• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف چھوٹے صوبوں کی طرف بھی توجہ دیں!...جی این مغل

یہ پاکستان کی موجودہ تاریخ کی کوئی چھوٹی ٹریجڈی نہیں ہوگی اگر حال ہی میں انتخابات میں جمہوری انداز میں منتخب وزیراعظم نواز شریف اپنی مثبت اپروچ سے اباؤٹ ٹرن کریں۔ ان سے یہ توقع نہیں تھی مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ میں نے جمعرات والے اپنے کالم میں کہا تھا کہ میں اس وقت عمران خان، نواز شریف اور الطاف حسین صاحب کے فرمودات پر کالم لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کالم میں، میں نے بات تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ایک انتہائی خطرناک تجویز کا ذکر کرتے ہوئے شروع کی تھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ فاٹا اور دیگر علاقوں سے مسلح مذہبی انتہا پسندی کے طوفان کا سامنا کرنے کیلئے نواز شریف ان کا اور فوج کے سربراہ کا اجلاس بلائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کی باقی دو اکائیوں سندھ اور بلوچستان کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ اس وقت تک نواز شریف اور فوج کی طرف سے اس تجویز کا کوئی ردعمل نہیں آیا تھا، سمجھا جا رہا تھا کہ یہ تجویز قبول نہیں ہوگی مگر بعد کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے شاید یہ تجویز قبول کرلی ہے۔ فوج کے ادارے کی طرف سے ردعمل معلوم نہیں ہو سکا۔ کم سے کم نواز شریف سے اس تجویز کو قبول کرنے کی توقع نہیں تھی۔ مگر اتنا ہی تو نہیں ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف منتخب ہونے کے بعد پہلی بار قوم سے خطاب کر رہے تھے۔ اس تقریر سے بڑی توقعات وابستہ تھیں مگر اس تقریر میں کیا تھا؟ کچھ بھی تو نہیں تھا۔ نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے سلسلے میں کو ششیں کیں۔ دوسری طرف سے شاید من موہن سنگھ کی طرف سے بھی مثبت ردعمل آرہا تھا اور امید کی جا رہی تھی کہ جلد کہیں نہ کہیں نواز شریف اور من موہن سنگھ میں ملاقات ہوگی مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ دونوں ملکوں کی کچھ جنگجو لابیاں سرگرم ہوگئیں اور سچ مچ اس ماحول کو کسی حد تک سبوتاژ کر دیا گیا۔ اس کے باوجود توقع تھی کہ وزیراعظم نواز شریف اپنے ریڈیو اور ٹی وی خطاب میں اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ مثبت اشارے دیں گے مگر افسوس اس تقریر میں نواز شریف نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ تقریر کے بعد کی اطلاعات کے بعد تقریر سے پہلے اسلام آباد میں وزیراعظم سے فوج کے سربراہ نے ملاقات کی۔ اگر یہ ملاقات ہوئی تو اس میں کونسی غلطی ہوئی؟ وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور ہوتی رہنی چاہئیں مگر اس سلسلے میں قابل غور اور انتہائی قابل اعتراض بات یہ ہوئی کہ اس اجلاس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی شرکت کی۔ اگر اس اجلاس میں شہباز شریف کی شرکت لازمی تھی تو اس اجلاس میں سندھ بلوچستان اور کے پی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو شرکت کی کیوں دعوت نہیں دی گئی؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے مگر بعد میں کیا ہو؟ نواز شریف اپنی تقریر میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ایک لفظ بھی نہ بول سکے؟ تو کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی وجہ سے ہوا۔ اب تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ نواز شریف کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے اور عمران خان اور شہباز شریف کسی نہ کسی طرح ON Board ہیں۔ اور شاید چاہتے ہیں کہ نہ مذہبی انتہا پسندی کا راستہ روکا جائے اور نہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات معمول پر آئیں۔ اگر ایسا ہے تو اس کی کھوج لگانی بہت ضروری ہے۔ پھر ان دنوں شہباز شریف اور پنجاب میں ان کی پسند کے وفاقی وزیروں کی ٹیم کی طرف سے جو سرگرمیاں ہوئی ہیں وہ کوئی کم خطرناک نظرنہیں آرہی ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد نواز شریف ایک اعلیٰ سطحی وفد لیکر چین گئے تھے۔ اس سلسلے میں کچھ بڑے دلچسپ قصے ہیں جو ہم اس کالم میں آپ سے Share کریں گے مگر سب سے قابل اعتراض بات یہ کی گئی کہ وزیراعظم کی دعوت پر کوئلے پر بجلی گھر لگانے والی چین کی ایک بڑی کمپنی جب21ممبران کا وفد لیکر سندھ میں تھر کے کوئلے سے بجلی گھر بنانے کے سلسلے میں سندھ حکومت سے مذاکرات کے بعد M.O.U کا ڈرافٹ تیار کر رہے تھے تو اس وفد کو کیسے فوری طور پر لاہور بلا کر اس وفد سے لاہور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ نے سندھ کے نزدیک بلوچستان کے مقام گڈانی میں کوئلے پر بڑا بجلی گھر لگانے کے سلسلے میں بلوچستان حکومت کی طرف سے چینی کمپنی کے ساتھ M.O.U پر دستخط کئے۔ بعد میں اخباری اطلاعات کے مطابق شہباز شر یف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بجلی گھر میں پیدا ہونے والی بجلی پنجاب کو فراہم کی جائے گی۔ اگر پنجاب کو اس طرح بجلی فراہم ہوتی ہے تو سندھ کے عوام کو خوشی ہوگی مگر کیا وزیر اعلیٰ پنجاب یہ سب کچھ آئین کے مطابق کر رہے ہیں۔ کیا وہ بلوچستان کی طرف سے M.O.U پر دستخط کرسکتے تھے؟ جبکہ اطلاعات کے مطابق اس تقریب میں نہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ موجود تھے اور نہ ان کا کوئی نمائندہ موجود تھا۔ 18ویں تر میم کے بعد آئین کی شق (c)(a)(2)157 کہتی ہے کہ:
"The Goverment of a Province, may,(a) to the extent electricity is supplied to that Province from the national grid, require aupply to be made in bulk for transmission and distribution with-in the province; (c) construct power houses and grid station and lay from transmission lines for use with-in the province, and"
شہباز شریف اور ان کی ٹیم سے گزارش ہے کہ وہ آئین کے اس شق کو پڑھیں اور پھر بتائیں کہ آیا وہ آئین کی علی الاعلان خلاف ورزی نہیں کر رہے۔ بیچارہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ شدید مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔ فی الحال ہم ان کا ذکر نہیں کرتے مگر سندھ کے ڈیولپمنٹ اور آئینی ماہرین نے شہباز شریف کے اس Conduct کا سخت نوٹس لیا ہے اور سوال کر رہے ہیں کہ کیانئی حکومت نے کم سے کم بلوچستان حکومت کو پنجاب کی De-facto Colony کے طور پر Treat کرنا شروع کر دیا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو کیا یہی پالیسی سندھ اور کے پی کے لئے بھی نہیں ہو سکتی؟ مگر افسوس تو یہ دیکھ کے ہو رہا ہے کہ شاید نواز شریف مکمل طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی سوچ کے قریب آگئے ہیں۔ آج ہفتے کو جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں نواز شریف صاحب کراچی کے کیمرہ مین کو لیکر گڈانی گئے ہوئے ہیں۔ وہ باقی میڈیا کو کیوں ساتھ نہیں لے گئے یہ سمجھ میں نہیں آسکا۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے چھوٹے صوبوں کی نفسیات پر خراب اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف سے امید ہے کہ وہ اس مشن کو ترک کردیں گے۔ یہ بھی دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ شہباز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ گڈانی میں جس کوئلے پر بجلی گھر لگے گا وہ تھر لاکھڑا اور سندھ اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں وافر مقدار میں موجود کوئلے کے ذخیروں کے بجائے باہر سے درآمد کیا جائے گا حالانکہ کوئلے کے ماہرین کے مطابق تھر میں کوئلے کے اتنے وسیع ذخائر ہیں کہ ان میں سے سارے ملک کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے بعد اس سے پیدا ہونے والی بجلی ہم ہندوستان کو بھی برآمد کر سکتے ہیں۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق فی الحال پنجاب ہندوستان سے بجلی درآمد کرنے کے انتظامات کر رہا ہے۔ کچھ ماہرین نے یہ بھی دلچسپ انکشافات کئے ہیں کہ شہباز شریف صاحب کی ہدایات پر گڈانی کے بجلی گھر میں جو درآمد شدہ کوئلہ استعمال کیا جائے گا وہ اس وقت دنیا کا اعلیٰ ترین معیار کا کوئلہ ہوگا اور وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں انتہائی مہنگا ہے۔ ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ کیا پنجاب، پاکستان اتنا مہنگا کوئلہ درآمد کرنے کو afford کرسکتے ہیں اور کریں گے تو کب تک کر سکیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس معیار کے کوئلے سے ہندوستان میں بھی فی الحال ایک بجلی گھر بن رہا ہے جو بھی ابھی تک پیداوار شرو ع نہیں کر سکا۔ ان حقائق کی روشنی میں کچھ ماہرین نواز شریف اور شہباز شریف کے اس منصوبے کو پاکستان کے لئے Developmental Adventure قرار دے رہے ہیں۔
مگر فقط اتنا بھی تو نہیں ہو رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے گزشتہ دور میں جب نواز شریف نے کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس کے خلاف باقی تینوں صوبوں میں ایجی ٹیشن ہوا تھا اور خاص طور پر سندھ کی ساری سیاسی جماعتوں نے پی پی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں سندھ، پنجاب بارڈر پر دھرنا دیا تھا تو اس کے بعد نواز شریف نے کالا باغ ڈیم کا اعلان واپس لے کر اعلان کیا تھا کہ یہ منصوبہ اس وقت بنے گا جب اس سلسلے میں چاروں صوبوں میں اتفاق رائے ہوگا۔ نواز شریف اور نواز لیگ کی اب بھی یہی پالیسی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے پانی اور بجلی کے وزیر خواجہ صاحب کو یہ کس نے اجازت دی کہ وہ اس پالیسی کو یکطرفہ سبوتاژ کر کے اعلان کریں کہ اب کالا باغ ڈیم بنانا قومی منصوبے کا حصہ ہے۔فقط اتنا ہی نہیں، یہ جو نیشنل سیکورٹی کونسل بنی ہے تو اس میں باقی تینوں صوبوں کی نمائندگی کہاں ہے؟ کیا پاکستان کے مفاد میں نہیں کہ صوبائی خود مختاری کا دائرہ بڑھایا جائے اور 18ویں ترمیم کو اور وسیع کیا جائے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ نیشنل سیکورٹی کونسل اور نیشنل سیکورٹی پالیسی کی تشکیل اب 18ویں ترمیم کے تحت سی سی آئی کو دی جائے جن میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوگی بلکہ ملک کے مفاد کا تقاضا ہے کہ خارجہ پالیسی کو بھی کسی حد تک سی سی آئی کے تحویل میں دینے کا بغور جائزہ لیا جائے۔ امریکہ میں جو خارجہ پالیسی یا سیکورٹی پالیسی بنتی ہے وہ کسی ایک ریاست کی نہیں سارے امریکہ کے عالمی مفادات اور علاقائی مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ سارے یورپ میں ایسا ہوتا ہے، ساری دنیا میں ایسا ہوتا ہے تو جو اصول ساری دنیا کے فائدے میں ہیں پاکستان کے مفاد میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ آخر پاکستان میں خارجہ پالیسی اور سیکورٹی پالیسی ملک کے بجائے ایک صوبہ یا ایک ادارہ کیوں بنائے۔ انتہائی ادب سے اس خطرے کا اظہار کرتا ہوں کہ عمران خان اور شہباز شریف ٹولے کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایک بار پھر ”گریٹر پنجاب“ کا کوئی نظریہ تو سامنے نہیں لایا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ نواز شریف کا اباؤٹ ٹرن ہوگا جو جمہوریت کے لئے کسی بڑے حادثے سے کم نہیں ہوگا۔
تازہ ترین