• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا پاکستان کا سماج بھی ہماری سیاست کی طرح قدامت پسند ہے۔ ہمارے معاشرے میں کیا،دنیا بھر میں سیاست ایک غیر شفاف اور ناقابل اعتبار اصولوں پر مبنی نظریات کا نام ہے۔ ہمارے ہاں تو اب بھی اگر کوئی شخص حق اور سچ کو نظرانداز کرے تو فوراً کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست کر رہا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کے سیاست دان اور اشرافیہ اپنی بدحالی اور بدعہدی کا الزام ملک پر حکومت کرنے والے دوسرے اداروں پر لگا کر مظلوم بننے کی کوشش میں کوئی خاص کامیاب نظر نہیں آتے۔ سیاست دانوں کی کامیابی میں بدانتظامی اور نوکر شاہی کا بہت ہاتھ ہے ہماری کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت کبھی بھی اپنے منشور پر عمل نہیں کرتی۔ وہ اصولوں کا پرچار کرکے اصولوں اور قواعد کو نظر انداز کرتی ہیں کیونکہ ان کے مفادات میں اصول اور قواعد بھی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
بہت عرصہ کےبعد ہمارے دو مقبول سیاسی رہنما قومی اسمبلی میں وارد ہوئے پہلے دن وزیراعظم نوازشریف نے عوام کے نمائندوں سے کیا خوب خطاب کیا جبکہ ان کے مدمقابل اپوزیشن والے صرف سات سوالوں کا جواب چاہتے تھے۔ مگر وزیر اعظم کی طویل تقریر میں بقول اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ کےسات سوالوں کا جواب کیا ملنا تھا 70 سوال مزید پیدا ہوگئے اور اس بات کے بعد حزب اختلاف کی ٹولی نے قبل از فیصلے کے مطابق راہ فرار اختیار کی۔ اس موقع پر سب سے زیادہ تشکر اور خوشی ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کے چہرہ مبارک پر تھی۔ جب وزیر اعظم اسمبلی کے فلور پر اپنی کتھا سنا رہے تھے تو نوازلیگ کے اہم لوگوں کے چہرے پر یاسیت اور غیر یقینی کی کیفیت نمایاں تھی۔ ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق تو مسلسل حزب مخالف پر بلبلا رہے تھے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے ذاتی مقدمہ بڑے اچھے اور موثر انداز میں جذباتی دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ مگر بات میں سات سوالوں کا ذکر نہ ہونے کے سبب خورشید شاہ نے سرکار کو محفوظ راستہ دیا۔ اس موقع پر سیاسی علم نجوم کے معتبر رہنما شیخ رشید بہت زیادہ حرکت پذیرنظرآئے۔ جب حزب اختلاف کے نامور لوگ میڈیا کے سامنے آئے تو ان کے ساتھ سینیٹر اعتزاز احسن بھی تھے۔ اعتزاز احسن اس وقت اپنی پارٹی بچانے اور بنانے کےلئے سرگرم عمل ہیں ان کی پشت پر بلاول زرداری نظر آتےہیں جو اعتزاز کی طرح وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک تو نظر آتی ہے مگر سندھ میں ان کے حلیف ایم کیو ایم والے بھی ان سے خوش نہیں۔
جناب وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب کے بعد وزیر خزانہ نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ مل کر حزب اختلاف کو آمادہ کیا کہ وہ اسمبلی میں آ کر وزیر اعظم کے خطاب پر اظہار رائے کریں۔ حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ نے سابق صدر اور اعتزاز احسن سے مشاورت کی اور فیصلہ ہوا کہ وہ وزیر اعظم کی تقریر پر اپنا موقف بیان کریں گے اور حزب اختلاف کے دوسرے اہم قائد تحریک انصاف کے عمران خان بھی اپنے پر لگے الزامات کا جواب دیں گے۔ اس موقع پر نوازلیگ کے کچھ لوگوں نے اجلاس کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ۔ مگر اسپیکر ایاز صادق نے ان کو ایسا کرنے سے باز رکھا۔
