• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن ممالک کی معیشت مضبوط ہوتی ہے، ان کی ایکسپورٹس، ترسیلاتِ زر، غیر ملکی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوتے ہیں اور ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے ان ممالک کی کرنسیاں مضبوط اور مستحکم رہتی ہیں لیکن وہ ممالک جن کی معیشت کمزور ہوتی ہے، ان کی ایکسپورٹس، غیر ملکی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہیں اور ان کی کرنسیوں کی قدر گرتی رہتی ہے۔ پاکستان آج کل اسی صورتحال سے دوچار ہے اور معیشت کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور توانائی کے بحران کے باعث ہماری صنعتی پیداوار اور ایکسپورٹس میں اضافہ نہیں ہورہا جبکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں نئی سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں لے رہے، آئل کی اضافی امپورٹ ، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ فروری 2012ء میں ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً 16.5 بلین ڈالر تھے جو اب کم ہوکر 10.3 بلین ڈالر رہ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 5.2 بلین ڈالر اور باقی نجی بینکوں کے کھاتے داروں کے ہیں جو ہمارے صرف 30 دن کے امپورٹ بلزکیلئے کافی ہیں، جس کا براہ راست اثر پاکستانی روپے کی قدر پر پڑ رہا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ 105 کی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جو آئی ایم ایف کا بھی مطالبہ تھا۔ گزشتہ مالی سال پاکستانی روپے کی قدر میں 5% کمی ہوئی او اسی دوران انڈیا میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 5% تک کمی ہوئی جبکہ بھارتی روپے کی قدر میں اس سال 8% کمی ہوئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قدر 68.85 روپے تک گرگئی ہے اور امکان ہے کہ جلد یہ 70 روپے تک پہنچ جائے گی ۔ بھارتی روپے کی قدر میں اس سال اتنی زیادہ کمی ایشین ممالک کی کرنسیوں میں سب سے زیادہ ہے، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انڈین اسٹاک ایکسچینج میں بیرونی سرمایہ کاروں نے جون سے اب تک 3.6 بلین ڈالر کے اپنے اسٹاک فروخت کئے ہیں جبکہ خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش، سری لنکا، چائنا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی کرنسیاں مستحکم ہیں بلکہ بنگلہ دیشی ٹکا کی قدر میں 4% اضافہ ہوا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں بنگلہ دیشی ٹکا گزشتہ سال 81.50 ٹکے کی قدر کے مقابلے میں 20 اگست 2013ء کو مضبوط ہوکر 77.68 تک پہنچ گیا ہے جو بنگلہ دیش کی بہتر معیشت کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستانی اور بھارتی روپے کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت پر بھی اثر پڑا ہے۔ پاکستان سے سیمنٹ اور خشک میووں کے روزانہ 70 سے 80 ٹرکس کم ہوکر 30 سے 40 تک رہ گئے ہیں۔ انٹر بینک کے علاوہ اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر 104 روپے تک جا پہنچی ہے۔ گزشتہ ہفتے سب سے زیادہ اضافہ برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں ہوا جو ایک ہفتے کے دوران ایک روپے 40پیسے بڑھ کر 159روپے 65پیسے میں فروخت ہوا۔ گزشتہ ہفتے اماراتی درہم کی قدر میں استحکام رہا۔ کاروباری ہفتے کے اختتام پر اماراتی درہم 28روپے 10پیسے پر مستحکم رہا۔
سعودی ریال کی قدر گزشتہ ہفتے 5پیسے اضافے کے بعد 27روپے40پیسے ہوگئی۔ کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اگست میں آئی ایم ایف کو 400 ملین ڈالر کی ایک بڑی قسط کی ادائیگی نے روپے کی قدر کو دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکنے کیلئے وزیر خزانہ نے اپنے حالیہ دورہ کراچی میں بینکوں کے صدور اور منی ایکسچینجرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے ملاقات کی اور بتایا کہ انڈیا میں سونے کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی بڑھاکر 10%کرنے کی وجہ سے پاکستان میں سونے کی بغیر کسٹم ڈیوٹی عارضی امپورٹ جس کے تحت سونا جیولری بناکر ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے، 200 کلوگرام سے بڑھ کر 1400 