• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت قومی افق پر کچھ تکلیف دہ حقائق ہیں جن کا فوری حل درکار ہے۔ گزشتہ دس روز کے دوران کراچی میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 90 دنوں کے دوران ہونے والی دہشت گردی (100 بم دھماکے اور دس خودکش حملے) کے نتیجے میں 1,500 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ قتل و غارت کی یہ لہر تھمتی دکھائی نہیں دیتی ہے چنانچہ وزیراعظم نواز شریف کو کراچی کی صورتحال کا نوٹس لینا پڑاہے۔ اس ضمن میں اُنہوں نے کابینہ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے تاکہ شہر کو جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے آپریشن کا فارمولا طے کیا جا سکے۔ اُنہوں نے قومی سلامتی پر کابینہ کی کمیٹی بھی قائم کی ہے تاکہ طالبان کے خلاف انسداد ِ دہشت گردی کی پالیسی بنائی جاسکے اور اس پر عمل یقینی بنایا جاسکے۔
قدرے تاخیر سے ہی سہی، لیکن”دیرآید، درست آید“ان اقدامات کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے تاہم ہمیں دیکھنا ہو گا کہ حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے اور ان سے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے لاقانونیت، دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کے لئے کراچی کو پاک فوج کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر آپریشن کیا جاسکے۔یہ تجویز بظاہر عجیب دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس سے پہلے ایم کیو ایم ہمیشہ سے ہی کراچی کے مسائل کے حل کے لئے کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ ان کے ذہنوں سے نواز شریف حکومت کی طرف سے 1992ء میں کئے گئے فوجی آپریشن اور محترمہ بھٹو کے دور میں 1994-96ء میں پولیس اور رینجرز کی مدد سے کئے گئے آپریشن کی تلخ یادیں کبھی محو نہیں ہوئیں کیونکہ ان دونوں مواقع پر ایم کیو ایم ہی آپریشن کا ہدف تھی تاہم اس مرتبہ ان کے طے شدہ موقف میں واضح تبدیلی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔
ایم کیو ایم اپنی سابقہ سیاسی حلیف جماعت اور حکومت میں شراکت دار پی پی پی سے مقامی حکومتوں کے نظام پر شدید اختلاف رکھتی ہے کیونکہ پی پی پی کے مجوزہ نظام کے تحت تمام تر اختیارات صوبائی حکومت کے پاس رہتے ہیں۔ دوسری طرف، شہرکی مقامی حکومت کے لئے ہونے والے ہر الیکشن میں ایم کیو ایم نے واضح برتری حاصل کی ہے، چنانچہ وہ شہر پر حکومت کرنے میں حق بجانب ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لئے نواز لیگ کے صدارتی امیدوار مسٹر ممنون حسین کو ووٹ دیا۔ اب اُنہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے کراچی میں مارشل لا کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے سندھ میں پی پی پی کو ایک سخت پیغام دے دیا ہے کیونکہ فوج کی طرف سے (اگر ایسا ہوتا ہے) کئے گئے کسی بھی آپریشن کی زد میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیںآ ئے گی بلکہ پی پی پی اور اے این پی کی صفوں میں موجود جنگجو عناصر بھی اس کا نشانہ بنیں گے۔
سیاسی طور پر ایم کیوایم نے یہ ایک زیرک داؤ کھیلا ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ نواز شریف فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنا نہیں چاہیں گے۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایم کیو ایم کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا“۔ اُنہوں نے کہا سندھ کے موجود ہ وزیراعلیٰ کی ”قیادت“ میں پولیس اور رینجرز کی مدد سے ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا۔ یہ تجویز پی پی پی کی سندھ حکومت پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ صوبے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت کرے۔ اگر پی پی پی کراچی کے مسائل کو حل نہیں کرتی اور نہ ہی ایم کیوایم کو اعتماد میں لیتی ہے تو پھر وفاقی حکومت صوبے میں گورنر راج کا نفاذ کر سکتی ہے تاہم یہ اقدام ملک میں جاری سیاسی اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچائے گا۔ ان حالات میں، جبکہ ایم کیو ایم اور پی پی پی اپنی اپنی چالیں چل رہے ہوں، وزیراعظم نواز شریف کے لئے کراچی میں امن بحال کرنے کے لئے فوری، موثر اور فیصلہ کن کارروائی کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اگر کسی آپریشن کی ذمہ داری ایم کیو ایم اور پی پی پی پر مشترکہ طور پر ڈال دی جائے تو اس کا انجام صفر ہو گا اور طرفین الزامات کی بارش کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ اس سے کراچی کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اگر وفاقی حکومت ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گورنر راج نافذ کرتی ہے تو دونوں مل کر احتجاج شروع کردیں گے۔ نوازشریف بھی تمام سول اور ملٹری اسٹیک ہولڈرز کو قومی سلامتی کی پالیسی پر بالعموم اور انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی پر بالخصوص اعتماد میں لے رہے ہیں۔ چوہدری نثار داخلی سیکورٹی اور انسداد ِ دہشت گردی کی ذمہ داری سنبھال لیں گے جبکہ مشیر برائے نیشنل سیکورٹی و خارجہ امور مسٹر سرتاج عزیز، جن کو وفاقی وزیر کے مساوی درجہ حاصل ہے، دہشت گردی کے خارجہ عوامل اور محرکات کا جائزہ لیں گے۔ بظاہر یہ ایک عمدہ اور مربوط حکمت ِ عملی دکھائی دیتی ہے لیکن دراصل اس پر شروع سے ہی اس کا جائزہ لینے والوں کی سیاسی انا اور عزائم ایک طرح کی رکاوٹ ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔
اصولی طور پر چوہدری نثار کو دونوں کام اپنے کندھوں پر نہیں لینے چاہئیں کیونکہ دونوں کے لئے کل وقتی توجہ درکار ہے۔ بطور وزیر ِ داخلہ ، وہ ایف آئی اے اور رینجرز کی فعالیت کو کنٹرول کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ہوم لینڈ سیکورٹی اور انسداد ِ دہشت گردی کا بیڑہ نہ اُٹھائیں، اس کے لئے کسی اور شخص کی ضرورت ہے جو ان کو فل ٹائم دے سکے۔ اسی طرح مسٹر عزیز کو بھی نیشنل سیکورٹی اور خارجہ امور میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہئے۔اس ضمن میں حکومت کو امریکی مثال پر عمل کرنا چاہئے جہاں ایف بی آئی (ہماری ایف آئی اے) اور ہوم لینڈ سیکورٹی (ہمارا انسداد ِ دہشت گردی کا شعبہ) دو مختلف ادارے ہیں اور ان کے فرائض بھی مختلف ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی موجودہ سمت ناکامی کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے تاہم ایک بات طے ہے، مسٹر شریف اپنے عزائم میں درست اور واضح ہیں کیونکہ وہ صورتحال کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تاہم ابھی اُنہوں نے ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں حکومت تبدیل ہو چکی ہے اور اب مسائل کے حل کے لئے درست اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
تازہ ترین