں لیکن میں نے تو پہلے بنائی تھیں اور میرا مقصد تو صرف ٹیکس بچانا تھا۔۔۔اردو میں ایک محاورہ ہے حجتِ گناہ بدتراز گناہ۔۔۔ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ اجتماعی طور پر ہماری سو سائٹی اس دلدل میں لتھڑی ہوئی ہے ہم کسی معیاری انسانی سو سائٹی میں نہیں انسان نما بونوں کی سو سائٹی میں جی رہے ہیں بلا شبہ استثنیٰ ہر جگہ موجود ہوتا ہے قد آور انفرادی مثالوں سے کوئی سوسائٹی خالی نہیں ہوتی لیکن ایسی شخصیات بھی شاید ہمارے ہاں جبر کی رسیوں سے بندھی ہوئی ہیں ہم ایسی سیاسی شخصیات سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جبر کی رسیوں کو توڑتے ہوئے آگے بڑھیں اور سو سائٹی کی کا یا پلٹ کریں۔منتخب اداروں کے اندر مئوثر احتساب کا ایک مستقل سسٹم بنائیں رات احسن اقبال کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت میں بالغ نظری آ گئی ہے وزیراعظم کے خطاب کی روشنی میں اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر کرپشن کا تدارک کریں اور اس حوالے سے ایک مئوثر نظام بنائیں۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ ہم اپنی سوسائٹی کو ایک معیاری انسانی سو سائٹی بنائیں جہاں جبرو جہالت کی جگہ اصول و شعور کی سر بلندی ہو آئین و قانون کی حکمرانی ہو انسانی حقوق اور آزادیاں اس جمہوری آئیڈیل سو سائٹی کی پہچان ہوں سب ’’ جیو اور جینے دو ‘‘ کی پا لیسی پر عمل پیرا ہوں۔
تازہ ترین