کلوگرام تک پہنچ چکی ہے کیونکہ یہ سونا پاکستان کے راستے انڈیا اسمگل کیا جارہا ہے تو اسے روکنے کیلئے پاکستان میں بھی سونے کی امپورٹ پر انڈیا کے برابر کسٹم ڈیوٹی عائد کی جانی چاہئے لیکن ایسا کرنے سے ملک میں سونا مہنگا ہوکر غریب و متوسط طبقے کی استطاعت سے باہر ہوجائے گا،لہٰذا سونے کی اسمگلنگ سے روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کیلئے حکومت نے سونے کی امپورٹ پر ایک ماہ کیلئے پابندی عائد کردی تھی، جس کی وجہ سے پاکستانی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 8%اضافے سے 55,300 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی ہے۔ سونے کی امپورٹ کی نئی پالیسی کا اعلان جلد ہی متوقع ہے۔روپے کی قدر میں کمی سے ہمارے بیرونی کرنسی میں لئے گئے قرضوں کی مالیت میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک پر اس کی ادائیگی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے امپورٹ کی جانے والی اشیاء کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے جس کا بوجھ صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنی ایکسپورٹ کی مصنوعات بنانے کیلئے خام مال مثلاً ڈائز، کیمیکلز، پولیسٹر یارن وغیرہ امپورٹ کرنا پڑتا ہے، ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے ہماری درآمدی لاگت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہاں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہمارے ایکسپورٹرز کو فائدہ ہوتا ہے کیونکہ انہیں ڈالر کے مقابلے میں زیادہ روپے ملتے ہیں لیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ایکسپورٹرز آرڈرز لینے کیلئے کرنسی کا یہ فائدہ اپنے خریداروں کو ڈسکاؤنٹ کی شکل میں دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نے فوری طور سے اپنی بجلی خود پیدا کرنے والی صنعتوں کی قیمتوں میں 17% اضافہ کیا تو ایکسپورٹرز کیلئے یہ اضافی لاگت اپنے بیرونی خریداروں سے وصول کرنا ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر ایکسپورٹرز کو اپنے پرانے آرڈرز میں نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو 2013ء میں آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کو 4 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جس کے بعد زِرمبادلہ کے ذخائرمیں مزید کمی آئے گی۔ حکومت یہ توقع کر رہی ہے کہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ قسط کی مد میں 600 ملین ڈالر، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے 800 ملین ڈالرکے بقایا جات اور تھری جی لائسنس کی نیلامی سے تقریبا ایک بلین ڈالر حاصل ہوں گے۔ بینکنگ ذرائع کے مطابق حکومت نے 5.67% کی اونچی شرح منافع پر 500 ملین ڈالر قرض کے حصول کیلئے پاکستان میں قائم غیر ملکی بینکوں کو خطوط لکھے ہیں، ان بینکوں کیلئے یہ انتہائی سودمند ہے کہ وہ 2.5% سے 3% شرح منافع پر یہ فنڈز اپنے بینکوں کے ہیڈ آفس سے حاصل کرکے حکومت پاکستان کو تقریباً 6% شرح منافع پر دیں کیونکہ یورپ اور امریکہ میں فیڈرل ریزرو ریٹ 1% سے بھی کم ہے اور امریکہ میں بینکس 15 سال کے طویل المدتی قرضے صرف 2.5% سے 3% شرح سود پر دے رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر خزانہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ آئندہ حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے مجموعی 12 بلین ڈالر کے قرضے ملیں گے۔اس سال بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر 14 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جس میں مزید اضافہ متوقع ہے جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کسی حد تک مستحکم ہوں گے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے 5.3 بلین ڈالر کے نئے قرض ملنے سے ہمارے قرضوں کی ادائیگی میں مدد ملے گی۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ملک کے معاشی منتظمین کیلئے تو پریشان کن ہے ہی مگر عوام کیلئے بھی شدید مشکلات کا پیش خیمہ ہے۔ ملک میں پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہورہا ہے اور عوام کیلئے روپے کی قدر میں کمی کا مطلب مہنگائی اور غربت میں مزید اضافہ ہے۔
تازہ ترین