• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک فرانسیسی مصنف جوزف ڈی ماسٹر(Joseph de Maistre)نے کہا تھا۔۔۔’’ہر قوم کو ویسے ہی رہنما ملتے ہیں جن کی وہ مستحق ہوتی ہے۔‘‘ اس کے باوجود ایسے دن تھے جب انسان سوچتا تھا کہ اس قوم سے کیا خطاسرزد ہوگئی ہے جواسے اس طرح کے حکمرانوں سے واسطہ پڑا ہے ۔ ہمارے سامنے وزیر ِ اعظم نواز شریف ہیں جوکبھی اپنے والد صاحب کی دولت کا ذکر کریں گے اور کبھی اپنے بیٹوں کے اثاثوں کے بارے میں بتائیں گے کہ وہ کس طرح سمندرپار چلے گئے،لیکن وہ مے فیئر فلیٹس کے بارے میںچارسیدھے سادے سوالوں کا جواب نہیں دے رہے کہ شریف فیملی نے ان فلیٹس کو پہلے کس سے خریدا، کس تاریخ کو خریدا، ان کی قیمت کتنی تھی اور یہ رقم کہاںسے آئی۔
پاناما انکشافات کے بعد نواز شریف پر الزام لگانے میں پی پی پی اور پی ٹی آئی پیش پیش تھیں۔جب بدعنوانی، غیر اعلانیہ دولت، سمندر پار اکائونٹس کے خلاف کسی تحریک کی قیادت پی پی پی کررہی ہوسمجھ نہیں آتا کہ انسان ہنسے یا روئے ۔ اس پارٹی کی صفوں میں ابھی بھی بہترین سیاسی دماغ، دانشور اور آئینی ماہرین موجودہیں لیکن کیاآصف زردار ی کی قیادت میں پی پی پی بدعنوانی کے خلاف تحریک چلا سکتی ہے ؟ناجائز دولت کے خلاف بلند اخلاقی پوزیشن اختیار کرنے پر اعتزا ز پر کون تنقید کرسکتا ہے لیکن اگر اُن سے کوئی حلفاً پوچھے کہ اُن کے نزدیک شریف فیملی نے زیادہ جائزدولت بنائی ہے یا زرداری بھٹو فیملی نے تو کیسا رہے گا۔
لیکن یہاں پی ٹی آئی بھی ہے جس کی بے صبری کی کوئی انتہا نہیں۔ عقل حیران ہے کہ عمران خان ایسی پوزیشن کیوں اختیار کر لیتے ہیںجس کا دفاع کرنا مشکل ہوجائے ۔ جب وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اُن کی بھی سمندر پار کمپنی تھی(فی الحال اُن کے قریبی افراد کا ذکر نہیں کرتے )تو پھر وہ بے دھڑک ہوکر یہ کیوں کہتے رہے کہ سمندر پار اکائونٹس رکھنے کی واحد وجہ یا تو کالے دھن کو چھپانا اور یا ٹیکس چوری کرنا یا دونوںمقصد ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے اس بات پر فوکس کیوں نہ کیا اصل مسئلہ دولت حاصل کرنے کے ذریعے کا ہے کہ وہ قانونی تھا یا غیر قانونی؟پاناما اسکینڈل حب الوطنی کا پیمانہ طے نہیں کرتا کہ جس کسی نے بھی سمندر پار کمپنی بنائی ہو اُسے غدار قرار دیا جائے ، یا یہ بتا نا کہ کس آسانی سے سرمایہ ملک سے باہر چلا جاتا ہے ۔
پاناما پیپرز کی پاکستان کے لئے اہمیت یہ ہے کہ یہ اس خرابی کا دوطرفہ اظہارہے جسے ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ عوامی عہدیدار ریاستی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ناجائز دولت جمع کرتے ہیں اور اپنے اعلانیہ وسائل سے بڑھ کر پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں،اس کی وجہ سے ریاست اور شہریوں کے درمیان شکوک و شہبات کے سائے گہرے ہوتے ہیں اور کوئی بھی اپنے ٹیکسز ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کا دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے ۔ ایک ملک میں جہاں کوئی بھی اپنے ٹیکسز ادا نہیں کرتا تو ریاست کے اخراجات کے لئے رقم کہاںسے لائی جائے؟ جب اشرافیہ ہی ٹیکس ادا نہیں کرے گی تو عوام کو کس طرح تحریک دی جائے گی؟ یہ وہ مقام ہے جہاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان موازنہ سیب کا آڑو سے موازنہ کرنے کے مترادف ہے ۔ اُنھوںنے حکومت کے خلاف اپنی مہم کا آغاز الیکشن اور ٹیکس گوشواروں میں اثاثوں کی غلط بیانی سے کیا ، لیکن اسے اتنا پھیلادیا کہ اب اس میں ہر کوئی (خود عمران خان بھی) آرہا ہے ۔
