• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکومت کو بجلی اور لوڈ شیڈنگ کا بحران ورثے میں ملا اور اس نے آتے ہی اس کو حل کرنے کی ٹھانی ہے۔ پانچ سو ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ اتارا گیا ۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے نہ صرف نئے نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں بلکہ کچھ حد تک ان پر کام بھی شروع ہو چکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے بجلی چوروں کے خلاف گرینڈ آپریشن بھی شروع کر دیا ہے۔ اب تک صرف پنجاب میں 2ہزار سے زائد بجلی چوروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں ۔ صوبہ خیبرپختوانخوا میں سب سے زیادہ کنڈے لگا کر بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ سندھ کے اضلاع لاڑکانہ ، کشمور، سکندر آباد اور کراچی کے بعض علاقوں میں تو بجلی کے بل ہی نہیں دیئے جاتے۔ کوئٹہ میں16ہزار ٹیوب ویل غیر قانونی چل رہے ہیں۔ ایران ، مکران ڈویژن کیلئے 76میگا واٹ بجلی دے رہاہے جس کے بدلے پاکستان ایران کو سالانہ20 کروڑ روپے کی گندم دیتا ہے ایران سے آنے والی بجلی کو استعمال کرنے والے نہ تو بل دیتے ہیں، نہ ہی بلنگ کی جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہر سطح پر ہر قسم کے صارف بجلی چوری کرتے ہیں لیکن یہ تاثر سامنے لانا کہ شاید سارے پاکستانی ہی بجلی چور ہیں بذات خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ ہمیں اس چیز کا جائزہ لینا ہے کہ بجلی کون کون چوری کرتا ہے اور کیا یہ چوری واپڈا یا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ہو سکتی ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج تک بجلی چوری کو روکنے کیلئے کیوں کوئی موثر قانون نہیں بن سکا۔ جو قانون موجود ہے اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہو پاتا اس کی عام سی وجہ یہ ہے کہ تمام متعلقہ محکموں اور ان کے اہلکاروں کے مفادات ہیں وہ اتنے کرپٹ ہو چکے ہیں کہ ان سے کسی مثبت نتیجے کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ ایک مثال یہاں کوٹ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ نیا آرڈیننس بنانے کے حوالے سے ایک سرکاری دستاویز بنائی گئی ہے۔ اس کے مطابق صرف گزشتہ مالی سال کے دوران 220/ارب روپے کی 15/ارب یونٹ بجلی ضائع ہوئی ہے۔ جس میں 25سے40فیصد بجلی کی چوری شامل ہے۔ اس گزشتہ مالی سال کے دوران 23ہزار 770ایف آئی آردرج کرائی گئیں اور قارئین کو حیران کر دینے والی یہ بات ہے کہ ان میں سے صرف4کو قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ وفاقی حکومت کی طرف سے سالانہ 8/ارب کی بجلی چوری میں ملوث بااثر افراد کے خلاف آپریشن کیلئے صوبائی حکومتوں کو ایک خط لکھا گیا ہے کہ ہر صوبے میں بااثر افراد سالانہ 2سو ارب کی بجلی چوری کررہے ہیں اگر صوبوں نے تعاون نہ کیا تو وفاق خود آپریشن کرے گا اور امن وامان کی ذمہ داری صوبوں پر ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی چوری روکنے کیلئے نیا قانون بنانے کا پراسیس بھی جاری ہے۔ جو معلومات اس حوالے سے اب تک سامنے آسکی ہیں ان کے مطابق بجلی چوروں کو بھاری جرمانہ اور قید کی سزا ہوگی اور ایسے پکڑے جانے والے چور کی ضمانت بھی نہیں ہو سکے گی۔ محکمہ کے جو لوگ ان چوروں کو پکڑیں گے انہیں بازیاب رقم کا 2فیصد ملے گا۔ یوٹیلیٹی کورٹس قائم کی جائیں گی۔ بجلی چوری روکنے کیلئے بھارت کی طرز پر پاور پولیس اسٹیشن بنانے کی تجویز بھی ہے۔ یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ ایسا قانون نہ صرف بنایا جائے بلکہ اس پر عملدرآمد بھی ہو۔ یہ قانون اور یوٹیلیٹی کورٹس بنانے کیلئے کچھ یہ تجاویز بھی حکومت اپنے غور میں لائے کہ پاکستان میں صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے اور چند ہزار یا لاکھ چوروں کی سزا معزز اور اچھے صارفین کو نہیں ملنی چاہئے ان کے حقوق کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ مثال کے طور پر واپڈا کے محکمے میں جہاں بہت کرپشن ہے جس کا اثر صارفین پر بھی پڑتا ہے، نے گھریلو صارفین پر یہ الزام لگایا کہ گھروں کے اندر سے بجلی چوری ہوتی ہے تو میٹر گھروں سے باہر کھمبوں پر لگا دیئے گے۔ بعض جگہوں پر میٹر سٹرک کی دوسری طرف بھی لگائے گئے ہیں ۔ اب جب میٹر صارف کے کنٹرول میں نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری واپڈا پر ہے مگر کبھی کوئی تیسرا شخص اس میٹر سے بجلی چوری کر لیتا ہے یا کوئی گاڑی کھمبے کو ہٹ کر جاتی ہے جس سے میٹر ٹوٹ جاتا ہے یا خراب ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری صارف پر ڈال دی جاتی ہے اور بھاری رشوت لینے کے بعد یہ معاملہ رفع دفع ہوتا ہے۔ اب ذرا انڈسٹریل صارف کی مثال لیجئے، اس نے اگر میٹر لگوانا ہے تو سرکاری خرچہ دس لاکھ روپے تک ہے مگر پچاس لاکھ روپے سے زیادہ رشوت کے بعد یہ میٹر لگتا ہے۔ انڈسٹریل صارف نے اپنا ٹرانسفارمر لگوانا ہے مگر اسے اجازت نہیں کہ وہ اس کو اپنی چار دیواری میں محفوظ مقام پر لگوا سکے تاکہ نگرانی کی جا سکے۔ ٹرانسفارمر چوری بھی ہو سکتا ہے یا کبھی ٹرانسفارمر خراب ہو جائے تو وہ ازخود ٹھیک نہیں کروا سکتا۔ اس کیلئے اسے واپڈا کو کہنا ہوگا اور جب تک لاکھوں روپے رشوت نہ دی جائے وہ ٹھیک نہیں کرایا جائے گا اور ٹھیک بھی صرف واپڈا کے من پسند کمپنی سے ہو گا جو محکمہ کو بھاری کمیشن دیتے ہیں۔ اب چونکہ انڈسٹری کو زیادہ دیر بند نہیں کیا جا سکتا تو ایسے صارفین رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی صنعتی گروتھ کس قدر متاثر ہوتی ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ جہاں بجلی چوروں کو سخت سزائیں دینے کیلئے قانون بنا رہی ہے وہاں شریف صارفین جو اکثریت میں ہیں ان کے حقوق کے تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔ اس سے نہ صرف بجلی چوری روکی جا سکتی ہے بلکہ صنعتی ترقی بھی عروج پر پہنچ جائے گی۔ چند تجاویز ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔ نئے سرے سے گھریلو، صنعتی اور کمرشل صارفین کی تعریف کے تعین کی ضرورت ہے۔نئے سر ے سے ان صارفین کیلئے فیلٹ ریٹس کا تعین ہونا چاہئے۔ملک بھر میں اسمارٹ میٹر اور پری کارڈ سسٹم خصوصاً گھویلو صارفین کیلئے متعارف کرانا چاہئے۔ اس سے نہ صرف بجلی کا غیرضروری استعمال کم ہوگا بلکہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
لائن لاسز کو کم کرنے اور بجلی چوری روکنے کیلئے ڈسٹری بیوشن کے نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر ضلع کو بجلی پیدا کرنے ، ڈسٹری بیوشن اور وصولی کااختیار ہونا چاہئے ۔ وہ وفاقی محکمہ سے اپنے ضلع کی ضرورت کے مطابق بجلی لیکر اس کی ادائیگی کرے اور ضلعی انتظامیہ /بلدیاتی ادارے اس کو مانیٹر کرنے کا باقاعدہ نظام بنائیں۔ ضلع کے تمام صارفین کے مکمل کوائف ضلعی ویب سائٹ پر دیئے جائیں تاکہ عوام بھی چیک رکھ سکیں۔ گھریلو صارفین کے میٹر گھروں میں ان کی حفاظت میں دیئے جائیں اور پری پیڈ سسٹم رائج کیا جائے ۔
پاکستان بھر کے تمام اضلاع کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ضلع کیلئے علیحدہ علیحدہ فیڈر مخصوص کئے جائیں اور کم سے کم لائن لاسز کا مارجن رکھا جائے۔
بجلی کے میٹر وفاقی محکمہ مخصوص معیار کے بنوا کر فراہم کرے‘ اس کے علاوہ کوئی میٹر قابل قبول نہ ہو، اگر ایسے میٹر میں ٹیمپرنگ ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار میٹر فراہم کرنے والی کمپنی کو قرار دیا جائے کہ اس کے ناقص معیار کی وجہ سے ایسا ہوا اور اس کیلئے کم از کم عمر قید کی سزا قانون میں رکھی جائے ۔صارفین کی شکایات کے ازالے کیلئے ایک ڈیڈ لائن مقرر کی جائے اگر متعلقہ محکمہ کے اہلکار اس ڈیڈ لائن کے اندر شکایت دور نہیں کرتے تو ان کیلئے سخت سزا مقرر کی جائے جو معطلی، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور نوکری سے برخاستگی تک ہو سکتی ہے۔
تازہ ترین