اس دفعہ تحریک انصاف کے قائد کیپٹن عمران خان کی تقریر روایتی نہ تھی عمران خان کا ایک نیا روپ سامنے آیا وہ مکمل طورپر ایک کامیاب سیاسی لیڈر نظر آئے۔ ان کا لہجہ دھیما اور متوازن۔ انہوں نے بہت ہی سکون کے ساتھ حقائق بیان کئے۔ انہوں نے الزامات کا موثر جواب بھی دیا بلکہ انہوں نے سرکار وقت کو ان کی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا اور کہا کہ اگر انہوں نے کرپشن کی ہے تو سرکار کے پاس اختیار اور اقتدار ہے وہ ان کےخلاف کارروائی کا آغاز کرے اور یہ کہ وزیر اعظم پاکستان کو پانامہ لیکس کے سلسلہ میں الزامات کا نہ صرف جواب دینا ہوگا بلکہ عوام کو بھی باخبر رکھنا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ عمران خان ایک عرصہ کے بعد اپنی حیثیت منواتے نظر آئے۔ عمران خان پر مسلم لیگ نواز کے جو لوگ آگ برسا رہےہیں ان کی دلیل میں وزن کم اور شاہ سے وفاداری کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔ میاں نواز شریف کو ایسے رفیقوں کی ضرورت نہیں ہے۔ جو ان کا مقدمہ خراب کر رہے ہیں۔اب دوسری طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت سے درپردہ مشاورت میںمصروف ہیں۔ ان کی توجہ بجٹ پر بھی کم ہے۔ اس وقت ایوانوں میں ایک بار پھر جنوبی افریقہ کے ٹروتھ کمیشن پر غور ہو رہا ہے۔ خورشید شاہ لیڈر حزب اختلاف کوبھی اندازہ ہے سرکار وقت کو خطرہ صرف اور صرف اعتزاز احسن اور عمران خان سے ہے۔ ہمارے عسکری ادارے اس وقت ضرب عضب میں تو کامیاب ہو چکے ہیں مگر کرپشن اور بدانتظامی وہ بھی عوامی اداروں میں، ان کو ایک مشکل معاملہ نظر آ رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت تو ضروری ہے مگر سیاست اور کرپشن قابل قبول نہیں۔ اس معاملہ پر سیاسی جماعتوں کا ردعمل عوام دشمن نظر آتا ہے۔ چند دن پہلے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی قیام گاہ پر ہم خیال دوست میاں نواز شریف کے سیاسی مسائل پر بات چیت کر رہے تھے کچھ کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف اس مشکل وقت سے نکل سکتے ہیں۔ جس میں، میں بھی ان کا ہم خیال تھا۔ مگر ہمارے دوسرے دوستوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب کو کوئی نہ کوئی نیا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ جس کے بعد وہ مظلوم بھی بن سکتے ہیں۔ اس موقع پر مجھے خیال آیا ابھی چند دن پہلے گوجرانوالہ کے پیر اعجاز جو ایک زمانہ میںسابق صدر آصف علی زرداری کی آنکھ کا تارا تھے اب ان سے بدظن سے لگتے ہیں۔ پیر اعجاز شاہ عمران خان پر توجہ فرما رہے ہیں۔ اگر ہمارے وزیر اعظم ان کے رابطے کا مثبت جواب دیں تو مجھے یقین ہے کہ 2018 سے پہلے نوازشریف کے کلے اور قلعے کو کوئی بھی فتح کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر وزیر اعظم پر اپنے خاندان کا بڑا دبائو ہے وہ فیصلہ کرنے میں دیر کر رہے ہیں۔ خورشید شاہ پر اعتبار ان کو اپنے لوگوں میں تنہا کر سکتا ہے۔ اکیلا پن ان کی سیاست کو محدود کرسکتا ہے۔
تازہ ترین