نواز شریف 1985ء سے اقتدار میں یں۔ پی ٹی آئی نے ابھی خیبر پختونخوامیں اپنی حکومت قائم ہی کی ہے ۔ نواز شریف نے پاکستان یا اس کے سب سے بڑے صوبے پر کم وبیش گزشتہ تین دہائیوںسے حکومت کی ہے، جبکہ عمران کو اس کا موقع نہیں ملا۔ ہمارے نظام میں حکمران طبقہ ریاست کے وسائل استعمال کرتے ہوئے ایسا نیٹ ورک قائم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مالی مفاد کے حصول اور اقتدار پر کنٹرول کو یقینی بناسکے۔ یہ نیٹ ورک پی پی پی اور پی ایم ایل (ن)کے باریاں لینے کے دور کی پیداوار ہے ۔ یقینااس میں پی ٹی آئی کے دامن پر کوئی آلودگی نہیں۔ پاناما اسکینڈل عوامی عہدیداروں کی طرف سے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور ملکی خزانہ لوٹ کر خالی کردینے سے متعلق ہے ۔ تاہم پاناما پر بحث جو رخ اختیار کررہی ہے ، اس میں عوامی عہدیداروں کے علاوہ باقی شہری بھی آئیں گے ۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں عمران خان اور دیگر بہت سے افراد ایک ہی کشتی کے مسافر دکھائی دیں گے ۔
اس سے پہلے عمران خان اور ان کی سیاست کے بدترین ناقد بھی اعتراف کرتے تھے کہ وہ مالی معاملات میں بے داغ ساکھ کے مالک ہیں۔ شوکت خانم اسپتال پر لگائے جانے والے الزامات میںکوئی جان نہیں، اور پھر ان کا تعلق سرمایہ کاری کرتے ہوئے اندازے کی غلطی سے ہے ۔ تاہم آپ خان صاحب کے بقول سمندر پا ر اکائونٹ کا مطلب ٹیکس چوری یا مالی بدعنوانی کو چھپانا ہے تو پھر یہ بحث کوئی رخ اختیار کرتی دکھائی دے گی۔ اگر دی نیوز میں شائع ہونے والی احمدنورانی کی کہانی درست ہے تو ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے پاکستان میں برائے نام انکم ٹیکس ادا کیا حالانکہ اُنھوں نے بطور کرکٹر بہت پیسہ کمایا اور کائونٹی کرکٹ کھیل کر لندن میں فلیٹ بھی خریدا۔ ایسا لگتا ہے کہ اُنھوں نے بھی اس فلیٹ کا ذکر اپنے اثاثوں میں نہیں کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق عمران خان نے فلیٹ کی فروخت اپنی سابقہ بیوی ، جو برطانیہ کی شہری تھیں، کو تحفے میں دے دی اور پھر اُنھوں نے بنی گالہ کی جائیداد خرید کر عمران خان کو تحفے میںدے دی۔ اگر80 یا 90کی دہائی میں کوئی ٹیکس چوری ہوئی تو ممکن ہے کہ 2000 کی دہائی میں کالے دھن کو سفید بنانے کے لئے شروع کی جانے والی اسکیموں سے استفادہ کرلیا گیا ہو۔ ایسی صورت میں تحفے کو ٹیکس چوری نہیں بلکہ ٹیکس کے دائرے میں شامل کیا جانا چاہئے ۔ عمران خان کا موقف ہے اُن کے تمام معاملات شفاف ہیں، اور ممکن ہے کہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہوں لیکن یہ معاملات اونچے اخلاقی منبر پر چڑھنے کے لئے کافی نہیں۔ اُنھوں نے 2013ء میں دولاکھ انکم ٹیکس ادا کیا۔ اتنا ٹیکس تو ایک وفاقی سیکرٹری بھی اپنی تنخواہ پر ادا کرتا ہے ۔ عمران خان کو اپنے وسیع گھر کو چلانے ، کچن ، یوٹیلٹی بل، گھریلو ملازموں کو تنخواہ اد اکرنے ،صفائی اور باغبانی ، پٹرول، بیرونی ممالک کے دورے ، مہنگے کتوں کو پالنے کے لئے اخراجات کی ضرورت تو ہوگی۔ لیکن اتنامعمولی انکم ٹیکس اد اکرکے وہ اس طرح کی زندگی کس طرح بسر کرسکتے ہیں؟
اس کے علاوہ پنجاب میں تین لاکھ سے زائدکی زرعی پیداوار پر بھی پندر ہ فیصد ٹیکس عائد ہے ۔ کیا وہ اسے ایمانداری سے ادا کررہے ہیں؟مختصر یہ کہ اگر ہم قانون کے مطابق ہر کسی کی ٹیکس ادائیگی کے کھاتے کھول لیں تو خدشہ ہے کہ عمران خود اس جانچ میں پورے نہیں اتر پائیںگے ۔ لیکن جہاں تک پاناما پیپرز کاتعلق ہے تو یہ ریاست کو ادا کئے جانے والے براہ ِراست ٹیکسز کے بارے میں نہیں ہیں کیونکہ دوسوملین کی اس ریاست میں صرف 0.5 فیصد افراد ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اگر پاناما بحث کا تعلق ماضی سے ہے تو پھر ہمیں تمام عوامی عہدیداروں کے اثاثوں اور درست آمدن کی چھان بین کرنی ہوگی۔ اگر ان کا تعلق مستقبل میں ہونے والی مبینہ ٹیکس چوری سے ہے تو اس کے لئے نئے قوانین بنانے ہوںگے تاکہ تما م چور دروازے بند کئے جاسکیں۔ لیکن جب ایک مرتبہ آپ سیاست سے قانون کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو پھر وقت کی اتنی اہمیت نہیں رہتی۔
تازہ ترین