• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان کا ناروے آنا اپنے آپ میں ایک فتح ہے، امیر خان متقی

اوسلو (ناصراکبر) نارویجن میڈیا کے مطابق طالبان کا ناروے آنا اپنے آپ میں ایک فتح ہے۔ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ میرا بنیادی پیغام یہ ہے کہ 40سالہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور آخر کار افغانستان میں امن آ گیا ہے۔ افغانستان کے وزیر خارجہ نےاوسلو کےسوریا موریا ہوٹل کے باہر پریس سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی ملاقاتوں سے طالبان کو بہت فائدہ ہوا ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں معیشت، صحت عامہ اور تعلیمی مواقع کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ نارویجن میڈیا کے مطابق مقامی صحافی نے سوال کیا کےآپ اس ملاقات کو اپنے لئے فتح کے طور پر دیکھتے ہیں تو انہوں نے کہ بالکل ناروے آنے کا موقع ملنا اپنے آپ میں ایک فتح ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم ایک اچھا تاثر دیں گے اور اس میٹنگ کے بعد بھی اچھے تعاون کے منتظر ہیں۔ ہفتے کے روزاوسلو ہوائی اڈے پر طالبان کے 15 افراد کے ایک نجی طیارے میں اترنے کے بعد ردعمل آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی اور انہیں سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ سوریا موریا ہوٹل میں لے جایا گیا، جہاں بحران سے متاثرہ افغانستان پر مذاکرات منگل تک جاری رہیں گے۔ افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد مغرب میں طالبان کا یہ پہلا اجلاس ہے۔ اوسلو میں سوریا موریا ہوٹل کےباہر امیر خان متقی سے پوچھا گیا کہ طالبان کے ضمیر پر کتنے عام شہریوں کی جان ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ طالبان کو ملک پرقبضہ کرنے والوں کے خلاف دفاع کرنا ہے۔ ہم طویل جنگ کی وجہ نہیں۔ ہم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنگ میں کسی کی جان نہیں گنوائی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کتنے شہریوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا ہے، تو انہوں نے جوابدیاہم صرف نمبر نہیں جانتے لیکن وہ نہ صرف ہماری وجہ سے بلکہ غیر ملکی فوج اور نام نہاد افغان فوج کی بمباری کے بعد ہلاک ہوئے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اورخواتین کو حکومت میں قبول کریں گے تو انہوں نے کہا ہم نے کبھی نہیں کہا کہ خواتین کو ہماری حکومت میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ خواتین کو جہاں ضرورت ہو وہاں کام کرنے دیا جائے۔ امیر خان متقی نے کہا ہمارے پاس قوانین اور ضابطے ہیں۔ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور افغانستان کے لوگ آزاد گھومتے ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ بیرون ملک میں لوگ ایسی جھوٹی باتیں کیوں پھیلاتے ہیں۔

یورپ سے سے مزید