• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قانون، حکمرانی، دانش، معیشت، انصاف، سماج ،امن، مساوات، تعلیم، صحت، ابلاغ ، صنعت، تجارت، سیاست، سفارت۔ زندگی کے جس بھی شعبے کے بڑے سے پوچھیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں قومی اتفاقِ رائے صدیوں سے موجود ہے۔ سب کہتے ہیں اور اپنی مرضی کا سچ کہتے ہیں… سب اچھا ہے !
ایف بی آر اور پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت سے پوچھ لیں۔ جن کی نگرانی میں اور نیٹو کی مہربانی میں صرف انیس ہزار گولہ گولی، توپ بندوق، مارٹر گرنیڈ،کلاشن ٹی ٹی، پسٹل راکٹ، بکتر بند اور نائیٹ وژن سے بھرے کنٹینر کھلے دل سے تقسیم ہوئے مگر قوم کے مال پر چلنے والے دونوں کہتے ہیں سب اچھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اب تک فیڈرل بورڈ آف ریوینیو اور کراچی پورٹ اینڈ شپنگ کے اُن کلرکوں کی فہرست فائنل ہو چکی ہو گی جن کی ”غفلت اور نا اہلی“ سے قائدِ اعظم کا پاکستان شہرِ قائدِ سے لے کر ڈیورنڈ لائن تک بارود کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ ہر بڑی واردات کے بڑے کردار بڑا جرم ہضم کرنے کے لئے ہمیشہ چھوٹے بابوؤں کو قربان کرتے چلے آئے ہیں۔ کل مجھے کراچی سے فون آیا ایک بہت محترم اور معروف شخصیت نے سوال کیا… آج کل پنجابیوں کو گڈانی سے اتنی محبت کیوں ہو گئی ہے…؟ میں نے کہا کچھ سمجھ نہیں سکا۔ پھر سوال ہوا بڑوں نے گڈانی کے سات پھیرے مکمل کر لئے ہیں اور آپ کو سوال سمجھ نہیں آ رہا…؟ میری خاموشی کو نیم رضا مندی یا کمزوری سمجھ کر مہربان کہنے لگے… یہ " پیپرا رولز“کیا بلا ہے… ؟ میں ابھی سنبھل بھی نہیں سکا کہ پھر سوال آیا ، اچھا یہ بتائیں انٹرنیشنل ٹینڈر کس ٹھیکے میں دیئے جاتے ہیں…؟ مجھے بولنے کا موقع دیئے بغیر پھر فرمایا بلوچستان کی سونے کی کان کس کو دی جارہی ہے…؟ لاکھڑا پروجیکٹ کی لیزلینے والی کمپنی کے مالکوں کا نام کیا ہے…؟ میرا حوصلہ جواب سے گیا، میں نے گزارش کی اصل سوال کیا ہے…؟ کہنے لگے بلوچستان کی بد امنی، کراچی کا قتلِ عام ،آگ اور بارود کے بھرے انیس ہزار کنٹینر، ملک کے سب سے بڑے صوبے میں چند ماہ میں پانچ ہزار سے زیادہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں روکنے پر کون توجہ دے گا…؟ پاکستان کی ریاست توکمرشل اسٹیٹ بنتی جارہی ہے۔ ایک خالص کاروباری ریاست ٹمبکٹو کی طرح۔ یا کاروبار کے معاملے میں دنیا کی سب سے تیز رفتار ریاست۔ میں نے انہیں حوصلہ دیا… فکر مت کرو… سب اچھا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر جری سپاہیوں اور نہتے شہریوں کا خون بہہ رہا ہے۔ انڈیا کے میڈیا نے اکھنڈ بھارت کا راگ شروع کر رکھا ہے۔ مشرقی بارڈر کی فضائی خلاف ورزی معمول کی کاروائی بنتی جا رہی ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ کے دانش کدے میں بھارتی وزیر اعظم کیساتھ فوٹو سیشن کی تیاری سال کاسب سے بڑا پروجیکٹ سمجھا جا رہا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کے دفتر جیسی اہم ترین عمارت ریٹائرڈ بابوں کا ڈمپنگ گراؤنڈ بن گیا ہے۔ جس ملک کی پینسٹھ فیصد آبادی یوتھ اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ وہاں اسی سال اور پچاسی سال اور ستاسی سال کے تجربہ کار سنیاسی باوے پھر آزمائے جا رہے ہیں۔ نوجوان خون گرم ہوتا ہے اور جوشیلا بھی۔ اس میں زندگی کی امنگ ہوتی ہے اور مسائل کے ساتھ جنگ کی توانائی بھی۔ اسے مصلحت یا خوشامد اور مصالحت یا چمچہ گیری نہیں آتی۔ جبکہ پاکستان کے طرزِ حکمرانی میں اقتدار کے کان نہیں ہوتے وہاں دو عدد ریسیور لگے ہوئے ہیں۔ ایک ریسیور صرف اور صرف خوشامد سننے کا عادی ہے اور دوسر ا صرف اور صرف چغل خوری سن سکتا ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی ا جنبی آواز سنائی دے، دونوں ریسیور چیخ پڑتے ہیں۔ تبدیلی آ چکی ہے… سب اچھا ہے۔پاکستان وہ پہلا ملک ہے جہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور میڈیکل کالجوں نے طالب علموں کو پانچ فیصد سرکاری ٹیکس کی وصولی کے باقاعدہ تحریری نوٹس جاری کیے ہیں۔ جمہوریت کے سبز باغوں سے پاکستان کی یوتھ کو ملنے والا یہ تازہ پھل اُس زمانے میں ملا ہے جب پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 25 A کی رُو سے تعلیم کو بنیادی انسانی حق قرار دیا گیا ہے۔ اس 25 A کو اسلحہ کے بھرے انیس ہزار کنٹینروں کو نظر انداز کرنے والے ایف بی آر نے پورے کا پورا نظر انداز کیا ۔اور جب حالیہ بجٹ کے دوران فنانس ایکٹ میں چھپا کر تعلیم پر ود ہولڈنگ ٹیکس لگایا گیا تو پاکستان کی وہ پارلیمنٹ جسے طالب علموں اور جوانوں نے کندھے پر بٹھا کر اقتدار تک پہنچایا، اس پارلیمنٹ نے بجٹ پر بحث نہیں کی۔ آرٹیکل 6 کی قوالی چھیڑ دی۔ آج کوئی اس قوال پارٹی اور اس کے ہمنواؤں سے پوچھے کہ بھائی جان آرٹیکل 6 کا کیا حال ہے…؟ تو ان کا جواب یہی ہو گا چھوڑو بھئی… سب اچھا ہے۔استاد دامن نے بسترِ مرگ پر جنرل جیلانی کا پانچ ہزار کا چیک یہ کہہ کر واپس کر دیا تھا کہ میں اُن کا احسان کیوں اٹھاؤں ؟ جو خود مانگ کر کھاتے ہیں۔ استاد دامن دیس بھگتی کے گیت گاتے اورخلق خدا کے راج کے خواب دیکھتے شاہ حسین کی چلہ گاہ والے حجرے سے سچے رب کے پاس چلے گئے۔ آج ہوتے تو یہ دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے کہ اُن کے ہم وطن کس خوبصورتی اور کاری گری سے قومی غیرت اور آئی ایم ایف۔ ٹوٹا ہوا کشکول اور ورلڈ بینک۔
قرضے کی مئے اور قرض اتارنے کیلئے مزید قرضے۔ اقبال کی خودی اور امریکہ کی ڈکٹیشن کے ساتھ ساتھ جرأتِ رندانہ سے للکار رہے ہیں… سب اچھا ہے۔
راوی، چناب، ستلج اور بیاس میں چھوڑے گئے پانی کی بھارتی جارحیت کے نتیجے میں لاکھوں لوگ، ہزاروں گھرانے، لا تعداد بستیاں اور فصلیں برباد ہو گئی ہیں۔ اپوزیشن جمہوریت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ اس لئے سیلاب میں ڈوبے ہو ئے ووٹروں کی سسکیاں اور خانہ بربادوں کی آہیں نہیں سن سکتی۔ اتنی برادرانہ ، اس قدر ایکسٹرا فرینڈلی اور ہمجولی اپوزیشن کے تاریخی تعاون سے خوش قسمت حکمرانوں کے لئے بارشوں کے سیلاب، لوڈ شیڈنگ کے عذاب اور مہنگائی کے طوفانِ نوح کے باوجود بھی… سب اچھا ہے۔
1974ء پاکستان میں دردناک سیلاب کا عذاب لایا تھا ۔ تب لکھنے والے ، سوچنے والے اور بولنے والے سیلاب زدگان کیساتھ تڑپ اٹھے تھے۔ فیض احمد فیض نے1974 ء میں سیلاب زدگان کی امداد کیلئے”میری ڈولی شوہ دریا“ جیسی نظم لکھی۔ اسی سال فیض نے غریبوں کا یہ نوحہ بھی کہہ ڈالا۔
رَبا سچیا توں تے آکھیا سی۔۔۔
جا او بندیا، جگ دا شاہ ایں توں
ساڈیاں نعمتاں، تیریاں دولتاں نیں
ساڈا نیب تے عالی جاہ ایں توں
ایس لارے تے ٹور، کدے پُچھیا ای
کِیہ اِس نمانے تے بیتیاں نیں
کدی سار وی لئی اُو ، رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کیہ کیتیاں نیں
کِتے دھونس پولیس، سرکار دی اے
کتے دھاندلی مال پٹوار دی اے
اینویں ہڈاں وچ کلپے جان میری
جیویں پھائی وِچ کونج کُرلاوندی اے
چنگا شاہ بنایا ای، رب سائیاں
پولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
مینوں شاہی نہیں چاہی دی، رب میرے
میں تے عزّت دا ٹُکّر منگناں ہاں
میری مَنیں تے تیریاں میں منّاں
تیری سَونھہ جے اک وی گَل موڑاں
جے ایہہ مانگ نئیں پُجدی تے ربّا
فیر میں جاواں تے رَب کوئی ہور لوڑاں
تازہ ترین